خبرنامہ

یوم آزادی پر والد گرامی کی یاد وں کا گولڈ میڈل….اسداللہ غالب

بسم اللہ
انداز جہاں۔۔۔اسداللہ غالب
یوم آزادی پر والد گرامی کی یاد وں کا گولڈ میڈل

کبھی بھولی ہوئی منزل بھی یاد آتی ہے راہی کو۔ اور اگر انسان کو بھولے سے اپنے والد کی یاد آجائے تو اس واردات کو قلم بند کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
چودہ اگست کو جب ساری قوم جشن آزادی منا رہی تھی تو میں نے اپنے والد گرامی کی یادوں کا گولڈ میڈل گلے میں پہناا ور میرا سینہ فخر سے تن گیا۔ وہ تحریک آزادی کے ایک گمنام ہیرو تھے۔ مسلم لیگ کے ایک بے لوث کارکن اور گنڈا سنگھ والہ کے مہاجر کیمپ اور گنج شہیداں کے ایک ناقابل فرمواش کردار۔ انہیں ستائش کی تمنا تھی نہ صلے کی پروا۔میں ان کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا اس لئے نہیں جانتا کہ آزادی کے چار سال بعد ان کی وفات ہوئی تومیں بھی چار سال کا بچہ تھا، والد کی وفات والا قصہ بھی عجب قصہ ہے۔ اس قصے کو تاریخ میں صرف دو مرتبہ دہرایا گیا، ایک بار مغل شہنشاہ ظہیر الدیں بابر نے دعا کہ ان کے بیٹے ہمایوں کی بیماری ان کو لگ جائے۔ دعا قبول ہوئی۔ بابر کی وفات واقع ہو گئی اور ہمایوں نے سلطنت مغلیہ کو دوام بخشنے کے لئے طویل عمر پائی۔ دوسری مرتبہ میرے والد نے ایک رات کے آخری پہر آنکھ کھولی۔ دو نفل ادا کئے اور اپنے ایک بیمار بیٹے کے سرہانے دعا کی کہ الہی!! اس کی بیماری انہیں لگا دے۔صبح ہوئی تو بیٹے کا بخار اتر رہا تھا اور ولد صاحب بخار سے تپ رہے تھے۔ انہوں نے اپنی دعا کا ذکر میری والدہ سے کیا ، وہ سٹپٹا اٹھیں کہ دعا ہی مانگنی تھی تو سیدھے بیٹے کی خیریت کی دعا مانگتے مگر جو ہونا تھا، وہ وہ چکا تھا،۔ چار روز بعد میرے والد خاق حقیقی سے جا ملے، یہ جون کی کوئی تاریخ تھی اور رمضان کا مہینہ۔مجھے وہ منظر نہیں بھولتا جب گاؤں کی اس شاملات سے میرے پاب کا جنازہ اٹھاتھا جہاں وہ مسلم لیگ گارڈز کی پریڈ کروایا کرتے تھے تو میری ماں اس کچی سڑک پر لوٹ پوٹ ہو رہی تھیں اورمٹھیاں بھر بھر کر دھول کو اپنے سر کے کھلے بالوں میں ڈال رہی تھیں۔
یادوں کی ایک کہکشاں یوم آزادی کے افق پر روشن ہوئی تو مجھے محسوس ہوا کہ پاکستان میرے لئے بھی باعث فخر ہے۔
مجھے اپنے والد گرامی یاد�آ گئے جو مسلم لیگ گارڈز میں سالار کے طور پر فرائض انجام دیتے رہے۔اوراس حیثیت میں انہوں نے گراں قدر خدمات انجام دیں۔
میں ان خدمات کو ذہن میں لاتا ہوں تو میرا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے۔
میرے والد مسلم لیگ گارڈز کے ایک دستے کے ساتھ گاؤں کی شاملات میں چپ راست چپ راست کی کمانڈ دیتے تھے ،۔ ان کا لہجہ پر جوش تھا۔ اس دستے کے ہاتھوں میں تھری ناٹ تھی۔ ڈبل بیرل اور ایک نالی بندقیں بھی ہوتی تھیں ، کچھ تو لائسنسی تھیں اور کچھ پولیس کی طرف سے ملی تھیں تاکہ تقسیم کے دوران فسادات پر قابو پایا جا سکے۔
