خبرنامہ

توشہ خانہ فوجداری کیس ، عمران کی درخواست پر فیصلہ محفوظ، آج سنانے کا امکان

توشہ خانہ فوجداری کیس ، عمران کی درخواست پر فیصلہ محفوظ، آج سنانے کا امکان

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے توشہ خانہ فوجداری کارروائی کیس سے متعلق چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے کہا کہ میں ایک چیز آپ کے نوٹس میں لانا چاہتا ہوں 31 جولائی کو 342 کا بیان ہوا، کل ہم نے گواہوں کی لسٹ عدالت میں جمع کرائی اور کہا 24 گھنٹے میں گواہ دستیاب نہیں ہو سکے، ٹرانسفر درخواست پر جب تک فیصلہ نہیں ہو جاتا تب تک ٹرائل کورٹ حتمی فیصلہ نہیں دے سکتی، اس میں کیا جلدی ہے ایک دن بھی گواہ لانے کے لیے نہیں دیا گیا، ہم نے حق دفاع ختم کرنے کا کل کا آرڈر بھی آج چیلنج کیا ہے، ٹرائل کورٹ نے کہا آج گیارہ بجے دلائل دیں نہیں تو میں فیصلہ محفوظ کر لوں گا، اس سے جج کا تعصب ظاہر ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی جج سے متعلق ایف آئی اے کی ایک رپورٹ بھی آئی ہے، خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے کہا کہ اس میں کہا گیا ہے کہ جج کے فیس بک اکاﺅنٹ سے وہ پوسٹ نہیں ہوئی، یکطرفہ رپورٹ کو کیسے قبول کیا جا سکتا ہے؟۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میں ابھی صرف ایک بات آپ کے علم میں لایا ہوں، آپ کی ایک درخواست ٹرائل کورٹ جج کے تعصب پر ہے، آپ کہتے ہیں کہ روزانہ کی بنیاد پر سماعت سے جج کا تعصب ظاہر ہوتا ہے۔ خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے کہا کہ ٹرائل کورٹ کو اس کا بھی علم ہے کہ یہاں ہائیکورٹ میں کیسز زیر التوا ہیں، ٹرائل کورٹ نے وہی وقت سماعت کا رکھا ہے جو ہائیکورٹ کا ہے، ہماری آج کی دائر کردہ درخواست بہت اہم ہے، جس طرح کے آرڈرز ٹرائل کورٹ سے آرہے ہیں یہ جانبداری ظاہر کرتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ خواجہ صاحب کل جو ایف آئی اے کی رپورٹ آئی ہے وہ بہت ڈسٹربنگ ہے، خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے کہا کہ میں نے رپورٹ دیکھی ہے لیکن ایک طرف کی رپورٹ نہیں مانیں گے، چیف جسٹس نے کہاکہ یہ ایف آئی اے کی ابتدائی رپورٹ تو ہے، آپ کی ٹرانسفر درخواست جانبداری کی بنیاد پر ہے؟۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ روزانہ کی بنیاد پر جج جو کیس سن رہے ہیں وہ جانبداری ہے؟۔ خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے کہا کہ اس حوالے سے میں عدالت کے سامنے اپنی گزارشات رکھتا ہوں، عدالت ٹرائل کورٹ کو مزید کارروائی آگے بڑھانے سے روکے، ہائیکورٹ میں آج ہماری آٹھ درخواستیں سماعت کے لیے مقرر ہیں، میرے حوالے سے ٹرائل کورٹ نے لکھا کہ انہوں نے سسٹم کو تباہ کر دیا ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارا سسٹم پرفیکٹ نہیں اس میں کچھ خامیاں ہیں، ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ یہ خامیاں ختم ہو سکیں، میری خواہش ہے کہ ہم رولز میں یہ ڈال سکیں کہ ٹرائل روزانہ کی بنیاد پر ہو۔ خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہم ایک مائنڈ سیٹ کی بات کررہے ہیں، کیا کوئی جج ایسے آرڈر پاس کرسکتا ہے؟