خبرنامہ

بڑھاپے کی لذت…. انداز جہاں….اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

میں ہسپتال میں داخل نہ ہوتا تو مجھے کبھی پتہ نہ چلتا کہ میں بوڑھا ہوگیا ہوں۔ ڈاکٹروں سے جس بیماری کی وجہ پوچھتا تو ان سب کا ایک ہی جواب ہوتا کہ یہ بڑھاپے کی وجہ سے ہے۔ مجھ پر یہ راز نہ ساٹھ برس کی عمر میں کھلا ، نہ ستر برس کی عمر میں۔ ہسپتال میں داخلے سے پہلے میں روزانہ واش روم میں گرتا ،تو میں اسے اپنی ٹانگوں کے پٹھوں کی کمزوری سمجھتا رہا۔کہتے ہیں کہ بڑھاپے اور بیماری کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔مگر بیماری کا تعلق عمر سے نہیں ، ایک بار خبر چھپی کہ ماں کے پیٹ میں بچے کو ہارٹ اٹیک ہوگیا ہے۔ بچے اور ماں دونوں کی زندگی کو خطرہ لاحق ہوگیا ، مگر ڈاکٹروں نے کامیابی سے بچے کا علاج کرلیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بچہ اوربوڑھا ایک جیسے ہوتے ہیں ، یہ سب ہم لوگوں کے اپنے اپنے خیالات اور قیافے ہیں ، میرے خیال میں ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔ اگر کوئی شخص سید بابر علی سے ملے تو اسے ہرگز احساس نہیں ہوگا کہ وہ اٹھانوے برس کے لگ بھگ کے فرد سے مل رہا ہے۔ و ہ معمول کے مطابق لمز یونیورسٹی کے انتظامی اجلاسوں کی صدارت کرتے اور طلبہ و طالبات کولیکچر دیتے ہیں۔
ملائشیا میں مہاتیر محمد ایک لمبے عرصے سے وزیر اعظم بنتے چلے آرہے ہیں،اب ان کی عمر بانوے برس کی ہے اور ایک بار پھر وہ وزیراعظم بن گئے مگر کسی سیاسی بکھیڑے کی وجہ سے انہیں یہ منصب کسی دوسرے کو سونپنا پڑا۔ سنگاپور کے میںلی کو آن یو برسہا برس تک وزیراعظم رہے۔ تقریباً ترانوے برس کی عمر میں وہ ایک بار پھر اس منصب کے لئے منتخب ہوگئے۔ مگر کچھ عرصہ بعد انہوں نے اپنے سینئر وزیر کو یہ منصب پیش کردیا اور خود ان کی کابینہ میں شامل ہوکر حکومت کے معاملات چلانے لگے۔
جنوبی افریقہ میں نیلسن منڈیلا طویل عرصے تک قید و بند کا شکار رہے ، جب وہ بڑھاپے کی منزل میں تھے تو انہیں اپنے ملک کی حکومت مل گئی۔ میں ایک مرتبہ جاپان کے دورے پر گیا تو میری ملاقات پاک جاپان ایسوسی ایشن کے سربراہ یوایدا کے ساتھ ہوئی۔ ان سے زیادہ معمر شخص میں نے جاپان میں نہیں دیکھا، لیکن کہتے ہیں کہ جاپان میں کوئی شخص بوڑھا نہیں ہوتا۔ جاپانیوں نے طویل عمر پانے کا راز معلوم کرلیا ہے۔ میں ایک دفعہ سکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں تھا کہ ایم پی چودھری سرور نے کہا کہ آئو ، میں آپ کو اپنا وہ گائوں دکھاتا ہوں جہاں میں پاکستان سے آکر اپنے چچا کے پاس ٹھہرا تھا۔ ایک طویل سفر طے کرنے کے بعد ہم ان کے اس گائوں میں پہنچے ، تو راستے میں چائے پینے کے لئے ایک پٹرول پمپ پر رکے ، وہاں سیاحوں سے بھری ایک بس بھی آگئی۔ اس بس میں آسٹریلیا کے مسافر سوار تھے۔ ان میں سے ہر کوئی 80 برس سے زائد عمر کا تھا ، وہ اپنی بیگمات کے ساتھ دنیا کی سیر و سیاحت کا لطف اٹھا رہے تھے۔ میں چودھری سرور صاحب کی والدہ سے ملا ، جن کا چہرہ جھریوں سے بھرا ہوا تھا، مگر بڑھاپے کی عمر کے باوجود ان کا ذہن تروتازہ تھا۔ انہوں نے شکوہ کیا کہ اب تو کیا بچہ ، کیا جوان ، ہر کوئی ’’رپوٹر ‘‘پر نظریں جمائے بیٹھا رہتا ہے۔’’رپوٹر ‘‘سے انکی مراد کمپیوٹر تھا۔ اس قدر شگفتہ گفتگو آج تک میں نے کسی بوڑھے شخص سے نہیں سنی۔
