دنیا میں سمندر میں کشتیاں الٹنے کے حادثات کبھی کبھار ہوجاتے تھے لیکن گزشتہ دو، چار سال کے دوران مختلف ممالک میں پاکستانی تارکین وطن کی کشتیوں کو پیش آنیوالے انتہائی افسوسناک حادثات میںسینکڑوں اجتماعی ہلاکتوں نے ہر محب وطن شہری کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے بروقت ایکشن لیتے ہوئے انسانی اسمگلنگ اور معصوم پاکستانیوں کو بیرون ملک جانے کے غیر قانونی طریقوں کا جھانسہ دینے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت کردی ہے۔ وزیر اعظم نے گزشتہ ایک سال میں دنیا بھر میں ایسے تمام واقعات جن میں پاکستانی ملوث تھے، ان سب کی رپورٹ بھی طلب کر لی ہے۔وزیر اعظم نے یونان میں کشتی الٹنے کے حادثے میں پاکستانیوں کی ہلاکت اور انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے حوالے سے اجلاس کی صدارت کی اور کہا کہ 2023 میں یونان کے اسی علاقے میں ایک دردناک واقعہ ہوا جس میں 262 پاکستانی جان سے چلے گئے۔وزیر اعظم نے 2023 ء کے کشتی الٹنے کے حادثے کے بعد ایسے عناصر کے خلاف کارروائی میں سست روی پر اظہار برہمی کیا۔ وزیرِ اعظم نے انسانی اسمگلنگ اور معصوم لوگوں کو غیر قانونی طریقوں سے بیرون ملک پہنچانے کا جھانسہ دینے والوں کے خلاف کارروائی کے حوالے سے سست روی میں ملوث افسران کے خلاف کارروائی کرنے کی ہدایت کی۔
وزیراعظم نے کہا کہ انسانی اسمگلنگ پاکستان کے لیے دنیا بھر میں بدنامی کا باعث بنتی ہے اور اس کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے ۔اجلاس میں انسانی اسمگلنگ اور اس کی روک تھام کے حوالے سے لیے گئے اقدامات پرایک بریفنگ میں وزیراعظم کو بتایا گیا کہ اب تک 174 کیسزکو عدالت میں پیش کیا جا چکا ہے ،جن میں سے 4 کو سزا ہوئی۔وزیرِ اعظم نے اس حوالے سے عوامی آگاہی کے لیے چلائی گئی مہم کی تفصیلات بھی طلب کر لی ہیں۔ وزیر اعظم نے ایف آئی اے اور وزارت خارجہ کو پچھلے ایک سال میں ہونے والے ایسے تمام واقعات جن میں پاکستانی شامل تھے، کی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔ اس سلسلے میں بین الاقوامی اداروں کے ساتھ تعاون بڑھایا جائے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کی جا سکے۔
یہ امرانتہائی حوصلہ افزا ہے کہ حکومت پاکستان اپنے فرائض سے غافل نہیں ۔ وزیر اعظم میاں شہبازشریف اوروفاقی وزیرداخلہ سید محسن نقوی کی ہدایت پرایف آئی اے کا انسانی سمگلنگ میں ملوث عناصر کے خلاف ملک گیر کریک ڈائون مسلسل جاری ہے۔ایف آئی اے نے انسانی سمگلنگ میں ملوث عناصر کے خلاف پیش رفت رپورٹ بھی جاری کردی ہے۔ ایف آئی اے نے صرف ایک ماہ کے دوران 185 ہیومن سمگلرز اور ایجنٹس کو گرفتار کیا اورریڈ بک میں شامل 38 انتہائی مطلوب انسانی سمگلروں کوبھی گرفتار کیا گیا،2024ء میں یونان میں پیش آنے والے کشتی کے حادثے میں ملوث 16 ایجنٹس کوبھی گرفتار کیا گیا ہے اور اس میں ملوث 20 ایف آئی اے اہلکاروں کو بھی حراست میں لے کر تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔
ڈی جی ایف آئی اے احمد اسحاق جہانگیرنے سختی سے ہدایت کی ہے کہ کشتیوں کے پے در پے حادثے میں ملوث ایجنٹوں کی گرفتاری کے لئے تمام تر وسائل کو بروئے کار لایا جائے۔ ملک کے تمام ائرپورٹس پر تعینات افسران ایجنٹوں کے گرفتاری کے لئے کڑی نگرانی کریں۔ اورایئرپورٹ انچارجز اس بات کو یقینی بنائیں کہ کوئی بھی ایجنٹ بیرون ملک فرار نہ ہو پائے۔وزیراعظم شہباز شریف نے مراکش کے لیے ایک حکومتی ٹیم بھیجنے کا فیصلہ کیا۔مراکش میں کشتی حادثے میں پاکستانی شہریوں کی ہلاکتوں کی تحقیقات کے لیے ایف آئی اے کی چار رکنی ٹیم رباط میںموجود ہے۔ایف آئی اے کے حکام کا کہنا ہے کہ مراکش جانے والی چار رکنی تفتیشی ٹیم کی سربراہی ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ سلمان چوہدری خود کر رہے ہیں۔حکام کے مطابق ایف آئی اے پنجاب کے ایڈیشنل ڈائریکٹر منیر مسعود مارتھ ٹیم میں شامل ہیں جبکہ دفتر خارجہ اور انٹیلیجنس بیورو کا ایک، ایک فسر بھی تحقیقاتی ٹیم کیساتھ مراکش میں موجود ہے۔وفاقی تفتیشی ایجنسی کے حکام نے بتایا کہ تحقیقاتی ٹیم 3 سے 4 روز مراکش میں قیام کرے گی اور اس دوران کشتی حادثے میں بچ جانے والے پاکستانیوں سے ملاقات میں اُن سے معلومات حاصل کرے گی۔ایف آئی اے حکام کے مطابق ٹیم پاکستانیوں پر تشدد اور قتل کی تحقیقات کرے گی۔
