خبرنامہ

شہباز شریف کا فائر بریگیڈ۔۔۔اسداللہ غالب

مجھے شدید تعجب ہے کہ پانامہ لیکس کے بحران کو ٹھندا کرنے کے لئے میاں شہباز شریف کو لانچ کیوں نہیں کیا جاتا، ابھی جو لوگ بھی اس میدان میں سرگرم ہیں ، وہ ماحول کو دہکانے کا باعث بن رہے ہیں، جلتی پہ تیل ڈال رہے ہیں، دو روز پہلے چودھری نثار کو آگے لایا گیا ہے، وہ بھی دھیمی طبع کے انسان ہیں ا ور ان کی کوششیں رنگ لا سکتی ہیں مگر شہباز شریف ایک لحاظ سے گھر کے آدمی ہیں، ان کی شخصیت پر کوئی داغ نہیں، نہ ان کی اولاد پر کسی نے انگلیاں اٹھائی ہیں، اس لئے وہ جو بات کریں گے، اس پر ہر کوئی توجہ دے گا ۔
میرے خیال میں میاں نواز شریف کو اب گلی محلوں کے جھگڑوں ا ور بحثوں سے بالاتر ہو جانا چاہئے اور وہ ایک مدبر کی حیثیت سے ملک کے اندر اور باہر اپنا کردارا دا کریں اور اپنی شخصیت کا رنگ جمائیں، یہ جو عام جھمیلے ہیں ، وہ ان پر نہ تو اپنا وقت ضائع کریں اور نہ انہیں لائق توجہ سمجھیں۔وہ تیسری مرتبہ وزیر اعظم بنے ہیں ، پاکستان ا ور مسلم امہ کو ان سے بدرجہا فوائد ملنے چاہئیں۔
میاں شہباز شریف کی صلاحیتوں کو میں کمتر نہیں سمجھتا مگر کسی کو تو گھریلو اور ملکی محاذ کی کمان سنبھالنی ہے اور وہ شہباز میاں سے بہتر کون ہو سکتا ہے، اسحق ڈار بھی ایک لحاظ سے شریف خاندان کا حصہ ہیں مگر ان کی مہارت اقتصادی امور میں ہے، ہر چند پبلک ڈیلنگ انہوں نے کئی بار کی ہے اور کامیابی سے کی ہے مگر لوگ سمجھتے ہیں کہ وزیر خزانہ کے طور پر وہ کامیاب ہوتے رہے ہیں۔
جہاں تک شہباز شریف کا تعلق ہے، وہ نہ صرف منصوبہ بندی میں کمال کی مہارت رکھتے ہیں بلکہ میگا پراجیکٹس کو ایک معین مدت کے اندر مکمل کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ وہ ایک متحرک انسان ہیں۔ انہوں نے لاہور میٹرو، پنڈی میٹرو کی تعمیر سے اپنی صلاحیتوں کالوہا منوایا ہے،ڈینگی کی آفت میں انہوں نے زہریلے مچھر سے زیادہ پھرتی دکھائی ، یہ مچھر تو کسی وقت آرام کر لیتا ہو گا مگر شہباز شریف نے وہی کام جو سری لنکا کو برسوں میں کرناپڑا، صرف چند ماہ میں کر دکھایا۔ شہباز شریف کو جن سے بھی تشبیہہ دی جاتی ہے ۔ الہ دین کاکوئی جن تھا یا یہ محض افسانہ ہے مگر شہباز شریف کے سامنے الہ دین کے جن کا چراغ بھی ماند پڑ گیا ہے ۔ مجھے سرکار دربار تک رسائی کا دعوی نہیں مگر ایک درویش صفت دوست کیپٹن شاہین کے گھر خادم اعلی کو سننے کا موقع ملا تو میں دنگ رہ گیا کہ اورنج ٹرین کے منصوبے کے لئے چین نے کوئی رقم جاری نہیں کی تھی مگر یہاں اس کے ستون کھڑے ہو گئے تھے،کھدائیاں زوروں پر تھیں ا ور چینیوں کو بھی شرم محسوس ہوئی کہ وہ شہباز شریف کی رفتار کا ساتھ کیوں نہ دے سکے۔پھر تو چینی بنکوں نے تجوریوں کے منہ کھول دیئے۔اب یہ منصوبہ لاہور شہر کا اعزاز نہیں ، پورے پاکستان کا وقار بلند کرنے کا باعث ہو گا جب اورنج ٹرین فراٹے بھرتی نظر آئے گی۔
مجھے یہاں شہباز میاں کی خوبیاں بیان کرنا مقصود نہیں، ان کا ذکر تو اس لئے آ گیا ہے کہ ان کارناموں کی وجہ سے شہباز شریف کی شخصیت کا ایک وزن ہے، یہ وزن ان کے ویژن کی وجہ سے ہے۔ وہ نرے خواب نہیں دیکھتے، بلکہ ان میں حقیقت کا رنگ بھر کے دکھاتے ہیں۔
یہی پانامہ لیکس والاا شو اگر شہباز میاں کو ڈیل کرنا ہوتا تو وہ ہرگز چوسنی گروپ کے اشاروں پر چل کر یوں معاملہ خراب نہ کرتے، اب تو نہ ہاتھ باگ پر ہے، نہ پا ہے رکاب میں، والی صورت حال ہے، وزیرا عظم دو ہفتوں میں دو بار قوم سے خطاب کر چکے ، اگر تان یہی پر ٹوٹنی تھی کہ یہ منہ اورمسور کی دال تو پھر تقریروں میں اتنی صفائیاں دینے کا مشورہ کس نے دیا۔اب تو وزیر اعظم ایک تجویز دیتے ہیں، اپوزیشن اسے رد کر کے اپنی تجویزدے دیتی ہے، وزیرا عظم اس کی تجویز کو مسترد کر کے نئی چال چلتے ہیں، اپوزیشن اپنا پتہ نکال لیتی ہے، یہ تو تاش کی بازی ہے یا شطرنج کا کھیل ، بلکہ ایسا کھیل کہ نہ کھیلنا ہے، نہ کھیلنے دیں گے۔ اور اس ے بھی آگے میں نہ مانوں!!
