اسلام آباد:(ملت آن لائن) وفاقی دارالحکومت کی احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ ریفرنس کی سماعت جاری ہے۔ اپنے بیان میں نواز شریف نے قطری شہزادے کے خطوط سے اظہار لاتعلقی کردیا۔
تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ ریفرنس کیس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک کر رہے ہیں۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف عدالت میں پیش ہو کر اپنا بیان قلمبند کروا رہے ہیں۔
بیان قلمبند کرواتے ہوئے سابق وزیر اعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ دستاویزات کے مطابق ریکارڈ پر ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ مختصر نام ہے، ہل میٹل کا پورا نام ہل انڈسٹری فارمیٹل اسٹیبلشمنٹ ہے۔ 10 دسمبر 2000 میں بیوی بچوں اور خاندان کے ساتھ جلا وطن رہا۔
جج نے دریافت کیا کہ جب آپ پاکستان سے گئے تو آپ کی جیب خالی تھی، اکاؤنٹس منجمد تھے۔
نواز شریف نے کہا کہ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا اس سے پہلے 2 جنوری 1972 میں بھی ایسا ہو چکا تھا۔ جب ہمیں جلا وطن کیا گیا تھا تو ہماری اتفاق فاؤنڈری کو نیشنلائزڈ کر دیا گیا تھا۔ ’کسی نے پوچھا تک نہیں ہمارے پاس کھانے کو بھی کچھ ہے یا نہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ 1972 میں تو میں سیاست میں بھی نہیں تھا، اتفاق فاؤنڈری کے بدلے کوئی سہولت بھی نہیں دی گئی۔ 1999 کے مارشل لا کی الگ کہانی ہے، موقع ملا تو بتائیں گے۔
نواز شریف نے اپنے بیان میں کہا کہ مارشل لا کے بعد کاروبار کا تمام ریکارڈ غیر قانونی تحویل میں لیا گیا، ریکارڈ اٹھائے جانے کے خلاف متعلقہ تھانے میں شکایت درج کروائی گئی۔ متعلقہ تھانے کی طرف سے ہماری شکایت پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ جلا وطنی کے دنوں میں نیب نے خاندانی رہائش گاہ کو تحویل میں لیا۔ نیب نے صبیحہ عباس اور شہباز شریف کے نام جائیداد کے کاغذات قبضے میں لیے۔ رمضان شوگر ملز اور چوہدری شوگر ملز کو مذموم مقاصد کے تحت کام کی اجازت دی گئی، چوہدری شوگر ملز سے 110 ملین اور رمضان شوگر ملز 5 ملین روپے نکلوا لیے گئے۔
نواز شریف نے کہا کہ شوگر ملز سے نکلوائی گئی رقم واپس نہیں کی گئی۔ جلا وطنی کے بعد واپسی پر نیب کے اقدامات کے خلاف عدالت سے رجوع کیا، لاہور ہائیکورٹ نے نیب کے اقدامات کو کالعدم قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ کہنا درست نہیں کہ سعودی عرب میں ہمارے پاس وسائل یا پیسہ نہیں تھا، حقیقت یہ ہے کہ میرے والد نے انتظام کیا اور خاندان کے افراد کی ضروریات پوری کی۔
اپنے بیان میں نواز شریف نے قطری شہزادے کے خطوط سے اظہار لاتعلقی کردیا۔ انہوں نے کہا کہ میرا نام کہیں کسی بھی دستاویز میں نہیں۔
گزشتہ روز نواز شریف نے عدالت کی جانب سے دیے گئے 50 میں 45 سوالوں کے جوابات پر مبنی اپنا بیان قلمبند کروایا تھا، بقیہ سوالات کے جوابات آج قلمبند کیے جارہے ہیں۔
عدالت نے کل 101 سوالات پر مبنی ایک اور سوالنامہ نواز شریف کے وکیل کو فراہم کیا تھا۔
نواز شریف نے کل اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے قومی اسمبلی میں خطاب کے سوال پر ایک مرتبہ پھر استثنیٰ طلب کیا تھا۔
نواز شریف نے کہا تھا کہ قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر کسی عدالت کے سامنے نہیں پیش کی جاسکتی، آئین کے آرٹیکل 66 کے تحت قومی اسمبلی میں کی گئی تقریرکو استثنیٰ حاصل ہے، ’میں نے قومی اسمبلی میں جو تقریر کی وہ کچھ دستاویزات کی بنیاد پر کی‘۔
نواز شریف نے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ کبھی نہیں کہا کہ گلف اسٹیل مل، العزیزیہ یا دبئی فیکٹری کا مالک ہوں۔ میرا گلف اسٹیل ملز کے کیے گئے معاہدوں سے کوئی تعلق نہیں رہا۔
انہوں نے کہا کہ العزیزیہ اسٹیل مل میرے والد مرحوم نے قائم کی تھی، میرا کسی حیثیت میں بھی خاندانی کاروبار سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
سابق وزیر اعظم نے یہ بھی کہا تھا کہ انہوں نے عدالت میں ٹیکس ریٹرنز، ویلتھ اسٹیٹمنٹ اور ویلتھ ٹیکس ریٹرن جمع کروائے تھے۔ ’حسین نواز کے جمع ٹیکس سے متعلق جواب دینے کا میں مجاز نہیں‘۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنسز کا ٹرائل مکمل کرنے کے لیے 17 نومبر تک کی مہلت دے رکھی ہے۔