اسلام آباد: سیاسی جماعتوں کے مذہبی اتحاد متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) نے حکومت کو توہین مذہب کے قانون میں کسی بھی ترمیم کی صورت میں خبردار کر دیا۔
متحدہ مجلس عمل کی جانب سے یہ انتباہ قومی مشاورتی کانفرنس میں دیا گیا، جس میں اسلام کے موجودہ قوانین اور مدرسہ اصلاحات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
کانفرنس میں ایک قرارداد پیش کی گئی جس میں توہین مذہب کے قانون میں کسی بھی قسم کی ترمیم کو مسترد کیا گیا۔
اس مشاورتی کانفرنس میں ملک بھر کے تمام مکاتب فکر کے مدارس بورڈ کے نمائندگان بھی موجود تھے۔
اس موقع پر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایم ایم اے کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ملک کو سیکولرریاست میں تبدیل کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ نظام داڑھی اور امامے والوں کو دہشت گرد کے طور پر پیش کرتا ہے اور یہ پاکستان کے نظریاتی حیثیت کو ایک سیکولر ملک میں تبدیل کرنے کے حق میں عوامی رائے کو فروغ دینے کا پہلا قدم ہے‘۔
مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ’میں آپ کو ایک مشورہ دیتا ہوں کہ حکومت کی جانب سے منافع بخش اور ترقیاتی پروگرامز کے جھانسے میں نہیں آئیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ 1994 سے متعلقہ حکومتیں مذاکرات اور اصلاحات کے نام پر مدارس کا مذاق بنا رہی ہیں، لہٰذا اس معاملے پر حکومت کے ساتھ مزید کسی بھی طرح کی بات چیت نہیں ہوگی۔
اس دوران مختلف مدارس بورڈز اور وفاق المدارس الشیعہ کے سربراہ حافظ نیاز نقوی نے مولانا فضل الرحمٰن کی بات سے اختلاف کیا اور سوال کیا کہ وہ عام انتخابات میں ایم ایم اے کی خراب کارکردگی کی وجوہات واضح کریں۔
انہوں نے کہا کہ ‘اس بات کی وجہ ہونی چاہیے کہ ایم ایم اے نے انتخابات میں کیوں اچھی کارکردگی نہیں دکھائی، اس کے علاوہ یہ بھی بتانا چاہیے کہ اب متحدہ مجلس عمل مدارس کو پیش آنے والے مسائل پر کیوں بات کر رہی ہے‘۔
اس موقع پر دیوبند مکتبہ فکر کے وفاق المدارس العربیہ کے سربراہ قاری حنیف جالندھری نے بھی ایم ایم اے کی قیادت سے مختلف سوالات کیے۔
انہوں نے جماعت اسلامی کے امیر سے سوال کیا کہ جب خیبر پختونخوا میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کی اتحادی حکومت تھی تو صوبے میں تعلیم اور مدارس اصلاحات سے متعلق کیا اقدامات کیے گئے۔
واضح رہے کہ ایم ایم اے قیادت کی جانب سے کانفرنس کا واضح مقصد کسی بھی حکومت مخالف مہم کی ناکامی کی صورت میں مدارس کی حمایت حاصل کرنا تھا۔
کانفرنس سے خطاب میں مدارس بورڈ کے رہنما نے اسلام آباد کی جامعہ حفصہ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’مدارس دیگر تدریسی اداروں کی طرح ہونے چاہئیں اور ہمیں اس میں سیاسی معاملات کو شامل نہیں کرنا چاہیے‘۔