خبرنامہ گلگت

بین الصوبائی سرحد کے تعین پر شدید اختلافات کھل کر سامنے آگئے

اسلام آباد(ملت + آئی این پی) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی امور کشمیر و گلگت بلتستان میں خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کے درمیان بین الصوبائی سرحد کے تعین پر شدید اختلافات کھل کر سامنے آگئے ،کمشنر استور نے دعویٰ کیا ہے کہ خیبرپختونخوا انتظامیہ نے بابوسر ٹاپ پر اپنی حدود سے تجاوز کرکے ،جی بی کے علاقے میں ایک بازار اور بلاکس تعمیر کیے ہیں جن کی وجہ سے سرحدی تنازعہ پیدا ہو گیا ہے۔قائمہ کمیٹی نے دونوں خطوں کے درمیان پیدا ہونے والے سرحدی تنازعے کے حل کے لیے سیکرٹری وزارت امور کشمیر کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کر دی ہے جوبین الصوبائی سرحد کا تعین کر کے 7روز کے اندر رپورٹ پیش کرے گی کمیٹی نے بھاشا ڈیم ، گلگت ایئر پورٹ اور گلگت میں صنعتی پارک کے منصوبوں کو بھی اقتصادی راہداری منصوبے میں شامل کرنے کی سفارش کی ہے۔ کمیٹی کا اجلاس کمیٹی گزشتہ روز چیئرمین کمیٹی پروفیسر ساجد میر کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا ۔ اجلاس میں سینیٹرز لیفٹینٹ جنرل (صلاح الدین ترمذی، احمد حسن ، نجمہ حمید ،رحمان ملک کے علاوہ وفاقی وزیر برائے امور کشمیرچوہدری محمد برجیس طاہر ،چیف سیکرٹری گلگت بلتستان، ڈپٹی کمشنر مانسہرہ ، کمشنر اسطور کے علاوہ دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔ اجلاس میں گلگت بلتستان کے سی پیک کے حوالے سے ڈویلپمنٹ کے منصوبہ جات ، گزشتہ اجلاسوں میں دی گئی سفارشات پر عمل درآمد کے علاوہ ، سابق سینیٹر سید مزمل شاہ کی عوامی عرضداشت کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔ سینیٹر سید مزمل شاہ کی عوامی عرضداشت کے معاملے کے جائزے کے دوران ڈپٹی کمشنر مانسہرہ نیکمیٹی کو آگاہ کیا کہ تمام زمین کا ریکارڈ موجو دہے مسئلے کو جلد سے جلد حل کر لیا جائے گا۔ چیف سیکرٹری گلگت بلتستان نے کہا کہ بابو سر ٹاپ پر بارڈ لائن موجود ہے لیکن کمشنر استور نے موقف اختیار کیا کہ اصل مسئلہ ہماری طرف بازار بنانا اور ٹاپ پر بلاک بنانا تھا اور تعمیر گلگت بلتستان کی سائیڈ پر ہے ۔ جس پر قائمہ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ سیکرٹری امور کشمیر ، چیف سیکرٹری گلگت بلتستان اور چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا ہ پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جو ریکارڈ کے مطابق بارڈر کا تعین کر کے پندرہ دن کے اندر وفاقی وزیر امور کشمیر کو رپورٹ فراہم کریں گے۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں ڈپٹی ڈائریکٹر پلاننگ ڈویژن سی پیک نے قائمہ کمیٹی کو سی پیک کے حوالے سے گلگت بلتستان کی ڈویلپمنٹ کے مختلف منصوبہ جات کی تفصیلات سے آگاہ کیا ۔ جن میں قراقرم ہائی وے ، بجلی اور فائبر اپٹک کے منصوبے شامل تھے ۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ خنجراب رائے کوٹ ہائی وے کا منصوبہ مکمل ہو چکا ہے ۔ رائے کوٹ اور تھا کوٹ پر کام جاری ہے ۔ دیامر بھاشا ڈیم کے حوالے سے وفاقی وزیر برائے امور کشمیر چوہدری محمد برجیس طاہر نے کہا کہ 2008 سے 2013 تک دیامر بھاشا ڈیم کیلئے 8 فیصد زمین حاصل کی گئی تھی جبکہ موجودہ حکومت نے اب تک 98 فیصد زمین حاصل کر لی ہے اورتمام ادائیگیاں ہو چکی ہیں لوگ مطمعن ہیں اور وزیراعظم پاکستان کی کوشش ہے کہ تمام صوبے اس اقتصادی راہداری کے منصوبے سے مستفید ہو سکیں اور پسماندہ علاقوں کی پسماندگی دور ہو سکے ۔ جس پر سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ سی پیک کا معاہدہ گلگت بلتستان سے شروع ہوتا ہے وہاں کی عوام کیلئے بھی اس معاہدے کے ثمرات ہونے چاہیں انہوں نے سفارش کی کہ گلگت ایئر پورٹ کی توسیع ، دیامر بھاشا ڈیم اور صنعتی پارک کو اقتصادی راہداری کے منصوبے میں شامل کر کے گلگت بلتستان کے عوام کے لئے خوشحالی لائی جائے ۔ جس پر چیئرمین کمیٹی سینیٹر پروفیسر ساجد میر نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے اس سے ملک کی تقدیر بدل جائے گی اور سی پیک معائدہ جو کہ گلگت بلتستان سے شروع ہوتا ہے وہاں کی عوام کو نہ صرف بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں بلکہ خصوصی فنڈ مختص کر کے عوام کے لئے فلاح وبہبود و خوشحالی کے منصوبے شروع کیے جائیں ۔