خبرنامہ

آرمی چیف کوچو مکھی جنگ کا سامنا

آج ہمارے موجودہ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کو تمام سابق فوجی سربراہوں سے زیادہ چیلنجر کا سامنا ہے۔ ایک زمانے میں کہا جاتا تھا کہ پاکستان کا محل وقوع اسے زبردست دفاعی اہمیت دیتا ہے اور پوری دنیا اس کو اپنے ساتھ ملانا چاہتی تھی۔ بدقسمتی سے اب وہ وقت آگیا ہے کہ پاکستان ایک خطرناک محل وقوع میں گھرا ہوا ہے۔ سوائے اس کے آزمودہ دوست چین کے، باقی تمام ہمسائے اس کے خون کے پیاسے ہیں۔ 77 برسوں میں بھارت نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا، سب سے پہلے اس نے کشمیر پر قبضہ کیا۔ اس کے بعد 1965ءمیں رات کے اندھیرے میں پاکستان کے خلاف ننگی جارحیت کا وار کیا۔ پھر 1971ءمیں مشرقی پاکستان کو الگ کروایا اور یوں پاکستان دولخت ہوگیا۔ اس کے بعد بھی وہ چین سے نہ بیٹھا، اس نے دنیا کے بلند ترین محاذ جنگ سیاچن کو بنایا جہاں اس کی فوج تو سیدھی سڑک کے ذریعے جا سکتی ہے، لیکن ہمیں اوپر چڑھنے کے لیے تقریباً 24 ہزار فٹ کی بلندی کا سامنا ہے، درحقیقت یہ ایک ایسا محاذ جنگ ہے جہاں انسان اگر مناسب لباس میں نہ ہو تو برف کی قاشوں میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کی سیز فائر لائن یا کنٹرول لائن ہمیشہ گرم رہتی ہے اور پاکستان آرمی کو ہمہ وقت اس محاذ پہ چوکس رہنا پڑتا ہے۔
نائن الیون کے بعد دنیا کے کئی ملک دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال ہوگئے۔ امریکا اور اس کے نیٹو کے سارے اتحادی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اپنی فوجیں افغانستان لے آئے۔ انھوں نے پاکستان کو بھی ڈرا دھمکا کر اپنا حلیف بنا لیا۔ پاکستان حلیف تو بن گیا مگر وہ ہمیشہ امریکا کے نشانے پہ رہا اور یہ امریکا اور پاکستان کی ایک عجیب دوستی تھی کہ پاکستان پر سینکڑوں ڈرونز حملے ہوئے، کئی پاکستانی فوجی چوکیوں جن میں سلالہ بھی شامل ہے، ان پر امریکی فوج نے حملے کیے۔ ہمارے کئی علاقوں پر امریکی فوجیوں نے خود یلغار کی۔ پاکستان کا طول و عرض خود کش دھماکوں سے لرزتا رہا اور70 ہزار پاکستانیوں کی جانیں ضائع ہوئیں اور ملکی معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچا مگر ہماری فوج نے ہمت نہ ہاری اور ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ایک مرتبہ دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کردکھایا۔ یہ ایک ایسا کارنامہ تھا جو دنیا کی کسی اور فوج کے حصے میں نہیں آیا۔ اب خیال تو یہ کیا جا رہا تھا اور گمان بھی یہی تھا، سب کو یقین تھا کہ پاکستان خطرات سے نکل آیا ہے۔ لیکن افغانستان میں امریکا کو جس طرح شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا اور جس عجلت میں وہاں سے بھاگا، اس سے دہشت گردوں کے حوصلے بڑھ گئے اور وہی طالبان جو ہمیشہ سے پاکستان کے حلیف تھے اور اس کی مدد سے اقتدار میں آئے تھے۔ وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے وزیر داخلہ جنرل نصیر اللہ بابر خودطالبان کے امیر ملا عمر کو اپنے ساتھ ٹینک پر بیٹھا کر قندھار گئے تھے اور ان کو تخت پہ بٹھایا۔ مگر اب افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد طالبان پر کوئی بھروسا نہیں کیا جاسکتا کیونکہ پاکستان جب ان سے کہتا ہے کہ دہشت گردوں کو روکو تو وہ کہتے ہیں کہ یہ ہمارا مسئلہ نہیں، آپ کا سر درد ہے۔ ہمیں جہاں ایک طرف افغانستان سے در آئے ان دہشت گردوں کا سامنا ہے جو بھارت کے تربیت یافتہ ہیں، امریکا بھی ان کو تربیت دے کر اسلحہ چھوڑ گیا ہے، دیگر ملک بھی ان کے پیچھے ہیں جو پاکستان کو کمزور دیکھنا اور کرنا چاہتے ہیں۔ ایک طرف تویہ بیرونی دہشت گرد ہیں، دوسری طرف ایک دہشت گرد طبقہ پاکستان کے اندر سے ابھر کر سامنے آگیا۔ یہ مہربانی عمران خان، ان کی حکومت اور پارٹی کی تھی۔ انھوں نے فوج کی مدد سے اقتدار حاصل کیا اور جب ان کی حکومت بن گئی تو ان انھوں نے فوج ہی کو نشانے پہ رکھ لیا۔ ان دہشت گردوں کے دو گروہ ایک بیرونی اور دوسرا اندرونی طور پر پاکستانی فوج اور عوام پرحملے کر رہے ہیں، کبھی کوئٹہ میں لاشیں گرتی ہیں، کبھی قبائلی علاقوں میں فوجی افسروں اور جوانوں کی لاشیں قوم دیکھتی ہیں۔ ایک طرف تو یہ دہشت گرد ہیں، دوسری طرف عمران خان نے ریٹائرڈ فوجی افسروں کی مدد سے اپنے یوتھ بریگیڈ کو اس قدر طاقتور بنا دیا ہے کہ انھوں نے پچھلے سال 9 مئی کو ملک بھر میں پاکستانی فوج کی 200 کے قریب تنصیبات پر حملے کیے جن میں جی ایچ کیو، آئی ایس آئی کے دفاتر اور لاہور کے کور کمانڈر کا گھر بھی شامل تھا۔ میانوالی میں ایف 16 کے ہوائی اڈے پرحملہ کیا گیا۔ یہ ایسی جنگ تھی جو 1971ءمیں بنگلہ دیشیوں نے بھی پاکستانی فوج کے خلاف نہیں لڑی تھی۔
