خبرنامہ

کیا نادرا کا ڈیٹا خفیہ ہے…اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

کیا نادرا کا ڈیٹا خفیہ ہے…اسد اللہ غالب

ہونا تو نہیں چاہیے۔ میں اسے خفیہ نہیں سمجھتا۔ اور چیف الیکشن کمشنر سے لے کر عمران خان تک اور نادرا سے نکلے ہوئے اور بپھرے ہوئے ملازمین سے لے کر بڑ بڑ اہٹ کا شکارکسی بھی ٹی وی اینکر تک ہر ایک سے کھلا مباحثہ کر سکتا ہوں کہ نادرا کے ڈیٹا میں کوئی کومہ ، کوئی شوشہ تک خفیہ نہیں ہے، اس میں میرے اور آپ کے نام ہیں۔پتے ہیں، تاریخ پیدائش ہے ۔ اور بس۔
میں نے امریکہ کے دو الیکشن کور کئے۔ میں نے اپنے وفد کے ساتھ مشرقی ساحل سے مغربی ساحل تک درجنوں شہروں کا دورہ کیا، پولیٹیکل سائنس کے ماہرین ، شماریات کے ماہرین ، سماجیات کے ماہرین اور ڈیمو گرافی کے ماہرین سے تنادلہ خیال ہوا، ان لوگوں کی انگلیوں پر ہر طرح کے اعدادو شمار تھے، ملک کی کل آبادی کتنی ہے، رجسٹرڈ ووٹرز کتنے ہیں، نوجوان کتنے ہیں، بورھے کتنے ہیں،خواتین کی تعداد کیا ہے۔ کالے کن ریاستوں میں پھیلے ہوئے ہیں اور ہسپانوی کتنی بڑی تعداد میں ہجرت کر کے آ گئے ہیں،شہروں سے دیہات کی طرف آبادی کتنے فیصدمنتقل ہوئی ہے۔ بر سر روزگار کتنے لوگ ہیں اور بے روز گاروں کی گنتی کیا ہے۔ ان اعداو شمار کی مدد سے وہ بالکل صحیح اندازہ پیش کرنے کی پوزیشن میں تھے کہ کس ریاست میں ڈیمو کریٹ جیتیں گے اور ری پبلکن کن ریاستوں میں میدان مارے گی، یہ اندزاے سو فیصد درست نکلتے تھے۔ کہیں کہیں اپ سیٹ کی گنجائش بھی ہوتی ہے اور ماہرین ایسی سیٹوں کی نشاندہی بھی کر دیتے تھے۔، آپ کا کیا خیال ہے کہ یہ ماہرین کوئی اٹکل پچو طریقے سے تجزیہ کرتے تھے، یا ان کے پاس فال نکالنے والے طوطے تھے،یا وہ غیب کا حال جاننے والے تھے۔ نہیں بھئی۔ ان کی زبان سے نکلنے والا یک ایک لفظ حقائق اور اعداو و شمار پر مبنی تھا اور یہ حقائق ہر عقل سلیم کے مالک امریکی شہری کو دستیاب تھے، سرکاری ادارے معلومات جمع کرنے کا فریضہ اداکرتے ہیں اور پھر اپنا ڈیٹا ہر ایک کی دسترس میں رکھ دیتے ہیں، نجی تنظیمیں بھی لوگوں کے رجحانات کی اسٹڈی میں مصروف رہیے ہیں اور وہ بھی اپنا ڈیٹا ہر ایک کے ساتھ شیئر کرتی ہیں۔ان حقائق اور اعدادو شمار کے بغیر کوئی سیاسی پارٹی اورا سکا کوئی امیدوار اپنی انتخابی مہم کے خدو خال طے نہیں کر سکتا۔ ہماری طرح وہاں لوگ اندھیرے میں تیر نہیں چلاتے۔

اگر میں حقیقت پسندی کا مظاہرہ کروں تو یہ کہہ سکتا ہوں کہ اگر نادرا
الیکشن کے لئے مدد گار ڈیٹا کسی کے ساتھ شیئر نہ بھی کرے تو الیکشن کمیشن آئینی طور پر ا س ا مر کا پابند ہے کہ وہ پورے ملک میں انتخابی فہرستیں تقسیم کرے۔ مگر سیاسی پارٹیوں اور امیدواروں کو اکثر یہ شکائت ہوتی ہے کہ انہیں بر وقت یہ ووٹر لسٹیں نہیں دی گئیں، یا ان میں اندراجات کی غلطیاں ہوتی ہیں۔ایک حلقے کے ووٹروں کو دوسرے حلقے میں دکھایاجاتا ہے، پولنگ اسکیم ناقص ہوتی ہے اور ووٹروں کا آدھا دن تو صرف اپنا پولنگ اسٹیشن ڈھونڈنے پر لگ جاتا ہے۔ ان خامیوں کی وجہ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن پروفیشنل اور ٹیکنیکل اا دارہ نہیں۔ پھر یہ کہ الیکشن کمیشن اس نوع کے اعداو شمار مرتب کرنے سے قاصر ہے کہ نوجوان ووٹر کتنے ہیں اور بوڑھے کتنے، خواتین ووٹرز کی تعداد کیا ہے ۔ کاشتکار کتنے ہیں اور تنخواہ دار ووٹرز کتنے ہیں۔ ہمیں اٹکل پچو پر گزارا کرنا پڑتا ہے۔
