خبرنامہ

یوم آزادی کا ایک مشترکہ بیانیہ۔۔اسداللہ غالب

وہ نسل عنقا ہوتی جا رہی ہے جس نے پاکستان بنتے دیکھا یا اس کی تحریک میں حصہ لیا۔
ہفتے کو تیرہ اگست تھی،ہم چند دوست چائے کی میز پر اکٹھے ہوئے۔ پروفیسر سید محفوظ قطب سب سے سینیئر تھے، انہیں کرسی صدارت پیش کی گئی۔ اور انہی سے گفتگو کاآغاز بھی ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ جب پاکستان بنا تووہ نویں جماعت میں تھے اوراس دور کے واقعات انہیں اچھی طرح یاد ہیں،وہ لاہور میں رہتے تھے مگر اگست کی چھٹیوں کی وجہ سے اپنے عزیزوں کے پاس ہوشیار پور چلے گئے، وہیں پتہ چلاکہ پاکستان بن گیا ہے اور لوگوں نے ہجرت شروع کر دی ہے۔ان کے ایک عزیز ایئر فورس میں تھے اور قائد اعظم کے پائلٹ ہونے کا شرف بھی انہیں حاصل تھا۔ وہ دو ٹرک لے کر ان کے پاس پہنچے ، ان کی ہدائت تھی کہ کوئی سامان نہیں اٹھانا، دونوں ٹرک تما م عزیزوں کو خالی ہاتھ لانے کے لئے بھی ناکافی تھے۔ وہ راستے میں جدھر بھی دیکھتے، لاشوں کے ڈھیر لگے تھے، ان لاشوں پر کپڑے نام کی کوئی چیز نہ تھی، الف ننگی، دھوپ میں گل سڑرہی تھیں۔انہوں نے سولہ اگست کی رات کو سفر شروع کیا ور سترہ اگست کی رات لاہور پہنچ گئے، اللہ کا شکر ادا کیا مگر پھر ان کے باقی عزیز بھی ان کے پاس پہنچناشروع ہو گئے، ایک و قت میں گھر میں پچاس لوگ تھے، ان کے گھر میں ان کی والدہ محترمہ چوبیس گھنٹے ایک ہی کام کرتیں، روٹی ا ور ہانڈی پکتی رہتی اورلٹے پٹے مہمان باری باری کھانا کھا پاتے۔
لاہور میں قیامت کا سماں تھا، ہندوا ور سکھ جا رہے تھے اور مسلمان مشرقی پنجاب کے دیہات سے بیل گاڑیوں میں لدے آ رہے تھے، پیدل قافلے بھی امڈے چلے آ رہے تھے، ان میں سے کوئی ایسا نہ تھا جس کے جسم پر کوئی زخم نہ ہو۔سکھوں نے مظالم کی انتہا کر دی تھی۔
پروفیسر محفوظ قطب نے قائد کے ایک جلسے میں شرکت کی، یہ بڑا پر سکون جلسہ تھا، جو اسلامیہ کالج کی گراؤنڈ میں ہوا۔ قائد اعظم نے تقریر شروع کی تو خاکسار تحریک کے سربراہ علامہ مشرقی نے اذان دینا شروع کر دی، جب تک اذان ہوتی رہی، قائد خاموش ہو گئے ، پھر انہوں نے تقریر شروع کی، اسی جلسے میں ثاقب زیروی نے ترنم کے ساتھ ایک نظم پڑھی،قطب صاحب کا حافظہ بلا کا ہے، انہوں نے ستر سال پہلے اپنے بچپن میں سنی ہوئی نظم فر فر سنانا شروع کر دی، ہم ان کی یاد داشت پر دنگ رہ گئے۔قطب صاحب نے بتایا کہ وہ اس جلسے میں اسکاؤٹ کی وردی پہن کر شریک ہوئے، سارے اسکاؤٹ ایک استقبالیہ قطار میں کھڑے تھے، قائد تشریف لائے تو ایک ایک اسکاؤٹ کی طرف دیکھتے اور پیشانی تک ہاتھ لے جا کر سیلوٹ کرتے۔قطب صاحب کہتے ہیں کہ قائد کے اس سیلوٹ پر وہ ساری زندگی ناز کرتے رہے ہیں۔پتہ نہیں کیا جذبہ تھا جو ہماری رگ رگ میں سما گیا تھا، ہم گھر گھر جا کر راشن اکٹھا کرتے اور والٹن کے کیمپ میں مہاجرین میں جا کر بانٹ دیتے۔ کیا مجال کبھی تھکن کا کوئی احساس تک ہوا ہو۔
؂پروفیسر مسرور کیفی نے ان کی بات کاٹتے ہوئے کہا کہ یہ جذبہ سینتالیس کے بعد دوبارہ پینسٹھ میں دیکھنے میں آیا۔ستار نواز عبداللطیف خاں نے بھی ان کی تائید کی کہ وہ بھی رضاکار بن کر اگلے مورچوں تک گئے، کبھی وہ فن کاروں کے ساتھ فوجیوں سے ملتے ا ور ان کو داد دیتے، سرگودھا میں ان کی ملاقات ایم ایم عالم سے ہوئی جن کی شہرت یہ تھی کہ صرف تیس منٹ میں انہوں نے بھارت کے چار حملہ آور طیارے مار گرائے تھآور اگلے تیس منٹ میں تعاقب کر کے پانچواں طیارہ بھی گرا دیا،اس طرح انہوں نے ایک ا یساریکارڈ قائم کیا جو آج تک کسی سے نہیں ٹوٹ سکا۔ کیفی صاحب نے بتایاکہ سینتالیس میں وہ کم سن تھے مگرانہیں یہ یاد ہے کہ گھر کے بزرگ باتیں کرتے تھے کہ ذرا فسادات ختم ہو جائیں ، تومہاجرین واپس گھروں کو چلے جائیں گے۔ کیفی صاحب کے تایا جی ریلوے اسٹیشن کے واشنگ ایریا میں کام کرتے تھے، انہوں نے بتایا تھا کہ مشرقی پنجاب سے جو ٹرینیں آتی تھیں، ان میں مہاجرین کی لاشیں خون میں اس طرح جم چکی ہوتی تھیں کہ انہیں کھینچ کر نکالنا مشکل ہو جاتا۔
