خبرنامہ

جلوس میں کتنے لوگ ا ور کس کے خلاف۔۔اسداللہ غالب

جلوس میں کتنے لوگ ا ور کس کے خلاف۔۔اسداللہ غالب

بسم اللہ….ایک سوال نیا ہے اور دوسرا پرانا، جی ٹی روڈ مارچ کے دوسرے روز نوازشریف نے کچھ تیز رفتاری دکھائی تو کئی تبصرے سامنے آئے ۔ سبھی چینل کہہ رہے تھے کہ ایم این ایز سے بندے اکٹھے نہیں ہوئے ،۔ سوہاہ، گوجر خان،دینہ اور دیگر پو ٹھو ہاری بستیوں میں نوازشریف کو ویلکم کرنے کے لئے کوئی نہ نکلا۔ اس لئے نواز شریف ایک سو بیس کلو میٹر کی رفتار سے گاڑی بھگا کر جہلم جا پہنچے۔وہ اپنے قافلے سے بھی بچھڑ گئے اور کنٹینر بھی کہیں پیچھے رہ گیا۔ایک تھیوری یہ تھی کہ نواز شریف کوکسی نے پیغام دیا ہے کہ یہ تماشہ جلدی ختم کریں۔ کسی نے کہا کہ ایک طاقتور سعودی شہزادہ اچانک پاکستان آیا اور آرمی چیف سے ملا مگر اپنے پیچھے نور خان ایئر بیس پر ایک نئی ایئر بس پرواز کے لئے تیار چھوڑ گیا۔مطلب یہ تھا کہ شریف فملی کو پھر جدہ کی جھنڈی دکھائی جا رہی ہے، جتنے منہ اتنی باتیں۔پہلے بھی یہ کام ایک سعودی شہزادے نے ہی انجام دیا تھا اور اس نے مشرف سے ڈیل کی تھی، اب دوسرا شہزادہ آیا ہے اور نئے آمی چیف سے کوئی معاملہ ہو گیا ہے۔ا مگر یہ آرمی چیف حکومت میں تو نہیں ۔اس تھیوری کو تقویت اس بات سے ملی کہ فی الوقت سعودی عرب کو کوئی ہنگامی خطرہ درپیش نہیں ہے اور اگر کوئی ہے بھی تو ہم اسے اپنا ایک بہترین جرنیل دان کر چکے ہیں۔ مگر یہ کیا کہ سعودی شہزادہ پاکستان �آیا اور صرف یہ بیان دینے اور سننے کے لئے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف بڑی کامیاب جنگ لڑی ہے اور سعودی عرب میں حرمین شریفین کو کوئی خطرہ لاحق ہوا تو پاکستان اس کے ساتھ کھڑا ہو گا۔ موجودہ حالات میں ایسے کسی بیان کی نہ پاکستان کو ضرورت ہے نہ سعودی عرب کو، اس لئے یہ تھیوری ایجاد ہو گئی کہ شہزادے کی آمد نواز شریف کی ڈیل سے ہے، خدا جانے ایسا کچھ ہوا یا نہیں اور اللہ کرے ایساکبھی نہ ہو، نواز شریف پاکستان میں رہیں، اپنے خاندان کے ساتھ اور اپنے ووٹروں کے درمیا ن اور اگلے الیکشن میں کامیابی کے لئے بھر پور مہم چلائیں۔
اب �آتے ہیں دوسرے سوال کی طرف کہ کہ نوازشریف کے لئے لوگ باہر نہیں نکلے اور کہیں جم غفیر اکٹھا نہیں ہوا، ان کے ایم این یزا نے انہیں مایوس کیا، یہ اعتراض وہ عناصر کر رہے تھے جو ایک ہفتہ پہلے سے پیش گوئیاں کرنے میں مصروف تھے کہ نواز شریف تنہا رہ گئے ہیں، حتی کہ چودھری نثار اور میاں شہباز بھی ان کا ساتھ چھوڑ گئے اور نوے ایم این ایز کاایک آزاد گروپ بن چکا ہے جو اپنی مرضی سے اگلا وزیر اعظم چنے گا۔ یہ سرگوشی میرے کان میں ایک پکی نو کری والے کی ۔ ابھی ان پیش گوئیوں کی گونج ہو ا میں باقی تھی کہ نواز شریف نے پارلیمانی پارٹی کا اجلاس طلب کیا، تمام لوگ شریک ہوئے، چودھری نثار بھی اور میاں شہباز بھی اور اتفاق رائے سے طے پایا کہ اگلے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ہوں گے۔ اور یہ سب کچھ ہو گیا۔ پیش گوئیاں کرنے والے اپنا منہ دیکھتے رہ گئے ، اب انہیں یہ اعتراض کرنے کا حق کیسے پہنچتا ہے کہ وہ یہ کہیں کہ نواز شریف کے لئے کوئی نکلا نہیں ، بھئیِ آپ تو کہہ رہے تھے کہ وہ تنہا ہے اور اگر تنہا ہے تو آپ کاا عتراض بے جا ہے۔وہ تنہا ہے یا لوگ اس کے ساتھ کھڑے ہیں توآپ کو کیا تکلیف اور آپ کے پیٹ میں کیوں مروڑ، اصل میں مروڑاس وقت پیداہواجب نواز شریف نے پہلا دن پنجاب ہاؤس سے پنجاب ہاؤس پہنچنے میں لگا دیا،اس لئے لگایا کہ مری روڈ پر عوام کا جل تھل تھا، ایک سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا، جسے نوازشریف کی گاڑی عبور کرنے سے قاصر تھی ا ور انہیں آدھی رات کو پنڈی کے خستہ حال پنجاب ہاؤس میں قیام کرنا پڑا۔اس قدر عظیم الشان جلوس کو دیکھ کر وہ لوگ چکرا گئے جو بے پر کی خبریں اڑا رہے تھے کہ نوازشریف بس اکیلا رہ گیا۔ دوسرے دن جب نواز شریف نے نیا سفر شروع کیا تویہ معترضین سانپ سونگھ جانے کی وجہ سے بے ہوش پڑے تھے، اس لئے انہیں جی ٹی روڈ پر سروں کا سمند نظر نہیں آیا۔ جی ٹی روڈ پر آپ کرائے کے آدمی بھی تلاش کرنا چاہیں تو سوہاوہ، گوجر خان، دینہ کی بستیا ں لاہور کے کسی محلے سے چھوٹی ہیں ، یہاں سے کرائے کے جلوس بھی نہیں نکل سکتے ، پنڈی جو ایک شہر ہے، بلکہ کاسموپولیٹن شہر ہے، ا س میں لوگوں نے اپنا آپ دکھا دیا۔ اور�آٹھ دس کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنے میں اٹھارہ گھنٹے لگ گئے۔
جہلم سے آگے سرائے عالمگیر ہے، محض ایک منڈی جو سڑک کے کنارے واقع ہے۔ آگے کھاریاں ہے، یہ فوجی چھاؤنی ہے، ہمارے ایک دوست یہاں کے کمانڈر ہیں۔پھر لالہ موسی، شعلے اگلنے والے قمر زمان کائرہ لا شہر۔ یہ بھی لاہور کے آدھے محلے کے برابر۔ گجرات اور گوجرانوالہ بڑے شہر ہیں ، پھر لاہور تک سڑک کے کناروں پر آبادیاں ہی آبادیاں ہیں۔اورا ن سے آگے داتا صاحب کا مزار تومرجع خلائق و عام ہے۔ اسحق ڈار سید ہجویری کے مستقل خادم ہیں۔ یہ شہرنواز شریف کی طاقت کا مرکز ہے۔ یہاں بھی معترضین کو بندے نظر نہ آئیں تو پھر وہ بڑ ہانکنے میں آزاد ہیں۔ یا آنکھوں کے ککروں کا علاج کرائیں۔
گجرات چودھریوں کا شہر ہے مگر مت بھولیئے یہ نوابزادگان کا بھی شہر ہے اور کچھ بعید نہیں کہ میرا ایک کلاس فیلو غضنفر علی گل جو پیپلز پارٹی کو خیر باد کہہ چکا ہے، گجرات میں نواز شریف کے لئے سراپا انتظار بنا ہوا ہے، میں نواز شریف کی جگہ ہوتا تو ظہور پیلس کے سامنے گاڑی لے جاتا اور اس سے اتر کر ظہر پیلیس کے دروازے تک گھنٹوں تک دھمال ڈالتا۔ وزیر آباد عطا الحق قاسمی کا شہر ہے، نواز شریف کے بچپن کے دوست یہاں فقیدا لمثال استقبال کر سکتے ہیں۔ وہ اکیلے بھی کھڑے ہوں تو لاکھوں پر بھاری ہیں۔
بڑا سوال یہ ہے کہ جلوس کس کے خلاف ہے، حکومت تو نوازشریف کی ہے، وفاق میں بھی اور پنجاب میں بھی، کشمیر میں بھی اور بلوچستان میں بھی اور دوردراز کے گلگت بلستستان میں بھی ، صرف سندھ پر پیپلز پارٹی کا راج ہے ، کیا نواز شریف سندھ حکومت کے خلاف جلوس نکال رہے ہیں۔ جواب ہے کہ نہیں ۔ معترضین کہتے ہیں کہ نوازشریف عدلیہ ا ور فوج کے خلاف محاذ کھڑا کر رہے ہیں، عدلیہ کی حد تک تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ نواز شریف نے ججوں کے فیصلے پر کئی سوال اٹھائے ہیں۔ ایسے ہی سوال اس سے پہلے عدلیہ کے فیصلوں پر اٹھائے جاتے رہے، عدلیہ کا فیصلہ لاگو ہو جائے تو پھر اس پر کسی منفی تبصرے کو توہین عدالت نہیں کہا جا سکتا، جسٹس منیرکے نظریہ ضرورت کے تتحت غاصب کا اقدام جائز تھا تو اس کا فیصلہ مانا جا چکا، اب اس فیصلے پر تنقید تو تاریخ کرتی رہے گی ، تاریخ کوئی اور لکھتا ہے ا ور فیصلے کوئی اور لکھتا ہے، تاریخ نافذ نہیں ہوتی، فیصلہ نافذ ہوتا ہے، تاریخ کے کوئی اچھے بر ے ا ثرات مرتب نہیں ہوتے، جبکہ فیصلے سے زمین پھٹ جاتی ہے اور�آسمان شق ہو جاتا ہے اور نواز شریف یہ پوچھتا ہے کہ بیس کروڑ عوام نے ووٹ دیا،،اس منڈیٹ کو چند افراد پھاڑ دیں، یہ کیا ہوا، یہ تو ایک سوال ہے جس کا ان کے ووٹروں نے جواب دینا ہے۔
نواز شریف کا جلوس فوج کے خلاف کیسے ہو گیا، فوج نے تو ایسا کچھ نہ کیا ہے ، نہ کہا ہے جس کے خلاف جلوس نکالنے کی نوبت آ جائے، نوازشریف کا کیمپ کہتا ضرورتھا کہ ٹینک نکلے تو عوام کی طاقت سے پیچھے دھکیل دیں گے مگر جب ٹینک نکلے ہی نہیں تو ان سے کہاں جا کے ٹکرائیں، کسی سویلین کو کچھ پتہ نہیں کہ ٹینک کہاں کھڑے ہیں۔یہ تو بھارت کو بھی نہیں پتہ کہ پاکستانی بکتر بند کہاں کھڑا ہے۔ پینسٹھ میں تو دونوں ملکوں کو نہیں پتہ تھا کہ کہ ایکدوسرے کا بکتر بند کہاں کھڑاہے، پاکستان نے اپنے ٹینک کھیم کرن میں جھونک دیئے ، جبکہ بھارت نے اپنے ٹینک چونڈہ میں گھسیڑ دیئے۔ ترکی میں لوگ ٹینکوں کے آگے لیٹے تو اس لئے کہ یہ ٹینک گلی بازاروں میں گھس آئے تھے۔ٹینکوں کی طاقت دشمن کے لئے ہوتی ہے،اپنے عوام کے لئے نہیں، اس کا علم ٹینکوں کو بھی ہے اور عوام کو بھی ہے، ہمارے عوام اپنے ٹینکوں کے ساتھ کھڑے ہیں، ان کے راستے میں نہیں اور یہ ٹینک اس وقت دہشت گردوں کی طرف منہ کئے ہوئے ہیں ، ہمارے بہادر فوجی افسر اور جوان چند روز پہلے بھی شہید ہوئے ، پوری قوم سوگوار ہو گئی، اس لئے بھائی، ! نواز شریف کے بارے میں غلط سلط پروپگنڈہ مت کرو،اسنے توپشاور میں بچوں کے قتل عام کے بعد قوم کو ایک پلٹ فارم پر اکٹھا کیا تھا، حتی کہ عمران کو بھی اور اس نیشنل ایکشن پلان نے پاکستان کوپر امن بنا دیا۔
سو اگر نواز شریف کسی کے خلاف ہے تو وہ اس فیصلے کے خلاف ہے جس نے اسے پی ایم ہاؤس سے باہر پھینک دیا، اور وہ عوام کو عدلیہ کے خلاف اکسا نہیں رہا، صرف پوچھ رہا ہے کہ کیا آپ کے ووٹ کو اسی طریقے سے پاکستان میں پھاڑا جاتا رہے گا، کیا اس ملک کے ڈکٹیٹروں کے خلاف یہ عدلیہ کوئی فیصلہ نہیں کرے گی۔
یہ سوال ہے تو اہم۔ عوام کے منتخب وزرائے اعظم کو گولی ماری گئی، لیاقت علی اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کیا گیا اور باقی ہر وزیرا عظم کو سال دو سال بعد چلتا کیا گیا، مگر ڈکٹیٹروں نے ڈٹ کر گیارہ گیارہ سال اقتدار کے مزے لوٹے،ا ن میں سے کسی کااحتساب نہیں ہوا، کسی کی تلاشی نہ ہوئی۔کسی سے پوچھ گچھ نہ کی گئی۔
یہ تو ایک زخمی شخص کا سوال ہے، اس کے ہونٹوں پر وہی قرآنی سوال ہے کہ بائیی ذنب قتلت! مجھے کس گناہ کی پاداش میں قتل کیا گیا۔
اس سوال کا جواب مانگنا گناہ کیسے ہو گیا۔