خبرنامہ

گجرے والیاں بانہواں نوں تلوارا ٹھانی پئے گی۔۔اسداللہ غالب

میں نے لکھنے کے لئے قلم اٹھایا، سوچا ، کیا عنوان دوں۔ لندن سے سید صفدر ہمدانی کے تازہ نوحے کا ایک شعر سامنے آگیا۔
کہتے ہیں کہ دشمن کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے
یہ کیا ہے کہ پھر لاشوں کا انبار لگا ہے
مجھ پر احتیاط سے کام لینے کی سوچ غالب آ گئی، جبکہ یہ شعر کچھ زیادہ ہی تنقیدی لگتا ہے۔
پھر عطاالحق قاسمی کا یہ شعر ذہن میں گھومنے لگا۔
کہاں لے آئے ہو اے راہبرو تم
یہاں تو کربلا ہی کربلا ہے
یہ شعر تو سراسر باغیانہ رنگ لئے ہوئے ہے، مگر مجھے کیا شاعر تو حکمرانوں کا مینٹور ہے۔پی ٹی وی کا چیئر مین ہے اور ان کی دو سابق حکومتوں میں ناروے ا ور تھائی لینڈ میں سفیر رہ چکا ہے، وہ تو قسمت نے یاوری نہ کی ورنہ پنجاب کی گورنری کہیں نہ گئی تھی۔
اسی ہنگام میں زبان نے شعیب بن عزیز کا یہ شعر گنگنانا شروع کردیا۔
مرے لاہور پر بھی اک نظر کر
ترا مکہ رہے آباد مولا!
یہ شعر تھا تو حسب حال اوراس میں دعا کا عنصر بھی شامل ہے مگر مجھے لگا کہ کہیں خدا سے گستاخی نہ ہو جائے۔
پھر سوچا کہ ہمیشہ خون مسلم کی ارزانی کا عنوان تو استعمال کیا ہے کیوں نہ آج خون مسیح کی ارزانی کے الفاظ کا سہارا لوں۔مگر یہ خوف لاحق ہو گیا کہ پارلیمنٹ کا گھیراؤ کرنے والے کہیں ریڈ زون چھوڑ کر میرے گھر کے گھیراؤ کے لئے نہ آجائیں ۔منطق نے مجھے انگیخت کرنے کی کوشش کی کہ خون تو خون ہے، خون کا مذہب تو کوئی نہیں ہوتا، مذہب تو انسان کا ہوتا ہے، مگر میں کوئی رسک لینے کے لئے تیار نہ ہو سکا۔
گزشتہ شام مجھے اسلام آباد سے دانشور دوست تنویر قیصر شاہد کا فون آیا کہ بھارت نے تباہی پھیلا کر اپنے را کے ایجنٹ سے پاکستانی میڈیا کی توجہ ہٹا دی ہے۔اب کچھ روز یہی سانحہ ہمارے تجزیوں اور خبروں پر حاوی رہے گا۔ یہ بات کچھ کچھ سچ لگی۔
تب مجھے ایک ا ور شعر یادآگیا ۔
پھول دیکھے ہیں جنازوں پہ ہمیشہ ناصر
کل مری آنکھ نے پھولوں کے جنازے دیکھے
میری سوچ کا دھارا کہیں رکنے نہیں پا رہا تھا،ذہن کند سا ہو گیا تھا، ایک چھوٹاسافیصلہ کرنا مشکل ہو گیا تھا۔
ہفتے کے روز ایک بہاریہ مشاعرے میں شرکت کا موقع ملا، اس مشاعرے میں صرف شاعرات نے کلام سنایا، گنتی کے چند مرد صرف سامعین میں شامل تھے جو وقت بے وقت داد بھی دے رہے تھے۔مگر ایک شاعرہ بشری نازنے پنجابی نظم سنانا شروع کی اور دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے مشاعرہ لوٹ لیا، ان کی نظم میں سے مجھے یہ شعر کچھ زیادہ ہی پسند آیا۔
لگ دا اے کج اسراں وی سچ دی ریت نبھانی پئے گی
گجرے والیاں بانہواں نوں تلوارا ٹھانی پئے گی
میں بے حال ساہو گیا۔ یہ ایک چیلنج تھا کہ جہاں مرد ناکام ہو گئے ہیں، وہاں اب خواتین کو میدان میں کودنا پڑے گا۔
