خبرنامہ

کیا ہم نوحے پڑھنے کے لئے زندہ ہیں

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

کیا ہم نوحے پڑھنے کے لئے زندہ ہیں

کربلا کی زمین لہو کی پیاسی تھی، بغداد کے چہرے سے اتنا خون بہا کہ دریاؤں کے بہتے پانیوں کے ہونٹوں پر پپڑیاں جم گئیں، قرطبہ کی زمین بھی شاید نہ تھی، اسے لہوسے سینچا گیا۔ دہلی میں وہ غدرمچا کہ زمین تو کیا، آسمان کا رنگ بھی سرخ ہو گیا۔ میسورکسی شیر کے خون کا پیاسا نکلا۔ یہ میری سیا? تاریخ کے وہ لہورنگ نوحے ہیں جن کولکھا تو گیا لیکن پڑھا نہیں گیا۔
آج میں سولہ دمبر اکہتر کا نوحہ لکھنے بیٹھا ہوں مگر اس سے پہلے مجھے اٹھارہ ستمبر انیس سو اڑتالیس کا ایک نوحہ لکھنا ہے۔ یہ حیدر آباد دکن کا نوحہ ہے جسے نہرو اور پٹیل کی فوجوں نے تاراج کیا اور بھارت نے اسے ہڑپ کر لیا۔ یہ سانحے قائد اعظم کی وفات حسرت آیات سے صرف سات روز بعد رونما ہوا، قائد کا اس قدر خوف تھا کہ ہند و بنیئے کی ہڈیوں میں گودا جم جاتا تھا مگر ادھر ان کی آنکھیں بند ہوئیں، ادھر میجر جنرل بعد میں بھارتی آرمی چیف سے این چودھری کی قیادت میں بھارت نے اس مسلم ریاست پر لشکرکشی کر دی۔ اس ریاست نے پندرہ اگست سینتالیس کو آزادی کا اعلان کیا تھا۔ اسی روز بھارت بھی آزاد ہوا تھا مگر اسے اپنی سرحدوں کے اندر اور باہر کی آزاد ریاست کا وجود گوارا نہیں تھا۔ حیدر آباد دکن کی ریاست نو آزاد پاکستان سے زیادہ منظم، ترقی یافتہ اور خوشحال ریاست تھی، ذاتی طور پر نظام دکن اور قائد میں قربت اور دوستی کا گہرا رشتہ قائم تھا اور پاکستان کے مالی اور معاشی مصائب میں نظام نے دل کھول کر امداد دی۔ مگر بھارت نے قائد کی وفات کے فوری بعد اس ریاست کے خلاف جارحانہ لشکرکشی کر دی اور اسے سرینڈر مجبور کر دیا، اس کے بعد بھارت نے منادر، جوناگڑھ، کشمیر اور ہر ریاست کو ہتھیا لیا۔ سولہ دسمبر اکہتر کا سانحہ اسی بھارتی جارحیت کی تسلسل میں رونما ہوا۔
مشرقی پاکستان کے لیئے ہم کس کس کی سینہ کوبی کریں۔ یہ ہماری قومی خطائیں بھی تھیں اور بھارتی سازشوں کا مکروہ جال بھی تھا۔ پاکستان کے دونوں حصوں کے مابین ایک ہزار میل کا فاصلہ تھا اور دنیا نے دانتوں میں انگلیاں دبا رکھی تھیں کہ یہ وفاق کیسے قائم ہو گیا۔ قائداعظم کو یقین تھا کہ انہوں نے قوم کو اسلامی نظریے کی لڑی میں پرو دیا ہے اور کوئی رخنہ اتحاد کے اس رشتے کو تار تارنہیں کرسکتا۔ دشمن بڑا کایاں تھا، اس نے اسی رشتے پر وار کیا اور دونوں حصوں کے مابین بد گمانیاں پیدا کرنے کے لیئے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا، کلکتے کے خزانوں کے منہ کھول دیئے گئے۔ اور بنگالی مسلمانوں کے دلوں میں ایک ایسے احساس محرومی کے بیج بودیئے گئے جو سراسر پروپیگنڈے کے تار عنکبوت سے بندھا ہوا تھا۔ مغربی پاکستان کی خوشحالی کے افسانے تراشے گئے مشرقی حصے کی رائی برابر پس ماندگی کو پہاڑ بنا کر پیش کیا گیا۔ دشمن کا وار کارگر ثابت ہوا، وہ ایک قوم کے حصے بخرے کرنے میں کامیاب ہو چکا تھا، باقی کی کہانی تو محض دنیا کو دھوکا دینے کے لیے تھی، سرحد پارمکتی باہنی کھڑی کی گئی، پاک فوج کے جبر کا پروپیگنڈا کیا گیا اور عوام کوگمراہ کر کے پاک فوج کے مقابل لا کھڑا کیا گیا۔ کوئی کسر باقی تھی تو بھارتی فوج نے آخری ہلہ بولا اور برق رفتار پیش قدمی کر کے ڈھاکہ پر قبضہ کرلیا۔
