خبرنامہ

کیا میں غدار ہوں

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

کیا میں غدار ہوں

اللہ کی شان ہے، تین ماہ تک ہر ٹی وی چینل پر ایک ہی گردان ہورہی تھی کہ مشرف نے غداری کا ارتکاب کیا ہے، اب ہر کوئی چوکڑی بھول گیا ہے اور عوامی ریلیوں اور ریلوں میں ایک ہی ادارے اور ایک ہی صحافی پر غداری کا الزام لگ رہا ہے۔
مشرف کے حامی روتے رہ گئے کہ غدار تو نہ کہو، قانون شکن کہ لو، مگر کوئی ماننے کے لیے تیار نہیں ہوا۔ آرٹیکل چھ تو بہر حال غداری کے جرم پر لاگو ہوتا ہے اور مشرف پراسی آرٹیکل کے تحت مقدمہ چل رہا ہے۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے، پانچواں مہینہ چڑھ چکا مگر سرکاری پراسیکیوٹر کہتے تھے کہ بس چند دنوں کی مار ہے۔ مشرف اس اثناء میں اسلام آباد سے کراچی پہنچ گیا، عدالتیں اور حکومت اسی ایک نکتے میں کھبی ہوئی ہیں کہ اسے ای سی ایل سے نکالا جائے یانہ نکالا جائے۔ میڈیا نے اس دوران میں ہزاروں نہیں تو سینکڑوں ٹاک شوز چلائے، یہ جاننے کے لیئے کہ مشرف غدار ہے یا آئین شکن۔ زیادہ تر رائے یہی تھی کہ آ ئین شکن کوبھی آئین نے غداری کہا ہے، یہ سوال اٹھتا تھا کہ مقدمہ بارہ اکتوبر کی آئین شکنی پر کیوں نہیں۔ جواب ملتا کہ اس سے پنڈورا باکس کھل جائے گا، چیف جسٹس اور باقی پی سی او زدہ عدلیہ بھی غداری میں دھر لی جائے گی، پارلیمنٹ بھی شریک جرم ہوگی اور وہ تمام طبقات جنہوں نے مشرف کا ساتھ دیا۔ ویسے نومبر کی ایمرجنسی بھی کم پنیڈورا باکس نہیں ہے، چودھری شجاعت کہتے ہیں کہ وہ اس فیصلے کے ساتھ تھے، ایک وکیل رانا اعجاز احمد خاں نے کہا کہ وہ اپنے جرم کا اقرار کرتے ہیں، انہیں غداری کی سزا دی جائے، پھر فوج کے جرنیل بھی اس مقدمے کی لپیٹ میں آجاتے کیونکہ یہ فیصلہ مشرف نے آرمی چیف کے طور پر کیا تھا اوریہ تاثر دیا تھا کہ کور کمانڈرز نے اس کے فیصلے کی توثیق کی ہے۔ جس دن ایمرجنسی نافذ ہوئی، اس روز کے وزیر قانون آج نواز شریف کے ساتھ اقتدار میں ہیں مگر حکومت نے صرف ایک ملزم نامزد کیا ہے، شاید ارادہ یہ ہوگا کہ یہ ملزم گرفت میں آئے گا تو باقی شریک مجرموں کے نام لیتا جائے گا، اور حکومت ان کو پکڑتی جائے گی۔ یہ سب کچھ سوچنا بہت آسان ہے، اس پرعمل کرنا بہت مشکل بلکہ ناممکن، ابھی تو ایک شخص پکڑائی نہیں دے رہا۔ وہ عدالت میں جانے سے کتراتا رہا اور جس روز وہ عدالت میں حاضر ہونے کے لیئے گھر سے نکلا تو اس کا قافلہ اچانک پنڈی کے فوجی ہسپتال کی طرف موڑ دیا گیا۔ یہاں سے فوج کی مرمت شروع ہوگئی، ٹی وی چینلز پر کہا جانے لگا کہ بڑا کمانڈو بنتا تھا، ہسپتال میں چھپا بیٹھا ہے، فوجی ہسپتال کوبھی ٹھیک ٹھیک نشانوں پر رکھا گیا، یہ طعنہ بار بار سننے میں آیا کہ فوج کے اعلی ترین ہسپتال کے سینئر ترین ڈاکٹروں نے جو میڈیکل سرٹیفیکیٹ جاری کیئے ہیں، ان پر اعتبار کیسے اور کیونکر کیا جائے۔ مریض کی انجیوگرافی تک نہ کی گئی، ایک سوال اور، کہ مشرف اپنی انجیو گرافی کے لیے ملک سے باہر جانا چاہتا ہے تو کیا دل کے ہر مریض کو باہر جانے کی اجازت دی جائے۔ یہ سوال بھی، کہ فوج کے سب سے بڑے ہسپتال میں انجیو گرافی نہیں ہوسکتی تو پھر اس کا معیار کیا ہے۔ پولیس کو حکم دیا جاتا رہا کہ وہ مشرف کوہتھکڑی لگا کر عدالت میں پیش کرے۔ اور شاید یہ موقع بھی آجاتا مگر مشرف پیش ہو گیا، اس پر فرد جرم عائد کر دی گئی۔ اس ڈرامائی صورت حال سے ظاہر یہ ہوتا تھا کہ مشرف کے ٹرائل کے بجائے پوری فوج کا ٹرائل کیا جارہا ہے۔
