میں نے 2000ء میں امریکا کا ایک سرکاری دورہ کیا جس میں ہم چار ایڈیٹر پاکستان سے تھے اور چار ایڈیٹر ہی انڈیا کے تھے۔ یہ ٹریک ٹوڈپلومیسی کے سلسلے میں ہمارا دورہ تھا ،ہر جگہ جہاں بھی ہم گئے ،اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ ، پینٹاگان ، کسی تھنک ٹینک یا کسی یونیورسٹی میں گئے تو ہر جگہ جس کسی نے پاکستان کے بارے میں بات کی،ان کا لب ولہجہ انتہائی ذلت آمیز تھا۔ اگرچہ وہ نام نہیں لیتے تھے، لیکن ان کا اشارہ پاکستان کی طرف ہوتا۔ان کا کہنا تھا کہ اس وقت دنیا میں جو دہشت گرد ہیں ،ن کے ہاتھ میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار آگئے ہیں جن میں جوہری،کیمیاوی، جراثیمی اور اس طرح کا دوسرا اسلحہ ہے جو انھوں نے یا تو چوری کر لیاہے یا انھیں دے دیا گیا ہے۔
پینٹاگان میں امریکا کی تینوں افواج بری،بحری اور فضائیہ کے لیفٹیننٹ جنرل کی سطح کے انتہائی اعلیٰ فوجی افسروں کے ساتھ میٹنگ میں میں پھٹ پڑا۔میں نے کہا، آپ بار بار پاکستان کو مطعون کر رہے ہیں، اور آپ کا کہنا یہ ہے کہ اسامہ جیسے دہشت گرد کو ہم نے پال رکھا ہے تو بات یہ ہے کہ اسامہ ہمارا نہیں آپ کا آدمی ہے ، اسے آپ نے سوویت روس کے خلاف جہاد لڑنے کے لیے افغانستان بھیجا، اس نے مجاہدین کو ڈالرز دیے، اسلحہ لے کر دیا اور آپ کو اس جنگ میں فتح دلوائی اور روس کو ٹکڑے ٹکڑے کیا، ہمارا تو اس سے کیالینا دینا؟ اگلی بات یہ ہے کہ آپ یہ الزام لگاتے ہیں کہ اس کے ہاتھ میں یا دہشت گردوں کے ہاتھ میں ایٹمی اسلحہ آگیا ہے اور اگرچہ آپ پاکستان کا نام نہیں لے رہے لیکن چونکہ ہم یہاں چار پاکستانی ایڈیٹرز موجود ہیں، اس لیے لازمی طور پر آپ کا اشارہ پاکستانی کی طرف ہی جاتا ہے ، گویا آپ پاکستان کو ایک غیر ذمہ دار ملک سمجھتے ہیں جو اپنے ایٹمی اسلحے کی حفاظت نہیں کر سکتا جبکہ بھارت کے جوہری تجربے بھی ناکام رہے،یہی حال ان کے میزائل تجربوں کا تھااور خود آپ کا جوخلائی پروگرام ہے اس کی ایک شٹل اڑتے ہی آگ کے گولے میں تبدیل ہو گئی اور اس میں سوار درجنوں لوگ کوئلہ بن گئے مگر آپ اپنے آپ کو مطعون کرتے ہیں نہ بھارت کو کرتے ہیں اور اشارتاً پاکستان کو نشانہ بناتے ہیں۔
اب اس بات کو 25 برس ہو چکے ہیں، آج تک کسی جنگ میں دہشت گردوںنے امریکا کے نشانے پر جو ممالک تھے مثلاً افغانستان ، عراق، شام ، لیبیا ،کسی نے امریکا کے جواب میں کیمیائی یا جراثیمی ہتھیار استعمال نہیں کیا بلکہ اگرجوہری اسلحے کو غیر ذمہ دارانہ طور پر استعمال کرنے کا کوئی مجرم ہے تو وہ خود امریکا ہے جس نے دوسری جنگ عظیم میں جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاسا کی میں لاکھوںمعصوموں اور بیگناہوں کو چربی کی طرح پگھلا کر رکھ دیا تھا۔میں خود ہیروشیما جا چکا ہوں اور میں نے اس علاقے کے سکولوں میں چھوٹے معصوم پھولوں جیسے بچے جو مارے گئے ان کی یادگار کا بھی دورہ کیا اور امریکا کا مکروہ چہرہ میرے سامنے نمایاں ہو گیا۔