میں ساری رات کا جاگا ہوا ہوں، برسوں گلشن اقبال کے کناروں پر زندگی بسر کی مگر عین بہار کے جوبن پر یہ خون سے لت پت تھا، یہ خون زیادہ تر بچوں کا تھا، اور ان کی ماؤں کا بھی تھا اور کوئی کوئی مرد رشتے دار بھی لقمہ اجل بنے تھے۔میں حیران تھا کہ ہر ٹی وی چینل یہی کہہ رہا تھا کہ اتنے ا فراد لقمہ اجل بن گئے یا جاں بحق ہو گے مگر لفظ شہید کوئی بھی استعمال نہیں کر رہا تھا۔ مجھے یہ سمجھنے میں زیادہ وقت نہیں لگا کہ یہ تو ایسٹر منانے والے خاندانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے ۔ مگر انہیں شہید کیوں نہیں کہا گیا،ا سی شہر میں ایک این جی اوا یسی بھی ہے جو بھگت سنگھ کو شہید کہتی ہے اور شادمان چوک کو اس کے نام سے موسوم کرنے کا مطالبہ کرتی تھکتی نہیں، میں نے پینسٹھ اور اکہتر کی جنگوں کی کوریج کی ہے، ہم تو جان قربان کرنے والے اپنے فوجیوں کو شہید کہتے ہی ہیں مگر بھارت بھی اپنے مرنے والے فوجیوں کو شہید کہتا ہے، سکھوں نے ایک زمانے میں شہیدی جتھے بنا رکھے تھے، انگریزی میں بھی شہید کے لئے الگ لفظ موجود ہے اور ظاہر ہے یہ لفظ غیر مسلموں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
میں کس بحث میں الجھ گیا۔ جب لکھنے والے کا اپنا ذہن الجھا ہوا ہو تو وہ ادھر ادھر کی ہانک کر گزارہ کرتا ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ مجھے ضرب عضب کی کامیابی بارے کوئی شک نہیں اور میرے پاس پنجاب حکومت یاا س کی پولیس کو رگیدنے کے لئے کوئی مواد نہیں۔ پنجاب ا یک زمانے میں انتہائی غیر محفوظ تھا، مگر اب یہ امن کا جزیرہ بن چکا تھا، اس کے باوجود کراچی آپریشن کے بعد سے مطالبے ہو رہے تھے کہ پنجاب میں سب فرشتے نہیں، یہاں فوج اور رینجرز توجہ کیوں نہیں کرتی۔اگرچہ رانا ثنا اللہ نے یہ کہا کہ صوبے میں نہ رینجرز کی ضرورت ہے ، نہ ہم اسے طلب کرنے کے حق میں ہیں۔ظاہر ہے ان کے تحفطات ہوں گے ، جن پر میں کوئی روشنی نہیں ڈال سکتا مگر گلشن اقبال پارک میں ایسٹر کی خوشیاں منانے والے مسیحی خاندانوں کی ہلاکت کے بعد اس آپریشن کو اب کوئی نہیں روک سکتا، آدھی رات کو آرمی چیف نے سیکورٹی پر اعلی سطحی میٹنگ کی اور وہ فیصلے ہوگئے جو ایک عرصے سے تعطل کا شکار تھے۔ اسی وقت فوج حرکت میں آ گئی اور پنجاب میں آپریشن کاآغا زہو گیا، کیا ہی بہتر ہوتا کہ ہم یہ فیصلہ خود کر لیتے ، غیروں کے دباؤ میں نہ کرتے، پاکستان کی اقلیتوں کا تحفظ اگر ہم نہیں کر سکتے تو ان کے خصم سائیں ابھی زندہ ہیں اور قدم قدم پر شواہد سامنے آ جاتے ہیں کہ اقلیتوں کا تحفٖظ کیسے کروایا جاتا ہے،بیرونی دباؤ کی حد تو یہ ہے کہ بلاول نے یہ مطالبہ کر دیا کہ ملک کی صدارت کا عہدہ اقلیتوں کو پیش کرنے کے لئے آئین میں ترمیم کی جائے۔ کوئی بعید نہیں کہ ا س کے لئے جلد یا بدیر ایسی ترمیم ہو بھی جائے۔
