خبرنامہ

آرٹیکل 62، 63 کا اطلاق ارکان پارلیمنٹ پرہوتا ہے،نااہلی کیس میں زلفی بخاری کا جواب

اسلام آباد:(ملت آن لائن) وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے اوورسیز پاکستانی زلفی بخاری نے نااہلی کیس میں سپریم کورٹ میں جواب جمع کروا دیا، جس میں نااہلی کی درخواست خارج کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔

زلفی بخاری کی جانب سے جمع کروائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ وہ رکن پارلیمنٹ نہیں ہیں جبکہ آرٹیکل 62 اور 63 کا اطلاق صرف ارکان پارلیمنٹ پر ہوتا ہے۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی نے اپنے جواب میں سپریم کورٹ میں نااہلی کے لیے دائر درخواست خارج کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ وہ برطانیہ میں پیدا ہوئے، بعد میں شہریت حاصل نہیں کی۔

زلفی بخاری کا کہنا تھا کہ وہ اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل حل کرنے میں وزیراعظم کی معاونت کررہے ہیں۔

ساتھ ہی انہوں نے سوال اٹھایا کہ جب عالمی اداروں سے معاونت لی جا سکتی ہے تو دہری شہریت والے سے کیوں نہیں؟ جبکہ سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق عدالت نے دیا ہے۔

زلفی بخاری کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعظم کو معاون خصوصی تعینات کرنے کا مکمل حق ہے۔

واضح رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے اپنے قریبی دوست زلفی بخاری کو 18 ستمبر کو اپنا معاون خصوصی برائے سمندر پار پاکستانی مقرر کرتے ہوئے انہیں وزیر مملکت کا درجہ دیا تھا۔

تاہم درخواست گزار عادل چھٹہ نے زلفی بخاری کی بطور معاون خصوصی تقرری کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔

درخواست گزار نے اپنی درخواست میں موقف اختیار کیا تھا کہ دہری شہریت کا حامل شخص رکن قومی اسمبلی منتخب نہیں ہو سکتا جبکہ معاون خصوصی نے بھی وہی ذمہ داریاں ادا کرنی ہیں، جو ایک منتخب رکن اسمبلی کرتا ہے۔

درخواست میں زلفی بخاری کو فوری طور پر کام سے روکتے ہوئے ان کی تقرری کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔

درخواست میں وزیراعظم عمران خان اور کابینہ ڈویژن کو فریق بناتے ہوئے کہا گیا تھا کہ جو کام براہ راست نہیں ہوسکتا وہ بلا واسطہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔

واضح رہے کہ زلفی بخاری وزیراعظم عمران خان کے قریبی ساتھیوں میں شمار کیے جاتے ہیں، پی ٹی آئی کی حکومت سے قبل وہ عمران خان کے ہمراہ عمرے پر روانہ ہو رہے تھے کہ ان کا نام بلیک لسٹ میں ہونے کی وجہ سے امیگریشن حکام نے انہیں بیرون ملک جانے سے روک دیا تھا، تاہم کچھ دیر بعد انہیں جانے کی اجازت دے دی گئی تھی۔

زلفی بخاری کا نام آف شور کمپنیوں کے باعث پاناما لیکس میں بھی آیا ہے جس کی بناء پر نیب میں ان کے خلاف تحقیقات جاری ہیں اور اس سلسلے میں وہ کئی بار نیب میں پیش بھی ہوچکے ہیں۔