خبرنامہ

13 جولائی ، کشمیر کا یوم سیاہ

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

13 جولائی ، کشمیر کا یوم سیاہ

رہ گئی رسم اذاں، روح بلالی نہ رہی۔ اب تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم کوئی نہ کوئی یوم منانے کی رسم پوری کرنے کے لئے زندہ ہیں۔ گزشتہ برسوں کی طرح امسال بھی آج 13 جولائی کو دنیا بھر میں یوم شہدائے کشمیر منایا جائے گا، یہ وہ دن ہے جب ڈوگرہ مہاراجہ کی سیکورٹی فورسزنے بے رحمی سے فائر کھول دیا اور آزادی کی تڑپ سے سرشار کشمیریوں کو شہید کر دیا گیا۔یہ کشمیر کی تحریک آزادی کا آغاز تھا، تب سے اب تک بے گناہوں کا خون مسلسل بہایاجا رہا ہے۔ کشمیر کی سرزمیں کے افق پر ا سی سرخی کا رنگ غالب ہے۔یہ خون کشمیری نوجوانوں کی آنکھوں میں اتر آتا ہے تو وہ دیوانہ وار سامراجی طاقتوں سے ٹکرا جاتے ہیں۔ڈیڑھ لاکھ سے زائد قبروں کے سرہانے شہیدوں کے نام کندہ ہیں۔ دس ہزار سے زائد کشمیر لاپتہ ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں کشمیری خواتین کو اجتماعی عصمت دری کا نشانہ بنایا گیا ہے۔کشمیر کا نوحہ کون لکھے گا اور شہیدوں کا شاہنامہ کون لکھے گا، اب تو ایسی جسارت کرنے والے کو عالمی سطح پر دہشت گرد سمجھا جاتا ہے۔بر صغیر سے انگریز رخصت ہونے لگا تو آزادی کے فارمولے میں طے کر دیا گیا تھا کہ مسلم آبادی کی اکثریت والے ملحقہ علاقے پاکستان کا حصہ ہوں گے مگر ایک بار پھر کشمیری مہاراجہ نے غداری اور بے اصولی کا ارتکاب کیا اور بھارت سے الحاق کی دستاویز پر دستخط کر دیئے جس پر عمل درامد کے لئے بھارتی فوجیں سری نگر اتر گئیں۔ پاکستان کے آرمی چیف نے قائد اعظم کی حکم عدولی کی تو قبائلی لشکر نے کشمیر میں موجود بھارتی لشکر کو للکارا، قریب تھا کہ وہ سری نگر ایئر پورٹ پر قابض ہو جاتے اور بھارت کی سپلائی لائن کاٹ کر رکھ دیتے کہ بھارت نے چالاکی اور عیاری سے سلامتی کونسل کا دروازہ جا کھٹکھٹایا۔ بھارت کو فائدہ پہنچانے کے لئے جنگ بندی کی قرارداد منظور ہو گئی مگر اس میں طے کیا گیا کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ ایک آزادانہ، غیر جانبدارنہ استصواب کے ذریعے کیا جائے گا۔ وہ دن، آج کا دن، بھارت نے اس قرارداد پر عمل درامد کی نوبت نہیں آنے دی، اس نے جب کبھی ریاستی انتخابات کروائے تو یہ دعوی کر دیا کہ یہی استصواب ہے۔ دنیا نے اس کے ڈھونگ کو تسلیم کیا۔ پاکستان کی حکومتیں عالمی سطح پر اس مسئلے کو اجاگرنے میں ناکام رہیں۔سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری آج بھی مصر ہیں کہ عدلیہ اور وکلا تحریک نہ چلتی تو کشمیر کا مسئلہ طے ہو چکا ہوتا، اس کے لئے ایک معاہدہ طے کر لیا گیا تھا اور محض شین قاف درست کی جارہی تھی کہ پاکستان اندرونی عدم استحکام سے دو چار ہو گیا۔خورشید قصوری کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس معاہدے کا مسودہ تو قوم کے سامنے لائیں تا کہ اندازہ ہو سکے کہ اس کے ذریعے یہ مسئلہ طے ہونا تھا یا تہہ ہونا تھا۔نائن الیون کے سانحے نے مسلم دنیا میں چلنے والی آزادی کی تحریکوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا، کشمیر کی تحریک آزادی ہو، چیچن مسلمانوں کی جدوجہد ہو، فلسطین کا سنگین مسئلہ ہو،مورو مسلمانوں کی طویل جنگ آزادی ہو،یہ سب کچھ دہشت گردی کے زمرے میں چلا گیا۔