یہ سولہ دسمبر کی ایک منحوس صبح تھی، دنیا کے لیے سورج اس روزضرور طلوع ہوا ہو گا لیکن پاکستان کا سورج اس صبح مشرق میں غروب ہو گیا، یہ سقوط ڈھاکہ تھایا سقوط آفتاب، اسے جوبھی نام دے لیں۔ بھارتی وزیر اعظم اور نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی نے بڑ ہانکی کہ قائد اعظم کے دو قومی نظریئے کو بحریہ بنگال میں غرق کر دیا گیا ہے۔ بھارت کی نظریں باقی ماندہ پاکستان پر مرکوز تھیں، وہ ہزار سالہ غلامی کے سارے بدلے اتارنا چاہتا تھا۔ وہ ایک لمحے کے لیئے بھی چین سے نہیں بیٹھا، اس نے نئے پاکستان میں قومی اتحاد کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے لیے نسلی، لسانی، گروہی، علاقائی، صوبائی اور فرقہ وارانہ تعصبات کو ابھارا، یہی وہ طریقہ تھا جس سے کام لے کر وہ پاکستان کو دولخت کرنے میں کامیاب ہوا تھا۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ اب وہ اکیلا نہیں ہے، اکہتر میں سوویت روس نے اس کی پشت پناہی کی اور امریکی بلاک نے پاکستان کے ساتھ کیے گئے معاہدوں سے اغماض برت کر اس کا حوصلہ بڑھایا، اب امریکی بلاک براہ راست شطرنج کی چالوں میں شریک ہے، اس کی افواج پاکستان کی سرحدوں پر موجود ہیں اور اس کے بحری بیڑے بحیرہ ہند کے پانیوں میں لنگر انداز ہیں۔ یہ ساری طاقت بھی اللہ کے فضل سے پاکستان کوزیرنہیں کرسکتی، اس لیئے کہ پاک فوج دنیا کی ایک مسلمہ دفاعی طاقت ہے اور وہ ایٹمی قوت سے لیس ہے۔ اس قوت کا ڈنک نکالنے کے لیے عالمی طاقتوں نے پاکستانی ذہنوں میں نقب لگائی ہے اور امن کی آشا کا ڈھونگ رچا کر پاک بھارت سرحد کو فریب نظر اور ایک واہمہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہمارا ہرحکمران بھارت کا فریفتہ بنا دیا گیا ہے اور اپوزیشن لیڈروں کو بھی اس دام ہم رنگ زمین میں دبوچ لیا گیا ہے۔ میڈیا اور دانشوروں کا ایک بڑا طبقہ زرخرید ثابت ہوا ہے۔ گزشتہ روز تو ایک کبڈی میچ میں ہماے پنجاب چیف منسٹر اس قدر کھل گئے کہ بھارت جیتے تو تب بھی ہمیں خوشی ہوگی، انہوں نے تو ہمارے کھلاڑیوں کی شکست پر پیشگی مہر ثبت کر دی۔ ایک زمانہ تھا کہ پاک بھارت کرکٹ میچ کے موقع پر دنیا حیرت میں ڈوب جاتی تھی اورنبض عالم رک جاتی تھی، اب اگر یہی جذبہ کارفرمارہا کہ بھارت جیت گیا تو یہ بھی ہماری خوشی تو صاحبو! توڑ ڈالیئے اپنا کرکٹ بورڈ۔ یہ اللے تللے کس لیئے۔ نجم سیٹھی صاحب کو کرنے کے اور کام دیئے جا سکتے ہیں۔ کبڈی کے میدان میں بھی ہم نے ایک سقوط دیکھ لیا۔ اور یہ خواہش بھی سن لی کہ ایسا درخت لگایا جائے جس کی چھاؤں میں دونوں ملکوں کو راحت ملے۔ ہم کس کس سقوط کوروئیں گے۔ اب تو امریکی اور نیٹو افواج مسلم ممالک کے خزانوں اور افواج کی عملی مدد اور تعاون سے ایک ایک کر کے فلسطین، لبنان، افغانستان، عراق، سوڈان، لیبیاء مصر اور شام کی اینٹ سے اینٹ بجا چکی ہیں۔ پاکستان کے خلاف لشکرکشی ممکن نہیں تھی کہ اس کے پاس جواب دینے کے لیئے ایٹمی قوت موجود ہے اس لیئے دہشت گردی کی بلا اس پر چھوڑ دی گئی ہے اور اگر کوئی کسر باقی ہے تو کئی اور سونامی پاکستان کو لپیٹ میں لینے کے لیئے پھنکار رہے ہیں۔ مایوسی کے اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں امید کی ایک ہی روشن کرن ہے، ڈاکٹر مجید نظای جن کے نظریہ پاکستان کے چشمے ابل رہے ہیں اور ان سے فیضیاب ہو کر پاک فوج تن من دھن کی قربانی دینے کے لیئے تیار ہے۔ سولہ دسمبر سے دوروز پہلے، جب لدھیانہ میں کبڈی میچ ہور ہا تھا، ہمارے نئے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے سلیمانکی سیکٹر کا رخ کیا، یہ وہ دھرتی ہے جہاں ان کے بھائی میجر شبیر شریف شہید نشان حیدر کے طنطنے کے سامنے بھارتی فوج کو خاک چاٹنا پڑی تھی۔ یہ امید کا سورج ہے جو ہمارے انسانوں کو جگاتار رہے گا۔
(16 دسمبر 2013ء)