مجھے نادرا کا کوئی ذمے دار افسر دستیاب ہو جاتا تو میں اس سے پوچھتا کہ آپ کے پا س کونسا ڈیٹا ایسا ہے جسے خفیہ کہا جا سکتا ہے۔ میری بات نادرا کے ایک ترجمان سے ضرور ہوئی جو کہ ٹیکنیکل آدمی نہیں ہیں۔ صرف میڈیا سے بات کر سکتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ نادرا پر پابندی ہے کہ کسی کو ڈیٹا فراہم نہ کرے، اور نہ کبھی اس نے کیا ہے۔ ایک مثال جو دی جا رہی ہے وہ بھی فریڈم آف انفارمیشن قانون کے تحت کئے گئے سوال کے جواب میں فراہم مکی گئی اور اس میں صرف یہ نکات شامل تھے کہ اٹھارہ سے تیس سال تک لوگوں کی تعداد کیا ہے اور تیس سے ساٹھ سال تک کتنے ہیں، اور اکہترے بہترے کتنے۔نادرا کے ترجمان نے میرے موقف سے اتفاق کیا کہ انہیں پورا ڈیٹا شیئر کرنا چاہیئے مگر قباحت یہ ہے کہ اس میں ہر شخص کی والدہ کا نام بھی درج ہے جو کہ موبائل کمپنباں اور کمرشل بنک اکاؤنٹ کھولنے کے لئے کوڈ ورڈ کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ میں نے کہا کہ آپ اگر ماؤں کے نام نہ بھی دیں تو ووٹرز لسٹوں میں یہ بہر حال موجود ہیں، اگر کسی نوسرباز نے کسی کی ماں کے نام کا سراغ لگاناہی ہے تو وہ ووٹرز لسٹوں سے بآسانی حاصل کر سکتا ہے۔اگر ماں کا نام کسی کو معلوم نہ بھی ہو تو ہمارے معاشعرے میں پہلی گالی ہی ماں کی دی جاتی ہے۔فیض آباد دھرنے میں ایسی گالیوں کو روزانہ سننے کا موقع ملا۔ ماؤں کا نام کوڈ ورڈ کے لئے صرف ہمارے ہاں استعمال ہوتا ہے۔ باقی دنیا میں طرح طرح کے سوالات کے جواب محفوظ کئے جاتے ہیں مثال کے طور پر آپ کتنے بجے پید اہوئے۔آپ کے پسندیدہ استاد کا نام کیا تھا۔ آپ کس ہائی سکول میں پڑھے اور آپ کو عرف عام میں کیا کہا جاتا تھا یعنی نک نیم کیا تھا۔ا ب یہ ڈیٹا تو نادرا کے پاس نہیں ہے اور اسی نوع کے کوڈ ورڈ ہمارے موبائل فون ادارے اور کمرشل بنک بھی استعمال کر سکتے ہیں۔کس آئین میں لکھا ہے کہ وہ ماں کانام ہی کوڈ ورڈ کے طور پر استعمال کریں۔باقی رہا ، آبادی کے مختلف طبقات کے اعداد و شمار تو نادرا سے ایک ساافٹ ویئر کی مدد سے بآسانی مرتب کر سکتا ہے اور اسے اپنی ویب سائٹ پر ہر ایک کے استفاوے کے لئے لوڈ کر سکتا ہے۔ اسے ایسا کرنے کا قانونی طور پرپابند بنایا جائے ۔ تاکہ ہم سائنٹیفک انداز میں الیکشمن مہم چلا سکیں اور ہر امید وار کو بھی پتہ چل جائے کہ وہ کتنے پانی میں ہے۔
ا سوقت نادرا پر ڈیٹاا فشا کا جو الزام ہے ، اسے میری رائے میں واپس لیا جائے اور اس ضمن میں جو کمیٹی نادرا چیئر مین کی سربراہی میں کام کر رہی ہے، اسے یہ فیصلہ سنانا چاہئے کہ نادرا ا س نوع کا ڈیٹا اور اس طرح کی اسٹڈی عوام الناس کے لئے عام کرے ۔
