خبرنامہ

 پنجاب انڈو منٹ فنڈ کے روشن چراغ …اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

 پنجاب انڈو منٹ فنڈ کے روشن چراغ …اسد اللہ غالب

نیکیوں کے مہینے میں نیکیوں کا ذکر ہی نیکی ہے۔باربار کے ذکر میں گناہ نہیں۔ ٹی وی چینل پر تو دن رات واعظ بیٹھے ہیں۔

پنجاب حکومت نے تعلیمی وظائف کے لئے ایک انڈو منٹ فنڈکا اجرا کیا ہے جس کے بارے میں پہلے ایک کالم میں تفصیل بیان کر چکا ہوں مگر مجھے کھد بد لگی ہوئی تھی کہ کہیںیہ کاغذی تنظیم ہی نہ ہو،ا س ملک میں گھوسٹ اسکول بھی ہیں اور گھوسٹ اساتذہ بھی، ان کا فنڈ کوئی نہ کوئی تو مزے سے کھا رہا ہے، کیا پتہ انڈومنٹ کا وظیفہ بھی کسی کو مل پایا ہے یا نہیں،اور ملا تو طالب علم نے اس سے کوئی فائدہ بھی اٹھایا یا کھا پی کر ہضم کر لیا۔
جب دنیا میں انڈو منٹ فنڈ نہیں ہوتا تھا تو بچے کیسے پڑھ پاتے تھے مگر پڑھتے توتھے اور نام بھی پید اکرتے تھے۔
میرے نبیؐ کو پہلی وحی میں جبرائیل نے خدا کاحکم سنایا کہ پڑھ تو جواب ملا کہ میں تو امی ہوں، خدا کی شان اس امی کی امت،کئی دنیائوں کی امام بنی اور اس نے تعلیم، تخلیق، تحقیق، تفتیش کے میدان میں جھنڈے گاڑے۔
مگر پنجاب انڈو منٹ فنڈ کے بارے میں جیسے جیسے میں تحقیق کرتا چلا گیا، ویسے پتہ چلتا گیا کہ اس سے ہونہار مگر نادار طلبہ اور طالبات نے خوب استفادہ کیا، وہ خادم اعلی کو دعائیں دیتے ہیں۔ اور مجھے یقین ہے کہ خادم اعلی ان دعائوں کے طفیل ہر بلا سے محفوظ و مامون رہیں گے۔
مجھے سچی باتیں کرنے کا جنون لاحق ہو گیا ہے، تو سن لیجئے کہ پہلے تومجھے ڈاکٹر امجد ثاقب کی ذات پر رشک آتا تھا اور میری کوشش ہوتی تھی کہ میں بھی ان کے نقش قدم پہ چلوں، خود نہ چل پائوں تو دوسرے لوگوں کو ترغیب دوں کہ وہ ان کے اخلاق حسنہ کی تقلید کریں مگر اب مجھے شک پڑتا ہے کہ میں ڈاکٹر امجد ثاقب سے حسد بھی کرنے لگا ہوں۔خادم اعلی ان کی مٹھی میں ہیں اور پنجاب کے مالی وسائل ڈاکٹر امجد ثاقب کی مٹھی میں دے دیئے گئے ہیں۔مانتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنی امانت دیانت اور شفافیت کا لوہا منوایا مگر پنجاب کی کروڑوں کی آبادی میں خادم اعلیٰ کی نظر میں ڈاکٹر صاحب کے سوا کوئی اور ان خوبیوں کا حامل نہیں، چلئے، خادم اعلیٰ کو کسی پر تو اعتبار ہے، میں ان پر رشک کروں یا حسد کروں، اس سے کیا فرق پڑتا ہے، ایک قلم کار کے طور پر میں ان کے محاسن بیان کرتا رہوں گا، میں اس بیان کو نیکی کا درجہ دیتا ہوں۔
یہ بھی بتا دوں کہ نہ میں کسی انڈو منٹ فنڈ سے پڑھا، نہ میری اولاد اس سے مستفید ہوئی اور آنے والی نسلوں کا کیا پتہ، مگر دعا ہے کہ خدا ہر ایک کو اپنی جناب سے وسائل دے اور کسی کا محتاج نہ کرے۔