میں جہاں تک سمجھا ہوں، اپوزیشن کی کوشش یہ ہے کہ حکومت کی توجہ ان منصوبوں سے ہٹ جائے جو اس ملک کی قسمت کو بدل کر رکھ دیں گے، یہ منصوبے مکمل ہو گئے تو بلاول کے نواسے تک پیپلز پارٹی کی باری نہیں آ سکے گی ا ور خیبر پی کے والوں کو عمران خان کے نام سے چڑ ہو جائے گی۔ایک بار محترمہ نصرت بھٹو کابیان چھپا تھا کہ اگر نواز شریف نے پانچ سال پورے کر لئے تو آئندہ بیس برسوں تک ا سے شکست دینا ممکن نہیں۔ وہ نسل جو عمران کے ساتھ دھمال ڈال رہی ہے اور خواتین کی بے حرمتی کر رہی ہے، اسے کیا معلوم کہ پچاسی کے بعد ننانوے تک کوئی حکومت ٹک کر کام نہیں کر پائی، یہ تو نواز شریف سخت جان نکلے کہ ایک موٹر وے مکمل کر کے چھوڑی ورنہ اپوزیشن نے ان دنوں بھی ان کے راستے میں دیوار کھڑی کر رکھی تھی، اب ساری منصوبہ بندی شہباز شریف کی ہے اور اپوزیشن سخت خائف ہے کہ کارکردگی میں ان کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا،ا سی لئے آئے روز کوئی نئی شرارت۔ کوئی نئی سازش، کچھ عرصہ دھرنے کا ڈرامہ، اب پانامہ لیکس نے بلی کے بھاگوں چھینکا توڑدیا ہے۔
میں جانتا ہوں کہ میاں نواز شریف کے اندر ایک فائٹر چھپا ہوا ہے اور دو تقریروں کے بعد وہ میدان میں نکل کھڑے ہوئے ہیں۔مگر کیا ہی بہتر ہو کہ وہ اس مسئلے پر توانائیاں کھپانے کے بجائے سیاست کاری کریں اور اس کے لئے شہباز شریف سے زیادہ با صلاحیت ا ور کون ہو سکتاہے۔بڑے بھائی انہیں ٹاسک دیں تاکہ وہ بات چیت سے اس مسئلے کو ختم کریں، پانامہ کی تحقیقات کے لئے صدیاں درکار ہیں۔ اپوزیشن یہی چاہتی ہے کہ حکومت اس اوکھلی میں سر دے ڈالے،مگر اس سے اپوزیشن کو بھی سوائے ذلت کے اور کچھ ہاتھ نہیں آئے گا اور ملک صدیوں پیچھے چلا جائے گا، دھمکی تو امریکہ نے دی تھی کہ پاکستان کو پتھر کے دور میں دھکیل دیں گے مگر اس نیکی کو انجام دینے کا تہیہ ہماری اپوزیشن نے کر رکھا ہے بلکہ کہیں سے ادھار کھا رکھا ہے۔شاید یہ سبق اسے کل بھوشن نے پڑھایا ہے۔ آخروہ را کا را طوطا ہے۔
شہباز شریف کو خود آگے آنا چا ہئے ا ور اپوزیشن کو باور کرانا چاہئے کہ وہ جس راستے پر چل نکلی ہے ، وہ تباہی ا ور بربادی کا راستہ ہے۔انہیں اپنے منصوبوں کی افادیت ثابت کرنے کے لئے زیادہ منطق نہیں بھگارنا پڑے گی، بس وہ اپوزیشن لیڈروں کو ایک میٹرو میں بٹھائیں اور ایک سرے سے دوسرے سرے تک چکر کے دوران اپوزیشن کامنہ خود بخود بند ہو جائے گا، کوئی شہباز شریف کو آزما کے تو دیکھے، وہ بظاہر سخت گیر طبیعت کے مالک ہیں مگر اپوزیشن کا دل جیتنے کے لئے وہ جوئے نغمہ خواں بن جائیں گے۔