میں نے نادرا پر چند روز پہلے ایک کالم لکھا، اسے جن لوگوں نے پڑھا ان میں میرے ایک رواین دوست کلیم مبین بھی شامل ہیں بلکہ ان کی بیگم صاحبہ نے انہیں میری تصویر دیکھ کر بتا یا کہآپ انہیں ایک زمانے میں نوا ئے و قت کے دفتر میں ملنے بھی گئے تھے۔ مجھے کلیم مبین نے یہ سب کچھ بتانے کے لئے فون کیا تو میں اچھل پڑا۔ باون سال قبل گورنمنٹ کالج میں یونین کے الیکشن ہوئے تو میں نے ان کو جنرل سیکرٹری بنوانے کے لئے زور شور سے مہم چلائی تھی۔ وہ بلا کے ڈیبیٹر تھے اور میں مشاعروں میں شرکت کرتا تھا۔ یہ باتیں تو ضمنی ہیں ،۔ اصل بات یہ ہے کہ کلیم مبین نادرا کے موجودہ چیئر مین عثمان مبین کے والد ہیں،ہم فون پر دیر تک یا دماضی یں کھوئے رہے مگر کلیم مبین افسرہ تھے جس کاا ظہار تو انہوں نے نہیں کیا مگر وہ کہہ رہے تھے کہ ان کے بیٹے نے ایم آئی ٹی سے ڈبل گریجو ایشن کی تو اسے امریکہ کی ٹاپ کمپنیاں کثیر تنخواہ پر ملازمت پیش کر رہی تھیں مگر میری حب ا لوطنی نے عثمان کو واپس ملک آنے پر مجبور کیا جہاں وہ تیئین برس کی عمر سے ایک روز قبل نادرا کا چیف ٹیکنالوجسٹ مقرر ہوا۔یہ اس کی لیاقت ا ور صلاحیت کا صلہ تھاا ور پھر عثمان مبین نے اپنی صلاحیتوں کا مزید مظاہرہ کیا اور نادرا کو ٹیکنالوجی کے شعبے میں وہ مقام دلایا کہ دنیا عش عش کر اٹھی۔ کلیم مبین یہ کہتے ہوئے جذباتی ہوگئے تو انہوں نے فون اپنی بیگم صاحبہ کو دے دیاجو صحافی تو نہیں ہیں مگر صحافت میں ماسٹر کی ڈگری کی حامل ہیں ، ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ خدا کسی خاندان پر اپنی نعمتیں نچھاور کر دے ۔ کلیمم مبین کا یک ببیٹا سلیم معین پہلے نادرا کا چیئر مین بنا اور پھر ا سکی جگہ عثمان مبین نے لی۔ ایک منصب ، ایک گھر میں دو مرتبہ ، ایسی مثالیں کم ملتی ہیں مگر یہ خاندان معاشرے کے اس رویئے کا شاکی ہے کہ اس ملک میں با صلاحیت لوگوں کی قدر کرنے کے بجائے ان کی ٹانگیں کھینچی جاتی ہیں ، یہاں تو ہم نے ڈاکٹر عندالقدیر جیسے نابغہ روشگاا ور قوم کے محسن کو ٹی وی پر آ کر معافی مانگنے پر مجبور کیا۔ کلیم مبین اور ان کی بیگم کا کہنا تھا کہ ان کے بیٹے پر وہ عناصر کیچڑ اچھال رہے ہیں جو نادرا میں کرپشن پھیلانے کے مجرم تھے اور عثمان نے ان پر ہاتھ ڈالنے کی جرات کی اور نکال باہر کیا۔اب وہ اپنے بدلے اتار رہے ہیں اور جھوٹے الزامات کا سہارا لے رہے ہیں، کلیم مبین کی بیگم نے بتایا کہ ا ن کے بیٹے کے پاس صرف ایک دفتری گاڑی ہے جسے وہ استعما ل کرتا ہے اور ان کے دوسرے بیٹے سلیم معین جو کسی سیمنٹ ادارے میں اعلی منصب پر فائزہیں ، ان کے پا س دو گاڑیاں ہیں جن میں سے کبھی کبھار ایک گاڑی فیملی کے کام آ جاتی ہے۔میں عثمان مبین کے والدین کے دکھ کو سمجھتا ہوں ، میں شرمندہ ہوں کہ ہم انہیں بلا وجہ تکلیف پہنچا رہے ہیں ۔میں جانتا ہوں کہ عثمان کو نادرا کی ضرورت نہیں بلکہ نادرا کو عثمان کی ضرورت ہے اور اس سے بھی بڑھ کر قوم اور ملک کو اس کی ضروت ہے۔ پاکستان کو ٹیکنالوجی کے شعبے میں آگے لے جانے کے لئے ایسے باصلاحیت نوجوانوں کی ضرورت ہے۔ اور یہ ہیں کتنے، عثامن مبین اور ڈاکٹر عمر سیف اور چند شاید اور۔
عثمان مبین میری مانیں اور اپنے ادارے کے چارٹر میں تبدیلی کروا ئیں اورا سکا ڈیتا ور اس کی تحقیقاتی رپورٹس کو عام کریں۔اس ڈیٹا کے بغیر ملکی منصوبہ بندی ممکن ہی نہیں ، کسی بھی نجی ادارے کو اپنی پلاننگ کرنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں شماریات کے ادارے قوم کی رہنمائی کا کردار ادا کرتے ہیں۔نادرا کو مینارہ نور کا کردار ادا کرنا چاہئے۔