یہ اتفاق کی بات ہے کہ جب میری ملاقاتیں جنرل غلام مصطفی سے بڑھ گئیں تو میں نے امریکا کے اپنے سارے مشاہدات ان کے ساتھ شیئر کیے، وہ ہنس پڑے اور مسکرا کر کہنے لگے کہ آپ جس شخص سے مخاطب ہیں ، وہ پاکستان کی نیشنل ڈیفنس کمان کا بانی ہے، دو سال تک اس نے اس کے سربراہی کی اور پھر اسے مزید دوسال تک توسیع دی گئی۔ میری نظر میں جنرل غلام مصطفی کی عزت اور توقیر ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے بھی زیادہ بڑھ گئی، ان کی قدر و منزلت، ان کی علمی وجاہت، ان کی تحقیقی صلاحیت اور تجزیوں سے تو میں پہلے ہی بے حد متاثر تھا مگر جب انھوں نے بتایا کہ وہ پاکستان کی قومی دفاعی کمان کے بانی ہیں تو مجھے وہ قوم کے محسن کی صورت نظر آئے۔
جنرل غلام مصطفی سے پوچھا جائے کہ قومی دفاعی کمان کا ڈھانچہ کیا ہے اور اس کے چارٹر میں کیا لکھا ہے، کس کو کیا ذمہ داریاں تفویض کی گئی ہیں، تو وہ لب کشائی نہیں کرتے، اس کی تفصیلات بیان نہیں کرتے، وہ کہتے ہیں یہ ایک قومی راز ہے، ا سے راز ہی رہنا چاہیے۔بہرحال جنرل غلام مصطفی صاحب نے ایک ایسا ادارہ کھڑا کر دیا ہے جو باکمال ہے جس کے اندر تانک جھانک نہیں کی جاسکتی ،جس نے پاکستان کو دنیا میں ایک ذمہ دار ملک کے اعلیٰ درجے پر فائز کر دیا ہے۔ بھارت کے میزائل بھٹک کر کبھی پاک پتن ا ٓگرتے ہیں توکبھی بہاول نگر جا گرتے ہیں یا میانوالی میں ان کا میزائل رستے میں پھٹ کر تباہ ہو جاتا ہے۔ یا ان کا کلبھوشن بلوچستان کی سرحدپار کرتے ہوئے پکڑا جاتا ہے۔یا ان کا ونگ کمانڈر ابھینندن آزاد کشمیر کی فضاؤں میں شکار ہو جاتا ہے لیکن پاکستان کا کوئی میزائل آج تک اندھا نہیں ہوا نہ کسی کو علم ہے کہ ان کو کہاں ذخیرہ کیا گیا ہے۔ ان کو چلانے کا حکم کس نے دینا ہے، ان کے ٹارگٹ کیا ہوں گے؟ یہ سارا کچھ مختصر طور پہ مگر بلاغت سے نیشنل ڈیفنس کمان کے ضابطوں میں طے کردیا گیا ہے اور اس پر عمل ہو رہا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کبھی اوجڑی کیمپ جیسے حادثوں کا شکار نہیں ہوا۔ اس کاجوہری اسلحہ ہو یا میزائلوں کا ڈھیر ہو، دشمن اس کا سراغ لگانے میں بالکل ناکام رہا ہے، یہ سارا کریڈٹ جنرل غلام مصطفی کو جاتا ہے جنھیں قوم اپنا ہیرو سمجھتی ہے۔
جنرل غلام مصطفی دفاعی سٹریٹجی کی تشکیل کے ماہر ہیں اور جدید دور کے جنرل ڈیگال کی طرح ہیںجنھوں نے اپنی قوم سے کہا تھاکہ میں تمھیں لڑنے کا نہیں مرنے کا حکم دیتا ہوں، جنرل مصطفی نے بھی قومی دفاعی کونسل کی اٹھان اسی کال پر کی اور ہم نے دیکھا کہ پاک فوج اور ملک کی عوام نے ستر ہزار جانوں کی قربانی دے کر ، دہشت گردی کو کچل ڈالا۔ ایک مرتبہ جنرل راحیل شریف نے پارلیمنٹ کو ان کیمرہ بریفنگ دی جس کا ایک لفظ بھی میڈیا میں نہ آیا جبکہ ان سے پہلے جتنے بھی فوج کے سربراہوں کی ان کیمرہ بریفنگ ہوتی تھی تو اس کا ایک ایک لفظ اخباروں میں چھپ جاتا تھا۔ میں نے اسے اپنے لیے چیلنج سمجھا اور جنرل غلام مصطفی سے رہنمائی مانگی کہ جنرل راحیل شریف نے کیا کہا ہوگا۔ انھوں نے مجھے انتہائی تفصیل سے ایک دفاعی تجزیہ پیش کیا جسے میں نے راحیل شریف کے پارلیمنٹ سے خطاب کی سرخی کے ساتھ تین کالموں میں شائع کیا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ نہ تو جی ایچ کیو نے اس کی تردید کی نہ اس میں کسی ایک لفظ کی ترمیم کی نہ اس میں کسی ایک لفظ کا اضافہ کیا۔ اس کے بعد جنرل غلام مصطفی الیکٹرانک میڈیا کی توجہ کا مرکز بنے،وہ ہر ٹی وی پر آئے اور انتہائی ذمہ دارانہ انداز میں تجزیے پیش کیے۔انھوں نے اپنے ماہرانہ تجزیوں سے عوام کے ذہنوں کو نئی روشنی بخشی۔