افریقی ملک موریطانیہ سے غیرقانونی طور پر سپین جانے والوں کی کشتی کو حادثہ پیش آیا تھا۔مراکش میں حکام نے بتایا تھا کہ 86 تارکین وطن کی کشتی 2 جنوری کو موریطانیہ سے روانہ ہوئی تھی۔ اور ابتدائی طور پر اس حادثے کے نتیجے میں 44 پاکستانیوں سمیت 50 تارکین کے وطن ہلاک ہونے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔جبکہ رباط میں مقامی حکام کا کہنا تھا کہ کشتی میں کل 66 پاکستانی سوار تھے جبکہ 36 افراد کو بچا لیا گیا تھا۔ادھر ایف آئی اے کے ذرائع نے کہا تھا کہ کشتی کے حادثے میں مرنے 44 پاکستانیوں میں سے 12 نوجوان گجرات کے رہائشی تھے۔ جبکہ پنجاب کے شہروں سیالکوٹ اور منڈی بہاوالدین کے افراد بھی کشتی میں موجود تھے۔
کشتی حادثے میں زندہ بچ چانے والے پاکستانیوں نے تحقیقاتی ٹیم کو بتایا کہ مراکش کشتی حادثہ نہیں بلکہ قتل عام تھا، مراکش میں ڈوبنے والی کشتی کے مسافروں سے کھلے سمندر میں تاوان مانگا گیا تھا، تاوان دینے والے 21 پاکستانیوں کو چھوڑ دیا گیا۔کمیٹی کو ریکارڈ کیے گئے ابتدائی بیانات میں متاثرین کا کہنا تھا کہ کشتی میں سوار بیشتر لوگ سرد موسم اور تشدد کے باعث ہلاک ہوئے، کشتی میں موجود افراد کو کھانے پینے کی قلّت کا بھی سامنا تھا۔ زندہ بچ جانے والے مسافروں نے بتایا کہ اسمگلروں کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر ان پر تشدد کیا جاتا تھا اور بعض مسافروں کو سمندر میں پھینک دیا گیا۔
مراکش کی بندرگاہ دخلہ کے قریب کشتی حادثے میں زندہ بچ جانے والے عزیر بٹ نے بتایا کہ ہمارا سفر 2 جنوری کو شروع ہوا مگر 5جنوری کو رات کی تاریکی میں کشتی کو ایسے ویران مقام پر روک دیا گیا تھا جہاں سے کوئی دوسری کشتی نہیں گزر رہی تھی۔انہوں نے بتایا کہ اسمگلروں نے کشتی پر موجود سردی گرمی سے بچانے والا ترپال، ہمارے کپڑے، کھانے پینے کی اشیا، موبائل سب کچھ چھین لیا تھا اور کشتی کو اسی مقام پر بند کر کے خود دوسری کشتی میں بیٹھ کر چلے گئے ۔ عزیر بٹ نے کہاکہ اسمگلروں نے کشتی کو لاک کیا ہوا تھا جس کی وجہ سے وہ پانی کی سطح پر خود بھی بہت زیادہ نہیں چل سکتی تھی۔گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک اور پاکستانی شہری مہتاب شاہ کے مطابق اگلی صبح کچھ لوگ ایک اور کشتی میں سوار ہو کر آئے اور انہوں نے منڈی بہاالدین کے 4 لڑکوں کو اپنے پاس بلانے کے بعد ان کے سر اور چہرے پر ہتھوڑے سے ضربیں لگائی جس کے بعد انہیں سمندر میں پھینک دیا۔انہوں نے کہا کہ ان 4 لڑکوں کو سمندر میں پھینکنے کے بعد باقی سب لوگوں کو لاتوں، مکوں اور ڈنڈوں سے مارا گیا، ہم لوگ سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ وہ ہمیں کیوں تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔مہتاب شاہ کا مزید کہنا تھا کہ وہ ایک ایسا علاقہ تھا جہاں پر سمندر میں کوئی بھی کشتی نہیں گزر رہی تھی، 10 دنوں تک اسمگلر روزانہ ایک دوسری کشتی پر وہاں پہنچتے تھے اور کچھ لوگوں پر تشدد کرکے انھیں سمندر میں پھینک دیتے تھے۔
یہ دلدوزکہانیاں سننے کے بعد انسان کا دل دہل کررہ جاتاہے،کہ کس طرح انسان اپنے بیوی بچوں اور والدین کی خاطر نامعلوم اور سفاک درندوں کے سہارے سمندرپار کے انجانے سفر پر مجبور ہوجاتاہے ۔خدا کسی کو ایسی مجبوری نہ دکھائے ، اور اپنے دیس کے معاشی حالات اسقدر بہتر ہوں کہ کوئی اپنے پیاروں سے ہمیشہ کیلئے جدا نہ ہو۔ مجھے قوی امید ہے کہ موجودہ حکومت کے ان اقدامات سے ان ہولناک ،غیرانسانی واقعات پر قابو پانے میں بھرپورمدد ملے گی، جو پاکستانی ریاست اور معاشرے کے چہرے پر کلنک کا ٹیکہ ہیں ، بدنامی کا بدنما داغ ہیں ۔