، جج صاحب کو معلوم ہے کہ ہماری درخواستیں ہائیکورٹ کے روبرو زیر سماعت ہیں، ہماری کیس منتقل کرنے کی درخواست صرف تعصب کی بنیاد پر نہیں تھی، جج صاحب نے وکلا اور میرے متعلق بھی عجیب ریمارکس دیے، چیف جسٹس نے کہاکہ اب اگر یہ سب ججز سے متعلق کہا جائے گا تو وہ جواب میں کچھ تو کہے گا نا، بار عدلیہ کی نرسری ہے، میں بھی وہیں سے یہاں آیا ہوں، ملزم کو مگر فیئر ٹرائل ضرور ملنا چاہیے، خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے کہا کہ سب سے بڑا بوجھ اب اس عدالت کے اوپر ہے، ہائیکورٹ نے ہماری درخواستوں پر فیصلہ کرنا ہے، الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ انہوں نے بیان حلفی کیساتھ کیس ٹرانسفر کرنے کی درخواست دی، کیا جج کو انصاف نہیں چاہئے؟ ایف آئی اے رپورٹ آپ کے سامنے پڑی ہے، خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے کہا کہ سپریم کورٹ ہو ہائیکورٹ یا ٹرائل کورٹ، جج کو بہت کچھ سننا پڑتا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ جج کو دل بڑا کرتے ہوئے ہمیشہ فائل کی طرف دیکھنا چاہیے، فائل میں سب کچھ موجود ہوتا ہے، جج پر فیس بک پوسٹوں کے الزام سے متعلق ایف آئی اے کی رپورٹ آ گئی ہے، کیا رپورٹ کی بنیاد پر توہین عدالت کی کارروائی نہیں ہونی چاہیے تھی؟، کیا چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف فوجداری مقدمہ درج نہیں کیا جانا چاہیے تھا؟، کیا جج کو انصاف نہیں ملنا چاہیے، انہوں نے جج پر الزام لگانے سے پہلے فیس بک پوسٹوں کا فرانزک کیوں نہیں کرایا، قانون کے مطابق جج پر ایسے الزامات کے ساتھ بیان حلفی لگایا جاتا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ خواجہ صاحب بہت سنئیر وکیل ہیں، امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ خواجہ صاحب کی تعریف پر اب ہم جلنا شروع ہوگئے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ میرے بھائی ہیں آپ کو یاد ہوگا بہت پہلے ہم دونوں نے اکٹھے ایک ایف آئی آر کا متن لکھا تھا، میں خواجہ صاحب کے سینئر ہونے کی وجہ سے تعریف کررہا ہوں، وکلا کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے ٹرائل کورٹ کی جانب سے گواہان کی فہرست کو مسترد کیے جانے کے فیصلہ کے خلاف درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ واضع رہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے توشہ خانہ فوجداری کیس قابل سماعت ہونے کے خلاف اپیل، کیس دوسری عدالت منتقلی درخواست، ٹرائل کورٹ میں حق دفاع بحال کرنے کی درخواست، حق دفاع بحالی کی درخواست پر سماعت کے دوران حکم امتناع کی درخواست پر بھی فیصلہ محفوظ کیا ہے اور توقع ہے کہ چیف جسٹس عامر فاروق نے آج چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواستوں پر آج فیصلہ سنائیں گے، عدالت نے فریقین کے دلائل کے بعد آٹھ درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کیا ہے۔ دوسر جانب ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ہمایوں دلاور کی عدالت میں زیر سماعت توشہ خانہ فوجداری کارروائی کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی استثنی درخواست منظور کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی گئی۔ الیکشن کمیشن نے اور کہا کہ ہائیکورٹ میں کیس چل رہا ہے، وکیل امجد پرویز ہائیکورٹ میں ہیں وہ دلائل دیں گے، جج ہمایوں دلاور نے استفسار کیا کہ کیوں آپ کونسل نہیں ہیں، جس پر وکیل سعد حسن نے کہا کہ جی میں کونسل ہوں لیکن یہ ہمارا مشترکہ فیصلہ تھا کہ وکیل امجد پرویز کیس کے دلائل دیں گے، عدالت نے کہاکہ 12 بجے تک وقفہ کر رہے ہیں دلائل دیں نہیں تو میں فیصلہ محفوظ کر لوں گا، سعد حسن ایڈووکیٹ نے کہا کہ اگر 12 بجے تک امجد پرویز آجاتے ہیں تو وہ کریں گے نہیں تو میں دلائل دوں گا، خواجہ حارث ایڈووکیٹ کے جونئیر وکیل نے کہا کہ خواجہ حارث ہائیکورٹ میں مصروف ہیں 12:30 تک آئیں گے، جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ12 تک آئیں دلائل دیں ورنہ فیصلہ محفوظ کر دیں گے، عدالت نے کیس کی سماعت میں 12 بجے تک وقفہ کردیا، جس کے بعد سماعت شروع ہونے پر پی ٹی آئی وکیل آمنہ علی نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے تین بجے تک وقت دیا ہے، سعد حسن ایڈووکیٹ نے کہاکہ 3:30 تک کا وقت اسلام آباد ہائیکورٹ نے دیا ہے کہ انتظار کریں، وکیل امجد پرویز آرہے ہیں وہ عدالت کو بہتر بتا سکتے ہیں، عدالت نے استفسار کیا کہ کوئی ڈائریکشن کوئی سٹے آرڈر ہے؟، جس پر امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ کوئی سٹے آرڈر نہیں صرف تین بجے ان کی درخواست پر سماعت ہے، عدالت نے امجد پرویز کو حتمی دلائل شروع کرنے کی ہدایت کردی، جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے جمع کروائے گئے بیان حلفی کو پڑھا اور کہا کہ فارم میں منقولہ اور غیر منقولہ پراپرٹیز کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس موقع پر چیئرمین پی ٹی آئی کی لیگل ٹیم کے ممبر نیاز اللہ نیازی عدالت پیش ہوگئے اور کہاکہ اس عدالت میں دلائل ہو رہے ہیں تو وہاں نہیں ہوں گے، انہوں نے خواجہ صاحب سے کمٹمنٹ کی تھی، امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہاکہ کوئی کمٹمنٹ نہیں ہوئی، میں نے دلائل شروع کرنے ہیں تو شروع کر رہا ہوں، نیاز اللہ نیازی ایڈووکیٹ نے کہاکہ ساڑھے تین بجے کا وقت ہائیکورٹ نے رکھا ہے خواجہ صاحب بھی آجائیں گے، خواجہ صاحب کی غیر موجودگی میں یہ کیسے دلائل دے سکتے ہیں، ساڑھے تین بجے تک خواجہ صاحب آجائیں گے تب تک کیس ملتوی کر دیں، جج ہمایوں دلاور نے کہاکہ عدالت فیصلہ محفوظ نہیں کر رہی، لیکن دلائل سنے جائیں گے، عدالت نے وکیل امجد پرویز کو دلائل جاری رکھنے کی ہدایت کردی۔ دوسری جانب سپریم کورٹ نے توشہ خانہ کیس کے خلاف درخواست پر تحریری حکمنامہ جاری کر دیا۔ حکمنامے میں کہا گیا کہ ابھی تک کیس کے میرٹس پر دلائل نہیں دیئے گئے۔ ممکن ہے یہ تین رکنی بنچ گرمیوں کی چھٹیوں کے سبب آئندہ سماعت پر دستیاب نہ ہو۔ حکمنامے میں کہا گیا کہ اس کیس کو ایسے سمجھا جائے جیسے کبھی سنا ہی نہ گیا ہو۔ 4 اگست کو کیس ایسے بنچ کے سامنے سماعت کیلئے مقرر کیا جائے جو دستیاب ہو۔