ہمارا مذہبی طبقہ بری طرح تقسیم ہے اور اس میں وہ دم خم نہیں کہ وہ اسلام کے ا ساسی تقاضوں کی نگہبانی کر سکے، ہمارے لبرل طبقے متحد ہیں، ملک میں ایسے بھی گروہ ہیں جو بھارت کا مال کھاتے ہیں ا ورا سکی ثقافت کا پرچار کرتے ہیں، سونیا گاندھی نے انہی کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا تھا کہ اب ہمیں پاکستان کو تسخیر کرنے کے لئے فوجی جارحیت کی ضرورت نہیں پڑے گی،ا س لئے کہ ہم اسے ثقافتی یلغار کے ہاتھوں مسخر کر چکے ہیں۔ہماری فوج کا جذبہ اپنی جگہ پر قابل ستائش اور لائق فخر ہے مگر قوم کی پشت پناہی کے بغیر اکیلی فوج دیرپا نتائج دکھانے سے قاصر رہے گی۔
میں کسی بحث میں نہیں الجھنا چاہتا ، گلشن اقبال پارک میں پاکستانیوں کا خون کیا گیا ہے، یہ ہمارے دشمنوں کی کارستانی ہے،اسکی ذمے داری قبول کرنے والے بہت سے گروپ سیسنہ تان کر دعوی کریں گے مگر ہمارا اصل دشمن بھارت ہے جس کے دہشت گرد ایجنٹ اب گرفتار ہو رہے ہیں اور وہ ساری کتھا اگل رہے ہیں۔بھارتی وزیر دفاع یہ کہہ چکے ہیں کہ ہم بلوچستان کو الگ کروانے کے لئے بلوچوں ہی کو استعمال کریں گے اور یہ کام کب کا شروع ہے، گوادر کی بندرگاہ بھارت کو ایک آنکھ نہیں بھاتی، ہمارے دیگر ہمسایوں کو بھی یہ منصوبہ قبول نہیں ، میڈیا خبریں دے رہا ہے کہ چاہ بہار کی ایرانی بندرگاہ کے شہر میں بھارتی نیٹ ورک بلوچستان میں سرگرم عمل ہے۔کاش! ایرانی صدر ہمارے آرمی چیف کی استدعا منظور کرتے ہوئے اس گروہ کو کچلنے میں پھرتی کا مظاہرہ کریں۔
میری دعائیں مسیحی خاندانوں کے ساتھ ہیں، ان کے پھول مسلے گئے، یہ وہی المیہ ہے جو ہمیں آرمی پبلک اسکول میں پیش آیا تھا، پشاورسانحے نے ہماری تاریخ کا دھارا بدل دیا اور ہم نے فاٹا میں قیام امن کے لئے کوششیں تیز تر کر دیں ، اب سانحہ گلشن اقبال نے ہمیں مجبور کر دیا ہے کہ ملک بھر میں پھیلے ہوئے دہشت گردوں کے نیٹ ورک، اور ان کے سہولت کاروں کا خاتمہ کر دیں ورنہ وہ ہمارا خاتمہ کر دیں گے۔اور اسکے لئے وہ کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے، انہوں نے ننھے پھولوں کو جھولاجھولتے مسلا ہے، ان کا خون کیا ہے، ان کے نرم و نازک جسموں کا قیمہ بنا ڈالا ہے، ماؤں کی گود اجاڑ دی ہے، بہنوں سے ا ن کے ویر چھین لئے ہیں۔ان کی ایسٹر کی خوشیوں کو روند ڈالا ہے۔
کیا یہ کسی رعائت کے مستحق ہیں۔
یہی و ہ سوال ہے جس کا جواب تلا ش کرنے کے لئے پنجاب حکومت اور فوج نے ایک لمحے کی تاخیر نہیں کی۔
مجھے یقین ہے کہ اب گجرے والی بانہوں کو تلوارا ٹھانے کی زحمت نہیں کرنا پڑے گی۔یہ گجرے مہکتے رہیں ،رنگ بکھیرتے رہیں،اور زندگی کو روشنی دکھاتے رہیں