محفل میں موجود خالد محمود سلیم اسٹیٹ بنک سے ریٹائر ہونے والے بھی خاموش نہ رہ سکے۔انہوں نے بتایا کہ وہ پاکستان آنے کے لئے جس ٹرین میں سوار ہوئے ، وہ خون سے لتھڑی ہوئی تھی۔ان کی والدہ نے اپنے برقعے میں انہیں چھپا رکھا تھا تاکہ کسی حملہ آور کی نظرا ن پر نہ پڑے، عام طور پر سکھوں کو جنون تھا کہ وہ بچوں کے پیٹ میں سنگین گھونپتے اور انہیں ہوا میں بلند کر کے نعرہ لگاتے کہ یہ ہے قائد اعظم کا پاکستان۔
ہماری اس محفل میں سب سے کم عمر پروفیسر ڈاکٹر جاوید اقبال ندیم تھے، وہ محکمہ تعلیم کی ملازمت سے ریٹائر ہو چکے ہیں مگر ایک زمانے میں صحافت میں تھے، انہوں نے کئی بزرگوں کے انٹرویو کئے جو تحریک پاکستان میں شامل رہے۔ان میں ایک چودھری عبدالحمید تھے جو کچہری روڈ لاہور پر مکتبہ کارواں چلاتے تھے ا ور ان کی دکان پر تحریک پاکستان کے کارکنوں کا مجمع لگا رہتا تھا۔ انہون نے بتایا کہ وہ امرتسر میں کہیں اکیلے رہ گئے، انہیں ایک اور دوست نظرآیا ، وہ بھی اپنے خاندان سے بچھڑ چکا تھا، دونوں نے اکٹھے لاہور کی طرف سفر کا ارادہ کیا مگر حمید صاحب کے دوست جن کا نام ذوالفقار تھا، کہنے لگا کہ میں ایک جگری سکھ دوست کو الوداع کہہ آؤں، وہ سکھ دوست کے مکان پر پہنچا، دروازہے پر دستک دی، سکھ باہرآیا اور کہنے لگا کہ رکیے ،میں اندر سے کرسیاں لاتا ہوں اور ذرا بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں، سکھ یہ کہہ کر اندر چلا گیا، باہر آیا تو اس کے دونوں ہاتھ پیچھے چھپے ہوئے تھا اور اس نے اچانک ہاتھ آگے کیے اور خنجر کے وار کر کے اس دوست کو لہو لہان کر دیا، ذوالفقار زخمی حالت میں چودھری عبدالحمید کے پاس پہنچاا ور ساری کتھا سنائی ،لڑکھڑاتے ہوئے انہوں نے پاکستان کا رخ کیا مگر ذوالفقار زخموں کی تاب نہ لا سکا ۔
خالد سلیم صاحب نے مزید بتایا کہ وہ لاہور آکر پنے ایک تایا کے گھرمیں مقیم ہوئے، بعد میں ملتان کی طرف چلے گئے مگر اس شہر نے انہیں قبول نہ کیا، ملتان والے کہتے تھے کہ یہ شہدے پناہ گزین ہیں۔ایک خالد صاحب پر کیا موقوف، مقامی لوگوں نے مہاجرین کو ایک عرصے تک پناہ گیر ہی کہا اور ان سے اس قدر نفرت تھی کہ جو گڑ انتہائی خراب ہوتا ، اسے پناہ گیر گڑ کہا جاتا۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ مہاجرین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے والوں کی بھی کوئی کمی نہ تھی۔انہی کی صلہ رحمی کی وجہ سے انصار مدینہ کی یا دتازہ ہو گئی۔
بحیثیت مجموعی پاکستان نے مسلمانان بر صغیر کی زندگی پر کیا اثرات مرتب کئے۔یہ تھاآخری سوال۔
خالدمحمود سلیم ایک بنکر ہیں ، انہوں نے ا یک اور بنکر مشتاق یوسفی کی بات سنائی کہ پاکستان نہ بنتا تو وہ کسی بنک کی سربراہی کا خواب تک نہیں دیکھ سکتے تھے، بالفرض انہیں کسی بنک میں نوکری مل بھی جاتی تو انہیں چوکیدار کے طور پر ایک بنچ پر بٹھا دیا جاتا ور وہ ساری عمر اسی بنچ پر بیٹھے رہتے، اور وہیں مر جاتے اور بنچ کی لکڑی کے تختے پر ان کی لاش اکڑ جاتی۔
یوسفی صاحب ممتاز مزاح نگار ہیں مگر ان کی یہ بات ایک نشتر کی طرح دلوں کو چھید کر رکھ دیتی ہے۔
کیا ہم اس پاکستان کی قدر ومنزلت نہیں کر سکتے جس نے ہمیں عزت دی، دولت دی، شہرت دی،اور ہمارے سر پہ سایہ قائم رکھا۔