خبرنامہ

اسلام آباد ہائیکورٹ کا رانا شمیم اور دیگر کو توہین عدالت کے نوٹس، آج طلب، پارلیمنٹ میں بھی بحث

عوام کو ذہنی،

اسلام آباد ہائیکورٹ کا رانا شمیم اور دیگر کو توہین عدالت کے نوٹس، آج طلب، پارلیمنٹ میں بھی بحث

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سپریم ایپلٹ کورٹ گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کے بیان حلفی کی خبر کی اشاعت کا نوٹس لیتے ہوئے جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف ، دی نیوز انٹرنیشنل اسلام آباد کے ایڈیٹر اور ایڈیٹر انوسٹی گیشن انصار عباسی سمیت سابق چیف جج سپریم ایپلٹ کورٹ رانا محمد شمیم کو نوٹس جاری کرتے ہوئے آج ذاتی حیثیت میں عدالت طلب کر لیا ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آزادی اظہار کا ہمیشہ احترام کیا، بیان حلفی بظاہر زیر سماعت مقدمے پر اثرانداز ہونے کی کوشش اور مجرمانہ توہین عدالت ہے، فریقین پیش ہو کر وضاحت کریں کیوں نہ ان کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے؟ عدالت نے اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کو بھی نوٹس جاری کرنے کی ہدایت کی ہے۔ گزشتہ روز رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی توجہ 15 نومبر کے دی نیوز میں شائع ہونیوالی سابق چیف جج سپریم ایپلٹ کورٹ گلگت بلتستان رانا محمد شمیم کے بیان حلفی کی خبر کی طرف مبذول کروائی جس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس (ر) ثاقب نثار نے ان (رانا محمد شمیم) کی موجودگی میں ہائیکورٹ کے ایک جج کو فون کر کے ہدایات دیں کہ نواز شریف اور مریم نواز کو 2018 کے عام انتخابات سے پہلے کسی صورت ضمانت پر رہا نہیں کرنا۔ یہ خبر دی نیوز کے ایڈیٹر انوسٹی گیشن انصار عباسی کے حوالے سے شائع ہوئی۔ رجسٹرار ہائی کورٹ نے کہا کہ یہ خبر عدالت عالیہ میں زیر التواءاپیلوں سے متعلق ہے جن کی سماعت کل 17 نومبر کو ہو گی۔ ایسا کوئی بیان حلفی عدالتی ریکارڈ کا حصہ نہیں ہے۔ یہ خبر بادی النظر میں نہ صرف زیر التواءمقدمے کی کارروائی پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہے جو توہین عدالت کے زمرے میں آتی ہے بلکہ یہ اقدام عدلیہ پر عوام کا اعتماد مجروح کرنے اور عدالت کو سکینڈلائز کرنے کے مترادف بھی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کے بعد تحریری حکم نامہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ بادی النظر میں یہ خبر عدالت میں زیر سماعت کیس کی کارروائی پر اثر انداز ہونے ، عدالت کو سکینڈلائز کرنے کی کوشش ہے تاکہ عدلیہ کی آزادی اور ججز کی غیر جانبداری پر عوام کے اعتمادکو مجروح کیا جائے۔ یہ مجرمانہ توہین عدالت ہے۔ دی نیوز کے ایڈیٹر انچیف ، ایڈیٹر ، ایڈیٹر انوسٹی گیشن اور رانا محمد شمیم ذاتی حیثیت میں پیش ہو کر وضاحت کریں کہ کیوں نہ ان کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی جائے؟ عدالت نے اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کو بھی معاونت کیلئے طلب کر لیا ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے دوران سماعت ریمارکس دئیے کہ عدالت نے ہمیشہ آزادی اظہار رائے کا احترام کیا ہے مگرعدالت اس معاملے کوبہت سنجیدہ لے گی۔ کوئی اس کورٹ پر انگلی اٹھا کر دکھائے۔عدالتی حکم نامہ میں مزید کہا گیا ہے کہ نظام انصاف کے وقار کو برقرار رکھنا عوامی مفاد میں ہے۔ بادی النظر میں یہ خبر عدلیہ اور ججز کی آزادی ، غیر جانبداری پر عوامی اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف ہے۔ قانون کی حکمرانی کیلئے عدلیہ اور نظام انصاف کے وقار کا تحفظ ناگزیر ہے اور یہ باور کرانا ضروری ہے کہ تمام تنازعات کے فیصلے دباؤ کے بغیر منصفانہ انداز میں کئے جاتے ہیں۔ کیس کی سماعت آج صبح ساڑھے دس بجے ہو گی۔