پنجاب انڈو منٹ فنڈ واقعی سے ایک انقلابی سوچ ہے، عام تعلیم کے لئے حکومت وظائف دیتی رہتی ہے، معاشرے میں مخیر حضرات کی بھی کمی نہیں جو نادار طالب علموں کی دست گیری میں پس و پیش نہیں کرتے،مگر یہ جو بیرونی تعلیم کے لئے وظیفہ ہے اور بشمول تمام اخراجات تو یہ سوچ سے باہر ہے،ینجاب انڈو منٹ فنڈ جس کے سر پہ ہاتھ رکھ دے، وہ تین چار سال تک ولائت جا کر بہترین یونیورسٹیوں سے پی ایچ ڈی بھی کر سکتا ہے۔یہ ایک انہونی بات ہے مگر ہو رہی ہے اور ابھی میں اس کی عملی مثالیں پیش کروں گا۔
مگر پہلے تو ایک مسیحی نوجوان کی کہانی سنئے۔ان کا نام عرفان شمعون ہے۔وہ کہتے ہیں کہ میرے والد کسی دفتر میں جھاڑو دینے کا کام کرتے تھے۔ اور میں خوفزدہ تھا کہ جب وہ ریٹائر ہو جائیں گے تو میری فیس کہاں سے آئے گی رکشے یا ویگن کا خرچہ کون برداشت کرے گا، مجھے کتابیں اور کاپیاں کیسے ملیں گی اور سردی گر می کی یونیفارم کیسے خرید سکوں گا۔ میں یہ بھی جانتا تھا کہ مجھے اپنے زور بازو سے آگے بڑھنا ہے اور سخت محنت سے اپنی راہیں خود تراشنی ہیں۔میرے چار بہن بھائی اور بھی تھے، ان کی کفالت کا بوجھ بھی مجھ پر پر آن پڑا تھا، ہم لاہور کی ایک پس ماندہ بستی کے رہائشی تھے، اگرچہ تعلیمی سہولتیں کم تھیں لیکن دسویں اور بارھویں کے امتحانات میں میری اچھی پو زیشن آئی، مجھے کسی نے پنجاب انڈومنٹ سے رجوع کرنے کے لئے کہا، میںنے درخواست دی اور کسی سفارش کے بغیر ان کے مقرر کردہ معیار پر پورا ترنے کی صورت میں مجھے اس قدر وظیفہ ملنے لگا کہ میں نے اپنی تعلیم بھی جاری رکھی ا ور اپنے دوسرے بہن بھائیوں کی مدد بھی کی۔میںنے ایک اعلی تعلیمی ادارے سے الیکٹریکل انجینیئرنگ کی ڈگری حاصل کی اور مجھے بڑی آسانی سے ایک بہت بڑے ادارے میںملازمت مل گئی،میرا پختہ ایمان ہے کہ انسان حوصلہ نہ چھوڑے تو اس کے سامنے ترقی کے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ اور پید اکرنے والا اس کا ہاتھ تھام لیتا ہے۔
اور ماں کے خوابوں کو پورا کرنے کا عزم رکھنے والی شمازت بابر کی کہانی سنیئے۔وہ نویں جماعت میں تھی کہ ا س کے والد فوت ہو گئے۔ والدہ کے لئے اسے مزید پڑھانا مشکل ہو رہا تھ مگر اسے اپنی بچی کی صلاحیتوں پر یقین تھا۔ اس نے جیسے تیسے اپنی بیٹی کے اخراجات نبٹائے۔شمازت کا کہنا ہے کہ میں شرو ع ہی سے وظیفہ پا رہی تھی، اس سے مجھے حوصلہ ملا اور میںنے دل میں ٹھان لی کہ محنت سے جی نہیں چرائوں گی مگر ہر فیملی کی ایک بساط ہوتی ہے، مالی پریشانیوںنے میرا دماغی سکون چھین لیا اور آزمائش کے اسی لمحے میں مجھے پنجاب انڈومنٹ کا وظیفہ مل گیا جس سے میں نے اپنی تعلیم مکمل کی اور بر سر روز گار ہو کر اپنے خاندان کی کفالت کے قابل بھی ہوچکی ہوں، میری زندگی کاا نقلاب اسی انڈومنٹ فنڈ کا مرہون منت ہے، ورنہ میری ساری خواہشات میرے دل میں ہی کچلی رہ جاتیں۔
