خبرنامہ

گھر کی عزت عمران کیا جانے۔۔اسداللہ غالب

احتجاج سیاسی ا ور جمہوری حق ہے، ساری دنیا میں اس حق کو استعمال کیا جاتا ہے مگر کہیں بھی کوئی آڈھا نہیں لگا کر بیٹھ نہیں جاتاا وراس طرح دھرنا نہیں تا کہ وفاقی سیکرٹریٹ کا کام معطل ہو جائے، سپریم لورٹ کو مفلوج کردیا جائے، پارلمینٹ کا گھیراؤ کر لیا جائے اور عام آدمی زندگی کو لامتناہی عرصے کے لئے مفلوج بناد یا جائے۔ عمران نے یہ کام پہلے کر دیکھا، اس کو ریاست نے کرارا جواب نہیں دیا،ا سلئے اس کا حوصلہ مزید بڑھ گیاہے ا ور اب وہ نواز شریف کے گھر کا گھیراؤکرنا چاہتاہے، معلوم نہیں نوازشریف ا س سے کیا سلوک کریں، عمران کو چاہئے کہ وہ میرے گھر کا گھیراؤ کر کے اپنے شوق کو پورا کر لیں مگر جب میں عمران کے گھر کا گھیراؤ نہیں کرتا تو اسے میرے گھر کا گھیراؤ کرنے کا حق کس نے دیا، ملکی ادارے تو اس امر کی اجازت نہیں دیتے شایداس کی پشت پر کوئی غیر ملکی طاقت ہوا ور جو طاقت ا س وقت ملک کو نقصان پہنچانے کے در پے ہے ، اس نے اپنے مذموم عزائم واضح کر دیئے ہیں، مودی کہتا ہے کہ وہ بلوچستان،گلگت اورآزاد کشمیر میں وہی کچھ کرنا چاہتا ہے جوا اس سے پہلے، ہر بھارتی شہری مشرقی پاکستان میں گل کھلا چکا ہے۔
عمراان کو گھر کی عزت اور حرمت کا احساس ہوتا تو وہ جاتی امر اکا لفظ بھی زبان پر نہ لاتا،ا سے گھر کی حرمت کااحساس اس لئے نہیں کہ اسے اپنے گھر کے تقدس کاکوئی خیال نہیں اور یہ تقدس خود اس نے اپنے ہاتھوں پامال کیا ہے، وہ دو شادیاں کر کے چھوڑ چکا ہے، بہنوں سے اس کی نہیں بنتی، گھر وہ ہوتا ہے جہاں ماں ، بہن، بیوی رہتی ہو، عمران خان کا گھر ا ن نعمتوں سے خالی ہے۔اس لئے اسے کسی کی ماں ، بہن، بیوی کی حرمت کا خیال کیسے ہو گا، اس نے تو اپنی اولاد کو بھی گھر سے نکال رکھا ہے، وہ ایک یہودی کے گھر میں پل رہے ہیں، اس قدر اوترا نکھترا شخص ہی جاتی امرا کا رخ کرنے کاا علان کر سکتا ہے۔
عمران کو انصاف ملنا چاہئے مگر اسے انصاف اسی رفتار سے ملنا چا ہئے جس رفتار سے اس ملک کے عام آدمی کو انصاف ملتا ہے۔ اورعام آدمی کو کہیں تیسری نسل میں جا کر انصاف ملتا ہے، انصاف میں اس قدر تاخیر کیوں ہے،اس کا جواب عمران کو عدلیہ سے لینا چا ہئے۔وہ جلدی انصاف چاہتا ہے ، مگر وہ اہنے آپ کو اس قدر چہیتا اور لاڈلا کیوں سمجھتا ہے۔کہ ادھر وہ پٹیشن دائر کرے، ادھر اسے بلیوٹوتھ یا وائی فائی کنکشن پر فیصلہ مل جائے، نہیں عمران صاحب! پاکستان میں انصاف ان ڈیوائسز کے ذریعے فراہم نہیں کیا جاتا۔دنیا بھر میں انصاف دہلیز پر فراہم نہیں کیا جاتا، پانامہ لیکس میں کروڑوں کے حساب سے نام آئے، پڑوسی ملک بھارت کے لوگ بھی اس میں شامل تھے مگر وہاں بھی کسی کے کانوں تک جوں نہیں رینگی، مگر عمران کے مطالبے باؤلے ہوئے جا رہے ہیں۔