پاکستانی عوام کا ایک طبقہ ہے جو گمراہ ہوچکا ہے یا جسے گمراہ کیا جا چکا ہے یا جو بیرونی ہاتھوں میں ڈالروں کے عوض بک چکا ہے۔ وہ پاک فوج کو کمزور کرنے کے لیے ہمہ وقت مصروف ہے۔ ایک محاذ سوشل میڈیا کا ہے جو عمران خان کے پیروکاروں نے سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کے ہوتے ہوئے کھول دیا تھا اور اب اسے مزید تیزر دیا ہے۔ کون سی گالی ہے اور کون سی قابل اعتراض بات ہے جو ان کے منہ یا قلم سے نہیں نکل رہی۔ مصیبت یہ ہے کہ جتنے بھی سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم ہیں، فیس بک، یوٹیوب اورٹویٹر کا وہ بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہیں اور اپنا ایک ہتھیار بنا لیا ہے جہاں وہ ہر کسی کی تضحیک پر تلے ہوئے ہیں۔ آئے روز پی ٹی آئی کے لیڈر، نوجوان اور ورکر پورے ملک کو بند کرنے کی باتیں اور مذموم کوشش کرتے ہیں۔ کبھی اسلام آباد پر یلغار کرتے ہیں جس کی وجہ سے عوام کو تکلیف ہوتی ہے، ٹریفک بند ہو جاتی ہے، انٹرنیٹ بند ہو جاتا ہے، لوگوں کی جائیدادوں کو نقصان پہنچایا جاتا ہے، یہ لوگ احتجاجاً درختوں اور جھاڑیوں کو آگ لگا دیتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر آج بھی عمران خان کی وہ تقریر وائرل ہے کہ میں کسی کو ٹریفک بند کرنے اور پبلک پراپرٹی کو نقصان پہنچانے نہیں دوں گا۔ میں یہ برداشت نہیں کر سکتا، میں ریاست سے ان کو ٹکرانے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ آج وہ خود ریاست کو پاش پاش کرنے پہ تلا بیٹھا ہے۔
پشاور سے ان کے مسلح جتھے غیر ملکی دہشت گردی میں سینکڑوں بے گناہ پاکستانی پختون شہریوں کی شہادتوں کے افسوسناک واقعات کے باوجود تمام سرکاری وسائل، اسلحے اور مشینری کو استعمال کرتے ہوئے اسلام آباد اور لاہور پر حملہ کرتے ہیں جو ایک کھلی بغاوت ہے۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے اسلام آباد میں تقریر کی کہ ایک گولی چلاﺅگے، ہم 10گولیاں چلائیں گے، ہمارا ایک بندہ مارو گے، ہم آپ کے 10 بندے ماریں گے۔ اس سے بڑی بغاوت اور کیا ہوسکتی ہے۔کیا ایسے لوگوں کا پاکستان میں ر ہنا سنگین خطرے سے خالی ہے۔
آرمی چیف کے لیے ایک چیلنج ملک کی بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال ہے جسے بہتر کرنے کے لیے وہ دن رات کوشاں ہیں اور منتخب سول حکومت کی مدد کرنے کے لیے پیش پیش رہتے ہیں۔ انھوں نے چین، سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات سے پاکستان کو پیسے دلوائے۔ سرمایہ کاری کروائی، وزیراعظم شہباز شریف کو مختلف ملکوں کے دورے کروانے کا انتظام کر رہے ہیں اور سرمایہ کاری کے لیے بیرونی وفود کو پاکستان بلایا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا ٹاسک ہے جو کبھی آرمی چیف کے ذمہ ہوتا ہی نہیں تھا لیکن یہاں سول حکومتیں کئی برسوں سے خارجہ پالیسی کو بطریق احسن چلانے میں ناکام رہی ہیں۔ اس لیے آرمی چیف کو مجبوراً اپنا کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔ اللہ کے فضل سے پاکستان میں ایک ہی طاقت ہے جو پاکستان کے تحفظ و بقا کی ذمہ دار و ضامن ہے۔ اور وہ ہے پاکستان کی عظیم فوج۔ اس کے سپہ سالار جنرل سید عاصم منیریہ چومکھی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان بہت بڑی نعمت ہے، یہ نہیں تو ہم نہیں، اس کے اوپر لاکھوں عاصم منیر قربان کیے جاسکتے ہیں۔ صدر، وزیراعظم، وزرائ، ارکان اسمبلی اور فوجی جوان پاکستان پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے۔ اللہ کرے جنرل سید عاصم منیر کے زور بازو سے پاکستان میں امن قائم ہو، معاشی بہتری آئے اور پاکستان دنیا میں وہی مقام حاصل کرے جو ایک ایٹمی ملک کے شایانِ شان ہوتا ہے۔