اب ایک ا ور اقلیتی طالبہ کا قصہ سنیئے۔یہ کہانی ہے ماریہ اشرف کی جنہوںنے پنجاب یونیورسٹی سے انڈسٹریل انیجنیئرنگ میں بی ایس سی کی ڈگری حاصل کی اور انہیں مالی معاونت پنجاب انڈو منٹ سے ملی۔ اس کے بغیر اس کے خواب ادھورے رہ جاتے۔ وہ کہتی ہیں کہ میرے والد کسی فیکٹری میں مزدوری کرتے تھے اور میری والدہ گھروں میں کام کاج کر کے مزید پیسے کماتی تاکہ گھر کے اخراجات پورے کئے جا سکیں، ہم چھ بہن بھائی تھے، مالی مشکلات پہاڑ کی طرح ہمارا رستہ روکے کھڑے تھے مگر میںنے سوچا کہ پڑھوں گی نہیں تو غربت کی چکی میں پستی رہوں گی۔ سکول بھی گھر سے دور تھا اور میلوں پیدل چلنا پڑتا تھا مگر میں نے عزم کر رکھا تھا کہ کسی دکھ اور تکلیف کو خاطر میں نہیں لائوں گی۔ میری محنت کا پھل ملاا ور مجھے امتحانی نتائج کی وجہ سے پنجاب انڈومنٹ کا وظیفہ مل گیا جس سے میرے لئے اعلی تعلیم جاری رکھنا آسان تھا، میں ذاتی طور پر خادم اعلیٰ کی مشکور ہوں۔ میرے خاندان کی حالت بدل گئی ہے اور میرے بوڑھے ماں باپ کو مزدوری سے چھٹکارہ مل گیا ہے۔
کہانیاں ان گنت ہیں مگر ایک قصہ ا ور سن لیجئے،۔ پنجاب انڈو نٹ فنڈ صرف پنجاب تک محدود نہیں، اس کے لئے دوسرے صوبوں کے طلبہ کے لئے بھی محدود تعداد میں دروازے کھلے ہیں۔ڈاکٹر میمونہ جاوید کا تعلق کوئٹہ سے ہے، پانچ افراد کے کنبے میں آنکھ کھولنے والی اس بچی نے اپنے محلے کے اسکول میں داخلہ لیا اور پھر آگے ہی آگے بڑھتی گئی، اس نے اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر اچھے نتائج دکھائے مگر ایک موقع پرا سے احساس ہوا کہ وہ اپنے سارے خوابوں کی تعبیر اپنے صوبے میں رہ کر تلاش کر نے میں کامیاب نہیںہو سکتی، وہ اپنے عزیز وں کے پاس لاہور چلی آئی، اسے کنگ ایڈورڈ کالج میں داخلہ مل گیا۔ مگر خدا کی پناہ، تعلیمی اخراجات دیکھ کر ا س کی ا ٓنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جاتا، اسے کسی جاننے والے نے پنجاب انڈو منٹ سے رابطہ کرنے کے لئے کہا، خدا نے اس کی سن لی اور وہ اس فنڈ کے وظیفے سے بہرہ یاب ہو کر میڈیکل کی اعلی تعلم حاصل کر رہی ہے۔
اس شاہنامے کے صفحات پر ڈاکٹر محمد بلال، عدنان علی،غلام مرتضی، اور حبیب اللہ جیسے روشن چراغوں کی کرنیں بکھری ہوئی ہیں۔ ہر کسی کا کہنا ہے کہ ان کی ہر سانس شہبازشریف کو دعائیں دیتی ہے مگر یقین کیجئے کہ ا س پروگرام کو کامیابی ا ور شفافیت کے ساتھ چلانے کا سہرا ڈاکٹر امجد ثاقب کے سر سجتا ہے جو ا س ادارے کے وائس چیئر مین ہیں، پہلے میں ان پر صرف رشک کرتا تھا، اب حسد بھی کرنے لگا ہوں مگر ڈاکٹر امجد ثاقب جیسا کوئی اور کہاں سے لائوں۔ اور ان کی توصیف و تحسین نہ کروں تو اور کس کی کروں۔
میں جو یتیمی میں پلا بڑھا، اچھی طرح جانتا ہوں کہ مشکلات ا ور مصائب کس بلا کا نام ہے اور ان بلائوں سے بچانے والا اگر مسیحا اور فرشتہ نہیں تو اور کیا ہے۔

کالم رئوف کلاسرا. لبرل پاکستان میں‌خوش آمدید