خبرنامہ

جو بچا ہے مقتل ِ شہر میں… عامر بن علی

جو بچا ہے مقتل ِ شہر میں… عامر بن علی

گرونانک سے منسوب ہے کہ ان کے گردوارہ میں ایک نیا نوجوان داخل ہوا۔پرانے چیلوں نے محسوس کیا کہ گرونانک اس نئے آنے والے شخص سے خصوصی شفقت کررہے ہیں۔اسے اپنے قریب بٹھاتے ہیں۔اس کے کھانے پینے کا بھی خاص خیال رکھتے ہیں۔جب باقی چیلے لنگر کے لئے بھکشامانگنے جاتے ہیں تو گرواس نوجوان کو ساتھ نہیں بھیجتے ہیں۔ایک دن پرانے چیلوں نے باہمی مشاورت کی کہ آج گرو سے اصرار کریں گے کہ بھکشا مانگنے کے لئے حلقہ ارادت میں داخل ہونے والے اس نئے نوجوان کو بھی ہمارے ساتھ بھیجیں۔معاملہ جب گرونانک کے سامنے پیش کیا گیاتو انہوں نے بغیر ہچکچاہٹ کے نئے نوجوان کوچیلوں کے ہمراہ بھیج دیا۔اس موقع پر چیلوں نے باہمی مشورہ کیا کہ نئے چیلے کوذرا مشکل چیلنج دیتے ہیں۔آشرم کے قریب ہی ایک محل تھا،اس عظیم الشان محل کے دروازے نانک کے چیلوں کے لئے کبھی بھی نہیں کھلتے تھے،اور نہ ہی کبھی کوئی خیرات وہاں سے ملی تھی۔نئے نوجوان کو یہ ٹاسک دیا گیا کہ وہ محل کے دروازے پر بھکشا کے لئے آواز لگائے،بغیرچوں چراں کے نئے چیلے نے محل کے دروازے پر خیرات کے لئے صدا دے دی،محل کی ایک کھڑکی سے شہزادی یہ منظر دیکھ رہی تھی۔چیلے یہ نظارہ دیکھ کرششدررہ گئے کہ محل کا دروازہ کھلتا ہے اور وہی شہزادی ایک طشتری لاتی ہے۔جس میں سجے سونے، چاندی اور جواہرات اس نوجوان کے دامن میں ڈھیر کر دیتی ہے۔اس پر چیلے آپس میں گفتگو کرتے ہیں کہ ہمارے لئے تو یہ دروازہ کبھی کھلتا ہی نہیں تھا۔ہمیشہ خالی ہاتھ ہی یہاں سے لوٹے ہیں۔یہ کیا ماجرا ہے؟اس نے چیلے کا دامن سیم وزر اور قیمتی موتیوں سے بھر دیا ہے؟خیرانہوں نے اس بات پر طمانیت کا اظہار کیاکہ ہمارا سال بھر کا راشن،لنگر تو اس خیرات سے چل جائے گا۔گرونانک کے دوارہ پہنچے تو باقی چیلے زیادہ متاثر نہیں ہوئے۔دیگر احباب کا کہنا تھاکہ ہم تودرویش لوگ ہیں،ہم نے سونے چاندی اور جواہرات کا کیا کرناہے؟انہیں کھایا تو نہیں جاسکتا ہے،ہمیں تو کھانے کے لئے کچھ چاہئیے۔بہتر ہو گا کہ اس نوجوان کویہ مال و زر دے کر واپس محل بھیج دیا جائے اور ان سے اپیل کی جائے کہ ہمیں کھانے کے لئے کوئی دال دلیاعنایت کیا جائے۔گرونانک باطنی آنکھ رکھتے تھے۔انہوں نے بحث میں الجھے بغیرمذکورہ نوجوان کو دیگرچیلوں کے ہمراہ واپس اسی محل بھیجا،کہ قیمتی اشیاء کولوٹایا جائے، اور کھانے کے لئے ہی کچھ مانگ کر لائیں۔نوجوان چیلا جب اس محل کے دروازے پر پہنچاتو شہزادی نے پھر اس کا استقبال کیا،کھانے کی فرمائش سن کر فوراً ہی دیگیں پکانے کا حکم دیا۔طرح طرح کے پکوان اپنی نگرانی میں تیار کروا کر شہزادی کھانے کے ہمراہ خودگرونانک کے حضور پہنچ گئی۔نانک معاملہ کو سمجھ چکے تھے۔شہزادی سے پوچھنے لگے کہ کیا چاہتی ہو؟کیا مانگنے آئی ہو؟شہزادی نے بلا جھجک اس نوجوان چیلے کی طرف اشارہ کیاکہ یہ چاہئیے۔جس کوگرو کی خصوصی توجہ حاصل تھی۔ گرونانک نے شہزادی کو انکار نہیں کیامگر یہ ضرور کہاکہ میرے ان سب چیلوں میں سے کام کا بھی بس یہی ایک تھا،جس کی تم نے فرمائش کی ہے۔

دراصل وہ نوجوان چیلا ایک رجواڑے کا شہزادہ تھا۔سب کچھ تیاگ کے اس نے سنیاس لے لیا تھا۔گرونانک کے دروازے پر وہ روشنی کی تلاش میں اور ابدی نجات کی امید پر پہنچا تھا۔شہزادی نے اسے پہچان لیا تھا۔اس شہزادی نے توگرونانک سے اجازت مانگی تھی کہ وہ شہزادے کو اپنے ساتھ لے کر جانا چاہتی ہے،مگر موت کی شہزادی تو کسی سے اجازت طلب نہیں کرتی ہے۔اس بار ہمارے شہزادے شاعر دوست فرتاش سید کو لے گئی۔ادب کا دیاراور گہوارہ ویران ہو گیا۔اجل ایسا پھول توڑ کر لے گئی کہ سارا گلشن سخن ہی ویرانی کا منظرپیش کر رہا ہے۔

نوجوان شاعر،ماہرِتعلیم،ادیب و دانشورڈاکٹر فرتاش سید کی کروناکے باعث ہلاکت سے جو خلا پیدا ہوا ہے،وہ کبھی بھی پورا نہیں ہوسکے گا۔ کھلکھلاتا چہرہ، زندگی سے بھرپور قہقہے اور یاروں کا یارشخص۔روایت ہے کہ جب خالق کائنات نے مختلف فرشتوں کو مخصوص فرائض تفویض کئے، عزرائیل کوموت کا فرشتہ مقررکردیاگیا۔صوفی بزرگ بتاتے ہیں کہ عزرائیل نے اس پر مالک حقیقی سے استفسار کیا،کہ اے اللہ اگر میں لوگوں کی جان قبض کروں گا، تواس طرح ساری دنیا ہی میرے خلاف ہو جائے گی؟بے نیاز نے فرمایاکہ نہیں،ایسانہیں ہوگا،لوگ مختلف بہانوں کودوش دیں گے۔ اس بار ہم کرونا کودوشی اور ذمہ دارٹھہرا رہے ہیں۔احباب کا کہنا ہے،کہ وہاڑی ڈسٹرکٹ ہسپتال میں اگر وینٹی لیٹر دستیاب ہوتا،تو ہمارا یہ ہر دلعزیز دوست شائد اب بھی زندہ ہوتا۔