میرا گاؤں قصور اور فیروز پور کے درمیان سرحدی لکیر پر واقع ہے۔ ایک طرف فتوحی والہ کی چھوٹی سی پس ماندہ بستی اور لکیر کے دوسری طرف فیروز پور کا جگمگاتا شہر۔ درمیان میں ایک ہیڈ ورکس ، گاؤں کے جنوب میں دیپالپور کی نہر جو اس قدر فراخ تھی کہ کوئی کوئی لڑکاسے تیر کر پار کرنے کی ہمت رکھتا تھا۔ فیروز پور ہیڈورکس کے بالائی علاقے میں بے شمار گائیڈ بند تعمیر کئے گئے تھے جن کے اندر جھیلیں سی بن گئی تھیں۔ اور ان میں کنول کے دودھیا پھول کھلتے۔ سردیوں میں مرغابیوں کی ڈاریں اترتیں ،گاؤں کے مشرق سے دہلی جانے والی ریلوے لائن ۔ جس کے پرانے پل کے آثار بھی باقی تھے۔ پل کے شروع میں ایک قلعہ نما دو منزلہ عمارت جس کے نیچے ریل کی پٹری بچھی تھی ا ور اوپر کی منزل سے سڑک گزرتی تھی ، معلوم نہیں یہ راستہ کب متروک ہوا۔ مگر گاؤں کے لوگ بتاتے ہیں کہ جب بھگت سنگھ کو پھانسی ہوئی تو اس کی آخری رسومات اس دو منزلہ عمارت کے سامنے انجام پائیں۔آزادی کے چند برس بعد سرحدی لکیر پر نظر ثانی ہوئی اور یہ دو منزلہ عمارت اورا س سے ملحقہ وسیع رقبہ بھارت کو دے دیا گیا تو بھارت نے اس عمارت کو قصر ہند کا نام دیا اورا س کے سامنے ایک خوبصورت یادگار تعمیر کی جسے بھگت سبگھ سے موسوم کیا گیا۔ اکہتر کی جنگ میں پاک فوج نے ہلہ بول کر قصر ہند پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس کے لئے ایک خونریز معرکہ برپا ہوا جس کی داستان میں نے بھی لکھی اور قصر ہند کے فاتح کرنل حبیب کمانڈر اکتالیس بلوچ نے بھی لکھی۔
میں آزادی کی یادوں کو تازہ کرنا چاہتا تھا ۔مگر بات کدھر نکل گئیْ
میرے گاؤں میں ایک کھتری خاندان رہائش پذیر تھا، یہ شخص ہمارے والد کی دکان کامنشی تھا جسے میرے والد نے پیش کش کی کہ وہ چاہے تو یہیں رہے اور چاہے تو اسے وہ بحفاظت سرحد پار پہنچا دیں گے۔ چند ماہ بعد اس نے بھارت جانے کو کہا تو والد صاحب نے اس کا سامان اپنی بیل گاڑی پر لاد اور اسے فیروز پور پہنچا دیا۔
مگر میرا سارا ننھیال اور سسرال فیروزپور کے ارد گرد کی بستیوں میں مقیم تھا، ریاست ممدوٹ بھی مسلم آبادی سے اٹی ہوئی تھی۔ فیروزپور کی تحصیل زیرہ اورموگا کے علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت تھی، آزادی ہند کے اوریجنل فارومولے میں فیروز پورا ور گورداسپور کے اضلاع پاکستان کاحصہ بننے تھے مگر ریڈ کلف ایوارد نے راتوں رات اندھہر مچا دیا اور سرحدی لکیر میں رد و بدل کر کے پنجاب کا باسٹھ فی صد علاقہ بھارت کے حوالے کر دیا۔ اس سے ایک قیامت برپا ہو گئی۔ مسلمانوں پر تو جیسے بجلی آن گری ہو۔۔ ہندوووں کو ریڈ کلف کی دھاندلی کی سن گن پہلے سے تھی ۔ اس لئے وہ ذہنی طور پر پاکستان چھوڑنے کے لئے تیار تھے مگر مشرقی پنجاب کے مسلمان دو ہاتھ اور دو پاؤں لے کر منزل مراد کی طرف ہجرت پر مجبور ہو گئے۔
