خبرنامہ

گوادر میں ایکسپوکی بسم اللہ……..اسداللہ غالب

گوادر میں ایکسپوکی بسم اللہ……..اسداللہ غالب

شوکت علی شاہ سی ایس پی ا فسر بن کر پہلی بار کوئٹہ گئے تو اپنی بغل میں ایک کتاب دبائے واپس آئے، کتاب کا عنوان تھا ”اپنے دیس میں اجنبی“ یہ بدقسمتی ہے کہ انہیں کوئٹہ کی فضاﺅں سے وطن کی مٹی کی خوشبو نہ آ سکی۔
کالم نگارمولانا امیر حمزہ گوادر گئے۔ میںنے ان سے پوچھا کہ کہاں کہاں دہشت گردوں سے مڈبھیڑ ہوئی۔ کہنے لگے میں نے کراچی سے گوادر تک رات کے اندھیرے میں سفر کیا مگر کہیں کسی گیدڑ نے بھی راستہ نہ روکا۔
جناح رفیع فاﺅنڈیشن کے چیئرمین امتیاز رفیع بٹ نے چند دن قبل یاد کیا، وہ اپنے والد گرامی پر ایک ڈاکو منٹری بنوا رہے ہیں، لندن سے ایک ٹیم اس پراجیکٹ پرکام کر رہی ہے ، ان لوگوںنے میرا بھی انٹرویو کیا۔ بعد میں میںنے امتیاز سے پوچھا کہ آپ نے گوادر میں ایک ہاﺅسنگ سوسائٹی کی تشہیری مہم بہت بڑے پیمانے پر چلائی تھی۔ اس کا کیا ریسپانس رہا، امتیاز سمجھ گئے کہ میرا سوال کاروباری نوعت کا نہیں بلکہ سیاسی اور اسٹریٹیجک نوعیت کا ہے۔ امتیاز نے وفور جذبات میں کہا کہ غالب! آپ اگر گوادر گئے نہیں تو یہ سمجھنا مشکل ہو گا کہ وہاں کتنے بڑے انقلاب کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ گوادر صرف ایک بندرگاہ کا نام نہیں ، بلکہ یہ ایک سہانے مستقبل کی نوید ہے۔ یہ تین براعظموں کو تجارتی روابط میں منسلک کرنے کے لئے ایک گیٹ وے کی حیثیت رکھتا ہے۔
اسی گیٹ وے پر وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے عالمی صنعتی نمائش کا افتتاح کیا ہے ۔یہ بہت بڑا قدم ہے جو کامیابی کے طویل سفر کا حرف آغاز ہے۔
سی پیک پاکستان نے کیاشروع کیا کہ ایک دنیا ہماری جان کو آ گئی۔ بھارت نے اعتراض یہ داغا کہ سی پیک کا روٹ متنازعہ علاقے سے گزرتا ہے، پاکستان نے اس کا شافی جواب دیا کہ منگلا ڈیم کی تعمیر کے معاہدے پرتو عالمی بنک اور بھار ت نے دستخط کر رکھے ہیں۔یہ بھی تو اسی متنازعہ علاقے ہی میں واقع ہے اورا گر بھارت کو اس تنازع کااتنا ہی خیال ہے توو ہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اسے حل کیوںنہیںکرتا۔ بھارت کا براہ راست وار خالی گیا تویہی اعتراض اس نے امریکی صدر ٹرمپ کی زبان سے کروا دیا، پاکستان نے انہیں بھی یہی جواب دے کر خاموش کروا دیا مگر امریکی صدر ہار مارنے والے نہیں تھے، انہوں نے نیا بیان داغ دیا کہ امریکہ کسی صورت چین کوعالمی تجارت پر حاوی نہیں ہونے دے گا۔ مطلب یہ تھا کہ امریکہ نے ون بیلٹ ون روڈ کے منصوبے کی مخالفت کر دی، امریکی مخالفت سے تو چین نمٹ ہی لے گا لیکن ہم پاکستانیوں کو بھارتی شردھالووں سے ہوشیار رہنا ہو گا جو شروع سے اس منصوبے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ سبھی صوبوںنے سی پیک کو پنجاب کی منفعت کا منصوبہ قرار دیا تھا۔ ایک لحاظ سے سی پیک کو بھی کالا باغ ڈیم بنانے کی کوشش کی گئی، وہ توشکر ہے کہ اس منصوبے کے پیچھے چین تن کر کھڑا ہے، ورنہ سی پیک کا خواب چکنا چور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔
یقین کیجئے کہ بھارتی را نے پاکستانی لیڈروں کو سی پیک کے خلاف بیان بازی کے لئے ڈالروں سے لاد دیا ہے۔ ہر کوئی بقراط بنا ہوا ہے اور سی پیک پر بھارت کے رٹائے ہوئے سبق کو دہرا ئے چلا جا رہا ہے، کوئی کہتا ہے کہ چین خطے میں نئی ایسٹ انڈیا کمپنی بن جائے گا، کسی نے کہا کہ گوادر میں پاکستانی کرنسی کے بجائے چینی کرنسی چلے گی، کوئی یہ دور کی کوڑی لایا کہ چین یہاں فوج اتار دے گا اور بلوچستان کے انتظامی معاملات اپنے ہاتھ میں لے لے گا۔ یوسف رضا گیلانی جیسے سابق وزیراعظم یہاں تک کہہ گئے کہ دس سال بعد ملتان میں چائنا ٹاﺅن بن جائے گا اور مقامی آبادی شودر بن کر رہ جائے گی۔ عصبیت کی کوئی انتہا نہیں ہوتی مگر گیلانی صاحب کو تو حیا کرنا چاہئے تھی، ان کا لیڈر زرداری تو اٹھتے بیٹھتے سی پیک کا کریڈیٹ خود لے رہا ہے۔
سی پیک کا دفاع خودچین کر رہا ہے۔ یہ وقت بھی آنا تھا کہ ہم گونگے بنے بیٹھے ہیں اور صرف اس خیال سے کہ سی پیک کا سہرا نواز شریف کے سر سج رہا ہے، اس کی مخالفت کئے جا رہے ہیں، چین نے کہا کہ اس کی ہزاروں سال کی تاریخ ہے ، اس نے آج تک اپنی باﺅنڈری سے باہر قدم نہیں رکھا ، کہیں فوج کشی نہیں کی۔ بھارت نے نیفا کا محاذ خود کھولا اورمنہ کی کھائی۔ چین کہتا ہے کہ عالمی سطح پر ڈالر کی حکمرانی ہے، ہمیں باہمی تجارت اپنی کرنسی میں کرنی چاہئے اور ڈالر کی با لادستی کو ختم کرنا چاہئے۔ چین کہتا ہے کہ اسے صرف اپنا تجارتی مفاد عزیز نہیں بلکہ وہ تین براعظموں کی تقدیر بدلنے کا خواہاں ہے، وہ ہر ہمسائے کو سی پیک اور ون بیلٹ ون روڈ کے منصوبے میں شمولیت کی دعوت خوش دلی سے دے رہا ہے ۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے چین کے اس منصوبے کی وجہ سے ملک بھر میں سڑکوں کا جال بچھ چکا ہے، کیا مکران ہائی وے پنجا ب میں ہے، کیا سندھ سے گوادر کو ملانے والی سڑک پنجاب کو فائدہ دے گی، کیا ڈیرہ اسماعیل خان اور فاٹا میں سڑکوں کا جال پنجاب کے فائدے میں ہے۔ افسوس کہ ہم پاکستانیوں کی سوچ سطحی سی ہے، ہم اپنا نفع نقصان نہیں دیکھتے، صرف بھارت کی زبان بولتے ہیں اور اپنے غیر ملکی بنک اکاﺅنٹس ڈالروں سے بھر رہے ہیں، ہمیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ تھر میں بچے قحط سے مر رہے ہیں اور ان کی مائیں سوکھ کر ہڈیوں کے ڈھانچے میں تبدیل ہو گئی ہیں۔
ان حالات میں وزیراعظم عباسی کی طرف سے گوادر میں ایکسپو کے ا فتتاح کی خبر نے مجھے تو نہال کر دیا ہے۔
نواز شریف کا گلہ بجا ہے کہ انہوںنے ایٹمی دھماکہ کیاا ور ان کی حکومت کا دھماکہ کر دیا گیا، ان کے پورے خاندان کو ایٹمی دھماکے کی پاداش میں جلاوطن کر دیا گیا، آج ان کا کہنا ہے کہ وہ سی پیک مکمل کر چکے ہیں، بجلی کے نئے کارخانوںنے ملک کو لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے نجات دلا دی ہے اور ملک بھر میںموٹر ویز بن رہی ہیں لیکن اس کی جزا کیا ملی کہ انہیں وزارت عظمی سے ہٹا کر نااہل کر دیا گیا۔ نواز شریف صحیح کہتے ہیں کہ اصل فیصلے تاریخ اور عوام کرتے ہیں اور ماضی کے درجنوں فیصلے حرف غلط کی طرح مٹ چکے ہیں۔
آج ملک کی وہ بدحالی نہیں جو نواز شریف کے حکومت میں آنے سے قبل دیکھنے میں آ رہی تھی۔
تاریخ اور عوام اس انقلابی تبدیلی کا صلہ نواز شریف کو ضرور دیں گے…. اور ایک دنیا سی پیک کے گن گائے گی۔