پانامہ لیکس میں برطانوی وزیر اعظم کا نام آیا، اس کے لئے ڈیوڈ کیمرون کا احتساب کسی نے نہ کیا، نہ ہو سکتا تھا۔عمران اگر اس لئے چوڑے ہو رہے ہیں کہ پچھلے دھرنے کے دوران ا سکی ملاقات نصف شب کو آرمی چیف سے ہوگئی یا مردان میں اس کی ایک ا ور ملاقات آرمی چیف سے ہو گئی،اس طرح کی دو ملاقاتیں ایک اور کھلاڑی عامر خان کی بھی ہوچکی ہیں وہ باکسنگ رنگ میں اترتا ہے، مگر آرمی چیف سے ملاقات کا مطلب کہاں سے نکل آیا کہ اس ملاقاتی کے سر پر شہزادگی کے سینگ نکل آئے۔آرمی چیف تو ان دہشت گردوں کی سرکوبی کر رہے ہیں جو ا س ملک کی عدلیہ، پارلمنٹ اور آئین کو نہیں مانتے، عمران بھی ان ا داروں کو نہیں مانتا اور انہیں تہہ و بالا کر کے اقتدار کی سیڑھیاں پھلانگنا چاہتا ہے۔
ملک میں کبھی ایک موچی دروازہ ہوتا تھاجہاں سیاستدان دھینگا مشتی کرنے کے لئے آزاد تھے، ایک ناصر باغ تھا جہاں جلسوں کو الٹنے کے لئے سانپ چھوڑ دیئے جاتے تھے۔ان کی جگہ پھر مینارپاکستان گراؤنڈ نے لے لی جہاں قرارداد پاکستان منظور کی گئی تھی۔یہاں بعد میں بڑے بڑے جلسے ہوئے۔اور کسی جلسے کو الٹایا بھی نہیں گیا، البتہ پلٹن میدان میں مولانامودودی کا جلسہ پلٹا گیاا ور پھر مشرقی پاکستان کی بساط ہی لپیٹ دی گئی۔جلسے جلوسوں کے لئے مال روڈ بھی مرغوب جگہ تھی، محترمہ بے نظیر نے جلاوطنی ختم کی تو لاہور ایئر پورٹ سے مال روڈ کا روٹ اختیار کیا ، پتہ نہیں کیا نشہ تھا کہ انہوں نے کہا کہ میں چاہتی تو لاہور کینٹ کو آگ لگا دیتی اور گورنر ہاؤس پر قبضہ جما لیتی، ہمارے سیاستدان ایک طرف جمہوریت کی بات کرتے ہیں، دوسری طرف فاشزم کے ذریعے اقتدار چاہتے ہیں۔مال روڈ والے تاجر سٹپٹاتے ہین کہ یہ سڑک جلسوں کے لئے تو نہیں بنی تھی مگر ہرکوئی اسی سڑک کا رخ کرتا ہے ا ورسارے غائبانہ جنازے مسجد شہدا میں پڑھے جاتے ہیں، یہ جنازے کسی بھی مسجد میں پڑھے جا سکتے ہیں اورپھیپھڑے پھلا کر نعرے بھی اپنے اپنے گھر کے باہر لگائے جا سکتے ہیں، کیا کبھی آپ نے دیکھا کہ برساتی مینڈک ٹرانے کے لئے مال روڈ یا جاتی امر ا کا رخ کرتے ہوں، بس جہاں پانی کھڑا ہو، وہاں ٹرا کر دل خوش کر لیتے ہیں، عمران بھی اپنے گھر زمان پارک کے سامنے کوئی درجن بھر افراد کو بلائے، پہلے انہیں ناشتہ کروائے،پھر لنچ باکس پیش کرے اور پھر جی بھر کے نعرے بازی کر لے، کسی کو اوئے کہے، کسی کو کہے کہ میں آ رہا ہوں، کسی کو کہے کہ تم سے شادی کر رہاہوں۔ یہ کام زیادہ خوش کن ہے، یہی عمران کو سجتا بھی ہے اوراس کاکچھ جاتا بھی نہیں ، بس ادھر شادی کی، ادھر توڑ دی۔ عمران نے دھماچوکڑی مچانی ہے تو زمان پارک میں یہ شوق پورا کر لے ،ورنہ اس نے جاتی امرا کی خواتین کی طرف دیکھنے کی حماقت کی تو میرا تجزیہ ہے کہ روئے زمین پراسے کہیں منہ چھپانے کو جگہ نہیں ملے گی۔اس ملک میں غیرت کے خلاف قانون سازی کے باوجود غیرت موجود ہے اور عمران اس غیرت کا امتحان نہ لے۔