خبرنامہ

جنرل غلام مصطفی اور قومی دفاعی کمان

یہ اکتوبر 99ء کی بات ہے، دوپہر ڈھل رہی تھی، مجھے اسلام آباد سے جاوید چودھری صاحب کا فون آیا ،وہ نوجوان تھے مگر انتہائی پاپولر کا لم نگار، ان کا مطالعہ بے حد وسیع ہے اور انھوں نے اپنے دل و دماغ کی آنکھوں سے دنیا کامشاہدہ کیا تھا جس کی وجہ سے ان کے کالم کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی۔ان کے بارے میں کہاجاسکتا ہے کہ وہ آیا اور چھاگیا۔ انھوں نے ایم اے صحافت فرسٹ کلاس فرسٹ اعزازکے ساتھ مکمل کیا تو سیدھے نوائے وقت لاہور چلے آئے۔ وقت کے ساتھ وہ صحافت کے بام ِ عروج پر پہنچ چکے۔وہ ابن انشاء اور منو بھائی کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آتے۔ان کے فون کی گھنٹی بجی تو میں ایک لمحے کے لیے ٹھٹک گیا کیونکہ اسلام آباد سے کوئی فون آئے تو وہ خیریت کا نہیں ہوتاتھا۔چند ماہ قبل محترمہ ملیحہ لودھی نے بھی مجھے تقریباً اسی وقت ہی فون کیا تھا، وہ کہہ رہی تھیں غالب صاحب! آرٹیکل سکس کا سامنا کرنے کے لیے تیاری کرلیں، غداری کا مقدمہ آپ پربن گیا ہے۔ پچھلا پورا سال ہم نے اسی خوف میں گزارا،اب تلوار آپ کے سر پر لٹک رہی ہے۔ میں نے ہنس کر انھیں یہی کہا کہ اگر تلوار نیام سے باہر آہی گئی ہے تو اب میں اس کو نیا م میں واپس کیسے ڈالوں۔ جس کسی نے تلوار چلانی ہے ،اپنا شوق پورا کرلے۔میں اسی اندیشے میں مبتلا تھا کہ جاویدچودھری صاحب بولے کہ آج کل جی ایچ کیو میں ہر کسی نے اخبار بغل میں دبا یا ہوتا ہے ،وہ ایک دوسرے کو کہہ رہے ہوتے ہیں کہ آج کے اخبار میں اسداللہ غالب کا کالم پڑھو۔ انھوں نے کور کمانڈر راولپنڈی، آئی ایس ائی کے سربراہ اور دیگر اعلیٰ جنرلوں کے نام لیے تو میں اس خوف میں مبتلا ہو گیا کہ شاید کسی کی توہین ہو گئی ہو مجھ سے لیکن جاوید چودھری صاحب نے بڑی حوصلہ افزا بات کی کہ بھائی ہر جرنیل توآپ کے کالم کا فریفتہ ہے۔ میں نے کہا اچھا، آپ کے فون کا شکریہ، اب میں ان فوجی جرنیلوں پر کالم لکھنا بند کر دیتا ہوں کیونکہ میرے ذہن میں کچھ تکبراور غرور سا آگیا ہے۔
مجھے فوجی جرنیلوں سے ملاقات کا ہمیشہ شوق رہا ہے۔جنرل بختیار رانا پاکستانی فوج کے سب سے پرانے جرنیل ہیں، میں ان کے لاہور کینٹ میں واقع گھر میں جا کرملاقاتیں کرتا رہا۔ وہیں قریب ہی جنرل کے ایم اظہر کا بھی گھر تھا، انہیں بھی ملا کرتا تھا۔ بعد میں شامی روڈ پر ڈھاکہ میں ہتھیار ڈالنے والے جنرل عبداللہ خان نیازی نے نیا گھر بنایا، میں ان کے ہاں بھی جاتارہا۔ ان دنوں میرے پاس ہونڈا 175 موٹرسائیکل تھی، میں اس پر بٹھا کر جنرل نیازی کو لاہور کی سڑکوں پہ گھمایا کرتا تھا۔ستمبر 65ء کی جنگ میں محافظ لاہور کے نام سے موسوم ہونے والے جنرل سرفراز خان لاہور نہر کے کنارے اپنے گھر میں مقیم تھے، ان سے اکثر ملاقاتیں ہوئی، ان کی بیگم صاحبہ بھی ہمارے ساتھ چائے میں شریک ہوتی تھیں۔ 71 ء کی جنگ کے مغربی محاذ کے ہیرو جنرل عبدالمجید ملک سے میری ملاقات جنگ بندی کے فورا ًبعد میرے ہی گاؤں کے قریب گنڈا سنگھ والا ہائی سکول کے گراؤنڈ میں ہوئی،یہاں وہ اپنے فوجی یونٹوں سے ملاقات کے لیے گئے ہوئے تھے اور ایک وسیع میلہ لگا ہوا تھا۔ جنر ل ضیاء الحق سے بھی ایک آدھ ملاقات ہوئی مگر جنرل پرویز مشرف سے کافی ملاقاتیں رہیں، آخری ملاقات تو 20 منٹ کے لیے طے تھی مگر وہ ایک گھنٹہ 20 منٹ تک محیط ہو گئی، میں بول رہا تھا جنرل پرویز مشرف کا منہ کھلا ہوا تھا، وہ کوئی جواب نہیں دے پا رہے تھے۔ اگر میں کسی آرمی چیف کے بہت قریب رہا ہوں تو وہ جنرل اسلم بیگ ہیں، دوران ملازمت بھی ان سے ملاقاتیں رہیں ، جب وہ ریٹائر ہوئے تو وہ شملہ پہاڑی کے قریب پریس کلب کے سامنے ایک ہوٹل میں ٹھہرتے اور مجھے فون کر کے بلا لیتے اور طویل گفتگو میں مشغول ہو جاتے۔
ایک زمانے میں لاہور کے دسویں ڈویژن کے کمانڈرجنرل محمد جاوید تھے،جو میرے راوین فیلو تھے، میں راوی میگزین کا ایڈیٹر تھا ، میرے ساتھ وہ اسسٹنٹ ایڈیٹر بھی رہے مگر دوران ملازمت ان سے ملاقات نہیں ہوئی، وہ آئی ایس پی ار کے افسروں سے پوچھتے ضرور تھے کہ غالب صاحب کہاں ہیں، ٹھیک ہیں مگر شاید حاضر سروس جرنیلوں کوصحافیوں سے ملاقات کی اجازت نہیںہوتی۔ بہرحال بعد میں وہ واہ آرڈیننس فیکٹری اور کراچی سٹیل ملز کے دو مرتبہ سربراہ بنے۔جنرل ایم ایچ انصاری ،جنرل حمید گل، جنرل نصیر اختر ،جنرل مصطفی کوثر، جنرل خالد مقبول، جنرل غلام جیلانی اور جنرل احتشام ضمیرسے بھی ملاقاتیں رہیں۔ آئی ایس پی آر کے سربراہ میجرجنرل راشد قریشی اور بعد میں لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ سے بھی بہت قربت قائم ہوئی مگرجن سے میرے تعلقات زیادہ دیر سے چلتے آ رہے ہیں اور ان میں کبھی زیر و بم نہیں آیا، وہ جنرل غلام مصطفی ہیں، ان سے تعارف کیولری گراؤنڈ میں جنرل ضیاء الحق کے صاحبزادے اعجازالحق کے پاس ہواجہاں انھوں نے ضیا فاؤنڈیشن کا دفتر بنایا ہوا تھا۔ اسی دفتر میں ایک فلاحی تنظیم کا بھی ہیڈ افس تھا جسے ڈسکہ کے چودھری ذوالفقار صاحب چلا رہے تھے، میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کی تنظیم کا سربراہ کون ہے تو انھوں نے کہا جنرل غلام مصطفی ہیں۔ یہ نام میں نے پہلی مرتبہ ان سے سناتھا ، میں نے مزید پوچھا کہ وہ فوج میں کہاں کہاں تعینات رہے تو انھوں نے بتایا کہ ان کی آخری تقرری منگلا سٹرائیک کور میں بطورکمانڈر تھی۔
اب جنرل غلام مصطفی سے میری ملاقاتیں تقریباً روز ہونے لگیں، میں ان کے دفاعی تجزیے سن کرششدر رہ جاتا اور دانتوں میں انگلیاں دبا دیتا۔ وہ اس قدر گہرائی میں جاتے کہ انتہائی پیچیدہ ایشوز کو آسان ترین لفظوں میں بیان کرتے ،جسے میرے جیسا دفاعی امور سے نابلد صحافی بھی سمجھ جاتاکہ معاملات کی اصل نوعیت کیا ہے اور اس کے پس پردہ کیا ہے۔ میں جنرل غلام مصطفی کے دفاعی تجزیوں سے بے حد متاثر ہوا اور میں نے انھیں دعوت دی کہ وہ ہماری ہفتہ وار پی سی آئی اے کی میٹنگ جو لاہور کے ایک ہوٹل میںہوا کرتی تھی، اس میں تشریف لایا کریں تو وہ ہمارے پاس برسوں تک اس میٹنگ میں تشریف لاتے رہے اور دفاعی امور پر ہمیں بریف کرتے رہے۔ میں نے جنرل غلام مصطفی کے تجزیوں کی بنیاد پر کئی کالم لکھے جو نو ائے وقت میں شائع ہوئے، انھیں خود جنرل صاحب نے بھی بے حد پسند کیا اور قارئین کی بڑی تعداد نے بھی انہیں بے حد سراہا۔ (جاری ہے)