خبرنامہ

یوم تکبیر پر نریندر مودی کو مہمان خصوصی بنائیں

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

یوم تکبیر پر نریندر مودی کو مہمان خصوصی بنائیں

نریندر مودی نے اپنے جشن تخت نشینی میں شرکت کا موقع بہم پہنچاکر نواز شریف کی عزت افزائی فرمائی۔ اب نواز شریف کی باری ہے کہ وہ نریندر مودی کی عزت افزائی فرمائیں اور انہیں 28 مئی کے یوم تکبیر کے جشن کی قومی تقریب میں مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کریں۔ انہیں بھارت کے اس احسان کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ اس نے پہلے دھماکے کیئے اور نواز شریف کو جوابی دھما کے کرنے کا موقع دیا۔ اور یوں نواز شریف کو ایٹمی وزیراعظم کا خطاب ملا۔ بھارتی شیو سنہا کے نوجوان سربراہ اودھے ٹھاکرے نے یہ دھمکی دی ہے کہ نریندر مودی کو کسی بھی وقت پاکستان کو سزا دینے کے لیئے ایٹمی بٹن دبانا پڑ سکتا ہے۔ ٹھاکرے کا کہنا ہے کہ بھارت کو نواز شریف پر اعتماد نہیں ہوسکتا، اس لئے کہ اسی کے دور میں کارگل بھی ہوا تھا۔
ایٹمی اسلحے کا ایک بٹن پاکستان کے پاس بھی ہے، پتا نہیں پاکستانی پنجاب کے چیف منسٹر شہباز شریف نے دو دنوں میں آرمی چیف سے جو بار بار ملاقاتیں کی ہیں، ان میں یہ ایٹمی بٹن فوج سے لے کر اپنے وزیر اعظم بھائی کے حوالے کر دیا ہے یا نہیں۔ پاکستان اور بھارت نے فرسٹ ایٹمی سٹرائیک نہ کرنے کا ایک معاہدہ کر رکھا ہے جس پر بھارتی جنتاپارٹی نے سخت مخالفت کی تھی اور مودی نے الیکشن مہم میں اعلان کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آ کر اس معاہدے کو پھاڑ دیں گے۔ ٹھاکرے صاحب نے جن مذموم عزائم کا اظہار کیا ہے ان سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ مودی کی طرف سے نواز شریف کو یہی ایک پیغام دیا جاسکتا ہے کہ وہ اس معاہدے کو قبول نہیں کرتے، اس طرح فرسٹ اسٹرائیک کا حق انہیں مل جائے گا اور وہ کسی بھی شبھ گھڑی ایٹمی بٹن دبا کر پاکستان کو سزادے دیں گے۔ ویسے کہیں یہ نہ ہو جائے کہ امن کی آشا کی بیل منڈھے چڑھ جائے اور اس خوشی میں ہم اپنا ایٹمی بٹن بھی بڑے بھائی نریندر مودی کے ہاتھ میں دے دیں کہ سپردم بہ توما یہ خویش را، تو دانی حساب کم و بیش را۔ اس فارسی شعر کی آپ کو سمجھ نہیں آئی ہوگی لیکن میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ نریندر مودی نے اپنا جو حلف سنسکرت میں لیا ہے۔ اس کی سمجھ بھی آپ کو نہیں آئی ہوگی۔
حساب کا لفظ تو آپ کی سمجھ میں آ ہی گیا ہوگا۔ ذرا حساب لگایئے کہ جب بھٹو نے ایٹمی پروگرام کی داغ بیل یہ کہہ کر رکھی کہ گھاس کھائیں گے، ایٹم بم بنائیں گے اور جب 1976 میں ایٹمی تجربہ کرنے کے لیئے بلوچستان کے طول و عرض میں سرنگیں کھودنے کا سلسلہ شروع ہوا تو ایٹمی وزیراعظم ان دنوں اتفاق فونڈری میں کیا بھاؤ تاؤ کرنے میں مصروف ہوں گے۔ تھوڑا آگے چلتے ہیں، 1984 میں جب امریکی سفیر او کلے نے انکشاف کیا تھا کہ پاکستان سرخ بتی عبور کر چکا ہے تو اس وقت ایٹمی وزیراعظم کی مصروفیات کیا تھیں۔ کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگو اتیلی۔ ایٹمی پروگرام سے نواز شریف کا کیا لینا دینا انہیں تو تیارشدہ ایٹم بموں کا ذخیرہ ملا، بھارت نے دھماکے کر دیئے تو نواز شریف کو جوابی دھماکے کرنے کی ہمت نہیں ہورہی تھی۔ یہ ساری باتیں بعد کی ہیں کلنٹن کے فون نہیں سنے، ساری دنیا کے خزانوں کو ٹھکرایا اور ایٹمی دھماکے کر ڈالے۔ بھارت نے گیارہ مئی کو دھماکے کیئے، ہمارا وزیراعظم شش و پنج میں پڑ گیا۔ وزیراعظم کے بزدل حواری لکھ رہے تھے کہ بھارت کی کشتی میں سواری نہیں کریں گے تب ایک مرد حق اٹھا، اس نے للکارا، نواز شریف تم دھما کہ نہیں کرو گے تو قوم تمہارا دھماکہ کر دے گی، میں تمہارادھماکہ کر دوں گا، تب میں نے اور عبدالقادر حسن نے لکھا کہ اگردھما کہ نہ کرنے کے عوض مال کمانا چاہتے ہوتو ماؤں بہنوں کو کوٹھوں پر بٹھا دو اور خود کندھوں پر، پر نارکھ لوتو زیادہ مال اکٹھا ہو جائے گا۔
دھماکے تو ہو گئے مگر یوم تکبیر کی لگام ان حواریوں کے ہاتھ میں دے دی گئی تھی جنہوں نے ایٹمی دھماکوں کی مخالفت کی تھی، وہ آج بھی ایٹمی دھماکوں کے مخالف ہیں، ان بھارتی شردھالوں کو یوم تکبیر کمیٹی کا چیئر مین بنانے سے کہیں زیادہ بہتر تھا کہ واجپائی کے ہاتھ میں ہماری خوشیاں گروی رکھ دی جاتیں، چلیئے آج اس غلطی کامداوا کر دیں اور ایٹمی بٹن کا کنٹرول نریندر مودی کے پوتر ہاتھوں میں دے دیں۔ لیکن جن ہاتھوں نے پاکستان کا ایٹمی پروگرام پروان چڑھایا ہے، وہ اسے بھارت یا ان کے شردھالوں کے ہاتھ میں کیوں جانے دیں گے۔ اور یہ کون تھے جنہوں نے پاکستان کا ایٹمی پروگرام پروان چڑھایا، یہ ہماری قابل فخر آئی ایس آئی کے ہاتھ تھے جنہوں نے دنیا کی شاطر انٹیلی جنس ایجنسیوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ پروگرام پروان چڑھایا۔ بھارتی را، اسرائیلی موساد، روسی کے جی بی، برطانوی ایم آئی فائیواورسکس، امریکی سی آئی اے کا جگتو فرنٹ بھی آئی ایس آئی کی گردکو نہ پا سکا۔ اور پاکستان کو ایٹمی ڈیٹرنٹ کا تحفہ مل گیا۔ بھارت نے ایٹمی ڈیٹرنٹ کی طاقت ایک بار نہیں، تین بار آزما کر دیکھ لی اور دنیا نے بھی دیکھ لیا اور جو بھی اس پروگرام کا مخالف ہے وہ بھی جان لے کہ براس ٹیک مشقوں کی آڑ میں انیس سو ستاسی میں بھارت نے پاکستان پر چڑھائی کی کوشش کی تو ضیاء الحق ایک کر کٹ میچ دیکھنے بھارت گئے جہاں راجیوکے کان میں انہوں نے بتایا کہ اگر مزید ایک انچ آگے بڑھے تو ایٹمی بٹن دبا دوں گا۔ اسلامی ملک اور بھی ہیں لیکن دنیا میں واحد ہندو ر یاست صف ہستی سے مٹاڈالوں گا، اگلے روز بھارتی فوجوں نے واپس چھاؤنیوں کی راہ لی۔ دو ہزار دو میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کا ڈرامہ رچا کر بھارت نے ایک بار پھر پاکستان کے خلاف لام بندی کر دی، جواب میں پاکستان نے اپنے درمیانی فاصلے کے میزائل عین سرحد پر نصب کر دیے اور ان پرایٹمی ٹوپیاں چڑھادیں۔ ہندو لالے کا ایک بار پھر پیشاب خطا ہو گیا۔ اور اس کی فوج کو پھر واپسی کی راہ لینا پڑی۔ تیسری بار دو ہزار آٹھ میں ممبئی میں ڈرامہ رچایا گیا اور اس کا بدلہ اتارنے کے لیئے پاکستان کو سرجیکل اسٹرائیک کی دھمکی دی گئی، پاکستان نے ترکی بہ ترکی جواب دینے کے لیئے اپنے ایف سولہ فضا میں بلند کر دیئے۔ ان میں ایٹمی اسلحہ نصب تھا، میں سلام پیش کرتا ہوں ان ہوابازوں کو جو جان ہتھیلی پر رکھ کر چوبیس گھنٹے فضاؤں میں رہے اور جب تک بھارت کے ذہن سے سرجیکل اسٹرائیک کا خناس نکل نہیں گیا، یہ ہواباز لاہور سے کہوٹہ تک کی فضاؤں میں چنگھاڑتے رہے۔ ان جانبازوں کی ماؤں کو بھی سلام! ایہہ پتر ہٹاں تے نیں و کدے۔ اور اب اگر بھارتی شیوسنہا کے سربراہ اودھے ٹھاکرے کی دھمکی پر نریندر مودی نے عمل کرنے کی ٹھان رکھی ہو تو وہ اپنے باپ کے ہیں تو یہ شوق ضرور پورا کریں۔ (28 مئی 2014ء)