خبرنامہ

ایک زرداری. جمہوریت پر بھاری….اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

جب میں یہ کہوں گا کہ جناب زرداری اس وقت جمہوریت کے درپے ہیں تو آپ کا سوال ہو گا کہ کیا نواز شریف کی مخالفت، جمہوریت دشمنی کے مترادف ہے۔ فرد واحد کیسے جمہوریت کی بہتر علامت بن گیا۔ سوال بڑا اہم ہے مگر جناب زرداری اس وقت بہتر سمجھ سکتے ہیںکہ وہ کس کے ہاتھ میں کھیل رہے ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ جس شہید بی بی کے وہ وارث ہیں، انہوںنے میثاق جمہوریت پر دستخط کئے تھے جس میں یہ واضح عہد کیا گیا تھا کہ آئندہ سے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کے خلاف وہ محاذ آرائی نہیں کریں گی جس کی وجہ سے اٹھاسی سے ننانوے تک جمہوریت بار بار پٹڑی سے اترتی رہی۔ دونوں لیڈروں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ ماضی میں وہ ایجنسیوں کے آلہ کار بنتے رہے ہیں اور ان کی انگیخت پر وہ جمہوریت کے عدم استحکام کا باعث بنے۔
ماضی قریب کی تاریخ گواہ ہے کہ زرداری نے حکومت بنائی تو میاںنواز شریف نے پانچ سال تک فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کیا اور اسی کی وجہ سے زرداری حکومت کو آئینی ٹرم پوری کرنے کا موقع ملا۔، ورنہ اس دوران اس قدر بحران آئے کہ جمہوریت کی کشتی بار بار متلاطم پانیوں میں ڈولتی دکھائی دی۔ ریمنڈ ڈیوس کا مسئلہ ہو یا کیری لوگر بل کا تنازعہ، یوں نظر آ رہا تھا کہ فوج کسی بھی وقت زرداری حکومت کی بساط لپیٹ دے گی، اسی طرح ایبٹ آباد کا سانحہ ہوا تو پیپلز پارٹی کو اس کے بعد حکومت میں رہنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا تھا کیونکہ وہ ملک کے اقتدار اعلیٰ کے تحفظ میں سراسر ناکام رہی تھی، یہ سانحہ ملک سے غداری کے مترادف تھا۔ آگے بڑھئے، اور ذرا یاد کیجئے وہ تاریک دن جب میمو گیٹ کی آندھی چلی اور زرداری کو پریشان ہو کر دوبئی کے ہسپتال میں جا کر داخل ہونا پڑا، ان میں سے کسی ایک موقع پر بھی مسلم لیگ نے زرداری حکومت کی پریشانیوں میں اضافہ نہیں کیا، اس کی وجہ ایک ہی تھی کہ میاںنواز شریف میثاق جمہوریت پر دستخط کر چکے تھے جس پر شہید محترمہ کے بھی دستخط ثبت تھے۔ اگرچہ زرداری نے کئی مواقع پرنواز شریف کے ساتھ نئے عہد و پیمان کئے ا ور جب انہیں پورا کرنے کا وقت آیا تو یہ کہہ دیا کہ وعدے قرآن و حدیث کا درجہ نہیں رکھتے۔ اس بے اصولی کے مظاہرے پر بھی مسلم لیگ ن نے زرداری حکومت کی ٹانگیں نہیں بھیجیں، جس کی وجہ سے ملک کی تاریخ میں پہلی بار ایک منتخب سیاسی عوامی حکومت نے پانچ سال کی آئینی ٹرم مکمل کی۔
مگر اب جب مسلم لیگ ن کی باری آئی ہے تو پیپلز پارٹی نے اسے تنگ کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیا۔ اس دوران صرف ایک بار ہی پیپلز پارٹی نے حکومت کے ساتھ نیشنل ایکشن پلان پر دستخط کئے مگر یہ جمہوریت پر نہیں فوج اور جنرل راحیل پر احسان تھا جو دہشت گردوں کے ساتھ بری طرح الجھے ہوئے تھے۔ ہاں، یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ عمران خان کے دھرنے میں پیپلز پارٹی نے جمہوریت بچانے کے لئے کردار ادا کیا اور اس پر ہر کسی نے اس کردار کی ستائش کی مگر جب سے پانامہ کا قصہ سامنے آیا ہے اور اسی طرح کے الزامات نواز شریف کے خلاف لگائے گئے جن الزامات کا سامنا زرداری اور ان کی بیگم صاحبہ کر چکی تھیں اور گیارہ برس کی مقدمے بازی کے بعد بھی کچھ ثابت نہیں ہو سکا۔ ثابت تو نواز شریف کے خلاف بھی کچھ نہیں ہوا، انہیں ایک پائی کی کرپشن کا بھی ذمے دار نہیں ٹھہرایا گیا مگر ان کی نااہلی کا فیصلہ کر دیا گیا جو کہ ہر ایک کو نظر آ رہا تھا کہ یہ ہو کر رہے گا، اب نواز فیملی کے خلاف ریفرنسز کا طومار کھڑا کر دیا گیا ہے، یہ بھی ایک فرد یا ایک خاندان کے خلاف کارروائی نہیں بلکہ اس کی لپیٹ میں اسحق ڈار اور دیگر حکومتی وزراءکو بھی باری باری لیا جا رہا ہے۔ یہ سارے ریفرنسز اگر واقعی کرپشن کی تحقیقات کے لئے ہوتے تو شاید ہی کسی کو نوازشریف سے کسی قسم کی ہمدردی ہوتی مگر بچے بچے کی زبان پر ہے کہ ماحول کو گندا کر کے درا صل جمہوریت کی بساط تہہ کرنے کی سازش ہو رہی ہے، کوئی کہتا ہے کہ ڈیڑھ ماہ بعد جمہوریت کا خاتمہ ہو جائے گا، کوئی تین ماہ یا چھ ماہ کی تاریخ دے رہا ہے، کوئی کہہ رہا ہے کہ قومی حکومت اس کی جگہ لے گی اور کسی کا دعویٰ ہے کہ ٹیکنو کریٹ زمام حکومت سنبھال رہے ہیں، اگرچہ فوجی ترجمان نے ان افواہوں کی تردید کی ہے مگر دل ہے کہ مانتا ہی نہیں اور صاف نظر آ رہا ہے جس شتابی سے مقدمے بھگتائے جا رہے ہیں، اس کا مقصد انصاف کرنا نہیں بلکہ جمہوریت کے خاتمے کا عذر تلاش کرنا ہے۔ اس فضا میں پہلے تو بلاول نے خوب دھول اڑائی اور اب خود جناب زرداری اکھاڑے میںکود پڑے ہیں اور انہوںنے مطالبہ کر دیا ہے کہ نواز شریف کو گرفتار کیا جائے۔ انہوں نے وجہ نہیں بتائی کہ کیوں گرفتار کیا جائے البتہ یہ کہا ہے کہ نواز کا احتساب بھی اسی طرح کیا جائے جیسا ان کا اپنا ہوا تھا۔ تو مطلب صاف ظاہر ہے کہ زرداری صاحب صرف اور صرف انتقامی کارروائی چاہتے ہیں اور اپنا کلیجہ ٹھنڈا کرنا چاہتے ہیں مگر کیا زرداری کے خلاف کارروائی مشرف نے کی تھی یا نواز شریف نے کی تھی۔ اگر نواز شریف کے دور میں کچھ ہوا بھی تو میثاق جمہوریت کے ذریعے نواز شریف نے ماضی کے گناہوں کی معافی مانگ لی تھی، یوں لگتا ہے کہ جناب زرداری انہیں معاف کرنے کے لئے تیار نہیں بلکہ مشرف نے دس سال تک ان کی جو دھلائی کی، وہ بھی نواز شریف کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں۔ زرداری صاحب کو یاد ہو گا کہ ان کے خلاف مشرف نے جو کارروائی کی اور جس کے سامنے انہوں نے استقامت کا مظاہرہ کیا تھا اس پر میرے مرشد مجید نظامی نے انہیں مرد حر کا خطاب دیا تھا مگر اب چونکہ وہ اس مقام پر اتر آئے ہیں اور میثا ق جمہوریت کو پاﺅں تلے روند رہے ہیں تو انہیں تاریخ میںمرد حر کے طور نہیں مرد انتقام کے طور پر یادرکھا جائے گا۔
کسی منتخب حکومت کا دھڑن تختہ کرنے کے لئے پس پردہ قوتیں سیاسی پارٹیوں کو پہلے تو تنہا کرتی ہیں اور انہیںیقین دلاتی ہیں کہ اس حکومت کو گھر جانے دو، پھر حکومت تمہاری ہے، یہ یقین دہانیاں ماضی میں بھی کروائی جاتی تھیں اور انہیں پر محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے قوم سے معافی بھی مانگی کہ وہ ایجنسیوں کے آلہ کار بنتے رہے، آج تو کھیل کا میدان بڑا وسیع ہے اور پاکستان کی سرحدوں پر عالمی افواج کا اکٹھ ہے جو اس سے پہلے افغانستان، عراق، مصر، لیبیا، سوڈان ، یمن وغیرہ کی حکومتیں بدل چکی ہیں، اب ضروری نہیں کہ پاکستان میں حکومت بدلنے کی سازش اندرونی قوتیں کریں، بلکہ زیادہ امکان یہ ہے کہ ان حرکتوں کے پیچھے بھارت، امریکہ اور نیٹو کی افواج ہی ہو سکتی ہیں۔ ان افواج کے ہاتھ ملک ملک کے عوام کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اور وہ پاکستان میں بھی خدا نخواستہ وہی گھناﺅنا کھیل شروع کرنا چاہتی ہوں گی۔، امریکہ کھل کر کہہ رہا ہے کہ وہ سی پیک نہیں بننے دے گا کہ یہ ایک متنازعہ علاقے سے گزرتا ہے، بھارت بھی ا س سی پیک کا مخالف ہے تو صاف نظر آ رہا ہے کہ یہ بیرونی قوتیں پاکستان میں جمہوری نظام کو تہہ و بالا کر کے اپنا الو سیدھا کرنا چاہتی ہیں۔
جناب زرداری کو ان عالمی شاطروں کے مکروہ کھیل سے ہوشیار رہنا چاہئے اور اس نظام کا گلا گھونٹنے میں مدد نہیں کرنی چاہئے جس کے ذریعے ان کی پارٹی کئی بار حکومت میں آ چکی ہے اور آئندہ بھی عوام ہی کے ووٹ سے وہ اقتدار حاصل کر سکتے ہیں مگر یہ تب ہو گا جب جمہوری نظام سلامت ہو گا۔ ورنہ زرداری صاحب استعمال تو ہوں گے مگر ان کے ہاتھ وہ کچھ بھی نہیں آئے گا جو نوری المالکی کو عراق میں مل گیا تھا۔ ظاہر ہے وہ مصر کے جنرل السیسی کا درجہ بھی نہیں رکھتے کہ منتخب صدر مرسی کو پنجرے میں بند کر کے انہیں اقتدار کی باگ ڈور مل جائے گی۔ یہ فیصلہ بھی زرداری صاحب کو خود ہی کرنا ہے کہ کیاوہ حامد کرزئی یا اشرف غنی بننا چاہیں گے۔