پانی سر سے گزرنے لگا تو نئے آرمی چیف نے ایک تقریر میں کہا کہ وہ فوج کے وقار کی حفاظت کریں گے۔اس سے ایک نئی بحث چھڑ گئی۔ حکومتی وزرا نے کہا کہ پارلیمنٹ کا وقار سب سے مقدم ہے، خواجہ سعد رفیق اور خواجہ آصف میدان میں کودے اور فوج کو رگیدنے لگے خواجہ آصف کی ایک پرانی تقریر چلائی گئی اور فوج کودھکیل کر دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا۔
اسی ہنگام میں کراچی میں جیو نیوز کے اینکر حامد میر پر گولیاں چلیں، اس چینل نے کبھی نہ ختم ہونے والی نشریات کا آغاز کر دیا، ٹی وی کیمروں کے سامنے بیٹھے اسی چینل کے ملازمین نے اودھم مچادیا،زخمی اینکر کے بھائی عامرمیر کا یہ الزام بار بار دہرایا گیا اورمسلسل آٹھ گھنٹے تک دہرایا گیا کہ مبینہ قاتل آئی ایس آئی کا سربراہ ہے، اس کی تصویر بھی ساتھ ساتھ دکھائی گئی۔
حملہ ایک شخص پر ہوا تھا لیکن اس حملے کو پہلے تو ایک میڈیا ہاؤس نے اپنے اوپر اور پھر پورے میڈیا پرحملہ قرار دیا۔ زخمی اینکر کی خبر دینے والا کوئی نہ تھا، اگر یہ بہت بڑی واردات تھی تو اس کی کوریج بھی لمحہ بہ لمحہ ہونی چاہئے تھی، ڈرائیور اور گارڈ کو کیمروں کے سامنے لایا جاتا، ان سے آنکھوں دیکھا حال پوچھا جاتا مگر قاتلانہ حملے کی کوئی ایک تفصیل تک سامنے نہ آئی۔ ہسپتال کی کوئی رپورٹ نہ دکھائی گئی، چھ گولیاں لگنا مذاق نہیں ہوتا مگر اصل واقع کو چھپالیا گیا جس سے شکوک پیدا ہوئے۔ میڈیاہاؤس واقعہ پر کیمرے اور توجہ مرکوز کرنے کے بجائے فوج اور آئی ایس آئی پر بڑھ چڑھ کر حملے کر رہا تھا، اس زہریلی کہانی کو بھارت نے اچھالناہی تھاء امریکی اور یور پی پریس نے بھی اچھالا اور پچھلی نصف صدی میں آئی ایس آئی کی مٹی اس قدر پلید کسی نے نہیں کی ہوگی جتنی ایک رات میں ہوئی، اس سے ملک کے باقی میڈیا کی آنکھیں کھلیں اور اس نے آرمی بیشنگ کی مہم میں شامل ہونے سے انکارکردیا۔ بلکہ ایک قدم آگے ملکی میڈیا نے فوج کے وقار کی بحالی کے لیئے سرگرمی دکھائی۔ اب ملک میں مشرف کی غداری کے جرم کے بجائے ایک میڈیا ہاؤس اور اس کے اینکر کی غداری پر بحث ہونے لگی۔
زخمی اینکر حامد میر نے اپنے تازہ کالم میں سوال پوچھا ہے کہ کیا میں غدار ہوں۔ اس سوال پر مجھے صدربش کا سوال یاد آرہا ہے کہ لوگ امریکہ سے نفرت کیوں کرتے ہیں۔
دونوں سوال بڑے بھولے بھالے ہیں۔ ان سوالوں کا جواب کبھی نہ کبھی مل ہی جائے گا، سردست میں حیران ہوں کہ غداری کی بحث کہاں سے چلی تھی اور کہاں پہنچ گئی۔ ایک غدار کولوگ بھول ہی گئے ہیں اور غداری کے ایک نئے کیس کی گھٹا چھائی ہوئی ہے۔ چور کے پاؤں نہیں ہوتے مگر پھر بھی چور پکڑا جاتا ہے۔ کچھ نشان تو چھوڑ ہی جاتا ہے۔ لوگوں کو بھارت دوستی کی مہم یاد آرہی ہے، یقین مانیئے بھارت دوستی کی راہ میں پاک فوج اور آئی ایس آئی حائل ہے، اور سب سے بڑھ کر ڈاکٹر مجید نظامی۔ اور میں بھی سینہ کھولے پیچھے کھڑا ہوں۔ فوج کے پاس ایک طاقت ہے، ایک ویٹو پاور ہے اور مکمل حکمت عملی بھی مگر اسے اپنی حکمت عملی کوروبے عمل لانے کی ضرورت ہی نہ پڑی۔ لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا۔ (7 مئی 2014ء)