مجھے فیروز پور، ممدوٹ،، زیرہ اور موگا کے مسلمانوں کی بپتا کا ذکر کرنا ہے۔یہ لوگ گھروں سے نکلے تو پیدل تھے، انہیں کوئی سواری میسر نہ تھی۔ ان علاقوں کے مہاجرین کو بحفاظت پاکستان لانا میرے والد اور ان کے دیگر مسلم لیگ گارڈز کی ذمے داری تھی۔ یہ گارڈز مسلح تھے اوردریار کر کے مہاجریں کے ان قافلوں کو گنڈا سنگھ والہ کے کیمپ تک پہنچا دیتے۔ اس کیمپ میں اسی افرا تفری کامنظر تھا جو لاہور میں والٹن کے مہاجر کیمپ کا تھا حال تھا،۔ لاہوریوں کے پاس پھر بھی وسائل زیادہ تھے مگر گنڈا سنگھ والہ کیمپ کے مہاجریں کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔ بیماری،بھوک اور تھکن سے ان کی اموات ہو رہی تھیں۔ مرنے والے کو ایک گڑھا کھود کر خدا کے سپرد کر دیا جاتا،میں نویں جماعت میں تھا کہ ہمارے ٹیچروں تے ہمیں گنڈ ا سنگھ اسکول کے ارد گرد صفائی پر لگا دیا ، ہمیں حکم تھا کہ اونچی نیچی زمین کو ہموار کرتے جائیں ہم جہاں کہیں کسی مارتے ، نیچے سے کوئی انجر پنجر نکل آتاا ور ہماری چیخیں نکل جاتیں۔ یہ انجر پنجر ان مہاجروں کے تھے جو گنڈا سنگھ کیمپ میں شہات سے ہمکنار ہوئے۔ میں تو گنڈا سنگھ کا نام بدل کر اسے گنج شہیداں کا نام دینے کے حق میں ہوں ۔ یہ زمین بھی والٹن کی زمین کی طرح فوج کے کھاتے میں درج تھی،اس لئے میں نے والٹن میں باب پاکستان کی یاد گار کا حشر دیکھ کر کبھی یہ نہیں سوچا کہ گنڈا سنگھ میں بھی ایک باب پاکستان قائم کیا جائے۔یہ زمین کوئی پندرہ بیس ایکڑ ہو گی ۔مگر اسے ساٹھ کے عشرے میں ایک مقامی کاشتکار کو ٹھیکے پر دے دیا گیا ، جب شہیدوں کی قبروں پر ہل چل رہے تھے تو میں بے اختیار ہو کر رونے لگا۔اسی گنج شہیداں میں میرے والد کی قبر بھی تھی، ٹھیکے دار کو معلوم تھا کہ یہ قبر کس کی ہے ، اس نے اس قبر کے ساتھ کوئی ایک دومرلہ زمین خالی چھوڑ دی۔ جس میں گھاس پھونس اگ آئی تھی ا ور ا س کے ایک سرے پر شیشم کا ایک ٹنڈ منڈ درخت تھا۔ اس درخت کی نشانی پر پہنچ کر میں برسوں تک اپنے باپ کی قبر پر فاتحہ پڑھتا رہا مگر سن دو ہزر کے بعد یہ زمین ٹھیکے دار سے واپس لے لی گئی ا ور فوج نے خودا س کی کاشت شروع کر دی۔۔ اب کیا دیکھتا ہوں کہ میرے والد کی قبر کا نام ونشاں کہیں باقی نہ تھا۔ فوج کے پاس لاکھوں مربع ایکڑ زمیں پاکستان میں ہے ،۔ اگر وہ والٹن اور گنڈا سنگھ کیمپ کی زمین شہدائے پاکستان کی یادگاروں کے لئے وقف کر دے تو اس کی نیک نامی میں اضافہ ہی ہو گا۔
انسان قبر میں اتر جاتا ہے، قبریں مٹ جاتی ہیں۔مگر شہید زندہ رہتے ہیں۔ ان کی یادیں امر ہو جاتی ہیں۔
والد گرامی کا نام عبدالوہاب تھا، وہ شاہ ولی اللہ دیلوی،سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید کے قافلہ حریت کے ایک راہ رو تھے، انہوں نے زندگی بھر تحریک ریشمی رومال کے ایک لازوال کردار صوفی ولی محمد کی میزبانی کی۔ ان کے پاس مولانا عبیداللہ سندھی، مولوی معین الدیں قصوری ا ور مولوی محی الدین قصوری جیسے جید علما باقاعدگی سے حاضری دیتے۔ آج کے دور میں اس تحریک آزادی کو دہشت گردی کہا جاتا ہے ، مجھے فخر ہے کہ میراتعلق ایک اٰیسے ہی دہشت گرد گھرانے سے ہے۔
میرے مرشد مجید نظامی نے بھی کہا تھا کہ کہ انہیں جس کسی نے دہشت گردی کے جرم میں گوانتا نامو بے لے جانا ہو تو بڑے شوق سے لے جائے۔ اس لحاظ سے مجھے دہشت گردی کا دہرا تڑکا لگا ہوا ہے۔