نائن الیون کے بعد ایک صلیبی جنگ کا بگل بجا جس کا نشانہ بظاہر القاعدہ تھی لیکن اصل میں ساری مسلم دنیا اس کا ٹارگٹ بنی، غیر ملکی ایئر پورٹوں پر ہر ڈاڑھی والے کی شامت آ گئی، محمد اور احمد کے ناموں کی اسکریننگ کی جاتی اور انہیں خصوصی تفتیش کا نشانہ بنایا جاتا، عام مسلمانوں کو ہوائی اڈوں میں سر عام لباس اتارنے کا حکم دیا جاتا اور ذرا شک ہوتا تو جوتے تک اتروالئے جاتے۔امریکی اور اتحادی فوجوں نے افغانستان اور عراق پر قابض ہو کر بے گناہوں کا قتل عام کیا اور پاکستان کو ڈرون حملوں سے لے کر خود کش دھماکوں کا نشانہ بنایا گیا جبکہ نائن الیون میں کسی پاکستانی کا دور و نزدیک تک تعلق نہ تھا۔اس پس منظر میں مسئلہ کشمیر پس منظر میں دھکیل دیا گیا۔کشمیر میں آج بھی خون ناحق بہہ رہا ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں بھارتی فوجیں اس چھوٹی سی ریاست کے کونے کھدرے میں شب روز چھاپے مارتی ہیں اورجس کو چاہے گولیوں سے بھون دیتی ہیں۔یا خفیہ کوٹھڑیوں میں بند کر دیتی ہیں، کشمیری قیادت پر جبر کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔مسجدیں شہید کی جاتی ہیں، مزاروں کو آگ دکھائی جاتی ہے، کھیتیوں پر بلڈوزر چلا دئے جاتے ہیں۔دکانوں کو مسمار کر دیا جاتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ کشمیر میں ایک منظم سازش کے تحت نسل کشی کی جا رہی ہے۔ دنیا تو ہٹلر کے ایک ہولو کاسٹ کو روتی ہے، کشمیر میں آئے روز ہولوکاسٹ کا ہولناک منظر رونما ہوتا ہے۔کشمیریوں کی نوجوان نسل کو چن چن کر شہید کیا جاچکا ہے اور بھارتی استبداد کی کوشش ہے کہ دس بیس برس بعد کشمیر کا نام لیوا کوئی نہ ہو۔کیا ہم پاکستانی اپنے فرض کی ادائیگی میں سنجیدہ ہیں۔کشمیر میں ہمارے مسلمان بھائی بند شہید ہو رہے ہیں۔ ہم نے تو سندھ میں ایک مظلوم لڑکی کی پکار پر راجہ داہر کا قلع قمع کر دیا تھا، اب کشمیری خواتین ہر روزہمیں پکارتی ہیں اور ہمارار طرز عمل یہ ہے کہ ہم انڈیاسے دوستی کی پینگیں بڑھانا چاہتے ہیں۔ ہمارے حکمران سیفما کے اجلاسوں میں جو کچھ کہتے رہے اس کو میرا قلم اپنی نوک پر لانے کا روا دار نہیں ہے۔ اس وقت حالات یہ ہیں کہ بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی ہے اور دنیا بھر میں متنازعہ خطہ کشمیر کے اپنے اٹوٹ انگ ہونے کا ڈھنڈورا پیٹ رہا ہے۔ سلامتی کونسل اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کروانے میں سنجیدہ دکھائی نہیں دیتی۔ غاصب بھارت کو بیرونی دنیا کی شہ حاصل ہے اور وہ کشمیریوں کے خلاف ریاستی دہشت گردی کا ہر حربہ آزما رہا ہے۔ پاکستانی حکام کو چاہیے کہ وہ کشمیریوں کی قربانیوں کا خیال رکھیں۔ کشمیری پاکستان کو اپنا سب سے بڑا وکیل سمجھتے ہیں اور ہر روز کشمیر کے گلی کوچوں میں سبز ہلالی پرچم لہراتے ہوئے سینوں پر گولیاں کھا رہے ہیں۔ اس لیے ہمیں بھی ان کی قربانیوں کی لاج رکھنی چاہیے اور کشمیر میں جاری بھارتی مظالم اور دہشت گردی کے خلاف دنیا کے ہر فورم پر مضبوط آواز بلند کرنی چاہی