بڑھاپے کی لذت سے سرشار میرے بزرگ دوست پروفیسر سید محفوظ قطب بھی ہیں۔ وہ ٹیکسٹائل کے ماہر ہیں ، مگر فارغ وقت میں اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ کے طغرے بناتے ہیں ،ان کی عمر ماشاء اللہ بانوے برس کی ہوچلی ہے۔ میرے سسر محترم چودھری غلام حسین نے ستانوے برس کی طویل عمر پائی۔ آخری تین ، چار ماہ چھوڑ کر وہ ہمیشہ پانچ نمازیں مسجد میں باجماعت ادا کرتے رہے۔ میں نے بچپن میں اپنے گائوں میں چند بوڑھے افراد دیکھے ، جن میں سے ایک تو سوا سو سال سے اوپر کے تھے اور انہیں ان کے اکلوتے بیٹے نے مویشیوں کے کمرے میں بند کررکھا تھا۔ ایک باباجی تہجد کی نماز کے وقت مسجد آتے اور پھر شا م تک ایک کونے میں کھڑے نوافل پڑھتے رہتے۔ میری نانی بھی بہت بوڑھی تھیں۔ ان کی کمر جھک چکی تھی۔ لیکن اس کے باوجود وہ اس قدر تیز چلتی تھیں کہ میرے لئے ان کا ساتھ دینا ممکن نہ ہوتا تھا۔
میرے نانا جان طاعون کے وبائی مرض کے ہاتھوں اپنی بینائی کھوبیٹھے۔ وہ بتایا کرتے تھے کہ اس بیماری نے لاکھوں لوگوں کی جان لی۔ان کا کہنا تھا کہ ہم سارے گھر والے مل بیٹھ کر رات کا کھانا کھاتے ،تو ہمیں کوئی اندازہ نہیں ہوتا کہ ہم میں سے کون صبح زندہ اٹھے گا۔ بہرحا ل نانا جی چوبیس گھنٹے اپنے کمرے میں چارپائی پر لیٹے رہتے ، مگر نماز کا وقت آتا تو ان کے ذہن میں ایک الارم بج اٹھتا اور وہ لاٹھی ٹیکتے مسجد کی طرف چل پڑتے اور باجماعت نماز ادا کرتے۔ بڑھاپے نے اردو ڈائجسٹ کے ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی کا کچھ نہ بگاڑا ،وہ ہمیشہ متحرک اور سرگرم رہے۔ ہم کالم نگار ان کا تذکرہ کرتے تو انہیں بانوے برس کے نوجوان کا نام دیتے۔
پاکستان میں جی ایم سید اورخان عبدالغفار خان طویل عرصے تک زندہ رہے۔ لکھنے والے ان کا تذکرہ کرتے تو یہ سوال اٹھاتے کہ کیا ملک الموت کے پاس ان کی زندگی کی فائلیں گم ہوچکی ہیں۔ نواب زادہ نصر اللہ خان بڑھاپے کے باوجود بوڑھے نہیں ہوئے۔ انہوں نے اپنی وفات سے چند ماہ قبل پیرس کی سیر سے لطف اٹھایا۔یہ کالم انکل نسیم انور کے تذکرے کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا۔وہ یونیسکو سے ریٹائرڈ ہوکر اسلام آباد میں مقیم تھے۔ انتہائی معمر ہونے کے باوجود عصر کے بعد روزانہ گھر میں محفل برپا کرتے جس میں مرشد مجید نظامی، پی ٹی سی ایل کے میاں جاوید ، الطاف گوہر ، جنرل حمید گل ، اکرم ذکی، جسٹس اعجاز چوہدری، خوشنود علی خان، عمران خان ،قاضی حسین احمد ودیگر مختلف شعبہ ہائے زندگی کے نمایاں افراد شریک ہوتے۔ مجھے بھی کئی مرتبہ اس محفل میں شرکت کا موقع ملا۔
کوالالمپور میں ہی میں ملائشیا کے ایٹمی مرکز گیاتو اس کے سربراہ ڈاکٹر غزالی کا لیکچر سنا ، وہ بہت بوڑھے تھے ، مگر ان کے لہجے سے بلا کی جوانی اور تروتازگی ٹپکتی تھی۔ ایک امریکی دورے میں مجھے لاس اینجلس میں میرے دوست وقارعلی خان نے مدعو کیا،وہ ہفتے میں ایک روز ٹی وی پروگرام پیش کیا کرتے تھے ، اس حوالے سے ان سے دوستانہ روابط استوار ہوئے۔ ایک روز مجھے وہ ہالی وڈ لے گئے،واپسی پر انہوں نے ایک بہت بڑاگھر دکھایا،جہاں صدر ریگن ایک عرصے سے بیہوش پڑے تھے۔ عطاء الحق قاسمی مجھ سے عمر میں کافی بڑے ہیں ، انہوں نے مجھے بتایا کہ انہیں تین دفعہ ہسپتال داخل ہونا پڑا۔ گھٹنوں میں درد کی وجہ سے وہ ویل چیئر پر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کوئی عیادت کیلئے آئے یا نہ آئے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
میں نے اوپر ذکر کیا کہ بیماری کا تعلق عمر سے نہیں ہوتا ، پیشاب کی بیماری بہرحال بڑھاپے میں لاحق ہوتی ہے ، لیکن میرے ایک صحافی دوست کو یہ شکایت پچاس، پچپن کے پیٹے میں لاحق ہوئی تو وہ سرکاری خرچ پر لندن آپریشن کروانے چلے گئے۔ علاج کے بعد وہ واپس آئے تو میں نے پوچھا کہ اس بیماری کا آپریشن تو 10منٹ کی بات ہے ، انہوں نے بتایا کہ ساتھ ہی کوئی پیچیدگی بھی تھی،جس کی وجہ سے انہیں لندن جانا پڑا۔
میرا تو خیال ہے کہ میں تین برس کا تھا ،جب میرے جواں سال والد گرامی چند روزہ علالت کے بعدوفات پاگئے۔میں تواسی روز بڑھاپے کا شکار ہوگیا تھا۔ مگر میرے معالجوں کو 74برس بعد یہ خبر ملی ہے۔
٭…٭…٭