اسلام آباد:(ملت آن لائن) فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں استغاثہ کے آخری گواہ، جو قومی احتساب بیورو (نیب) کے تفتیشی افسر بھی ہیں، نے جرح کے دوران یہ تسلیم کیا کہ انسدادِ بدعنوانی ادارے کے پاس اس بات کا کوئی ثبوت موجود نہیں کہ نواز شریف کے دونوں بیٹوں نے والد کی مدد سے کاروبار کا آغاز کیا۔
رپورٹ کے مطابق عدالت میں پیشی کے موقع پر نیب کے تفتیشی افسر محمد کامران نے یہ بیان بھی دیا کہ تحقیقات کے دوران انہیں کوئی گواہ یا ثبوت نہیں ملا جس سے یہ ثابت ہوسکے کہ سابق وزیراعظم کا فلیگ شپ انویسٹمنٹ یا برطانیہ میں ان کے بیٹوں کی 16 دیگر کمپنیوں سے ان کا کوئی تعلق تھا۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل واجد ضیا کی سربراہی میں قائم مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ کے مطابق حسین نواز نے العزیزیہ اور ہل میٹل اسٹیل ملز اس وقت بنائی جب نواز شریف حکومت کے خاتمے کے بعد جلا وطن تھے۔
محمد کامران کا مزید کہنا تھا کہ تفتیش میں شامل کسی فرد نے ایسا کوئی زبانی یا تحریری بیان نہیں دیا جس میں یہ الزام ثابت ہو کہ سال 2000 یا اس کے بعد حسین یا حسن نواز کی بھی طرح نوازشریف کے زیرِ کفالت تھے۔
جرح کے دوران تفتیشی افسر کا یہ بھی کہنا تھا کہ میں نے ایسی کوئی دستاویز نہیں دیکھی جس کے مطابق ملزم میاں محمد نواز شریف نے کوئی رقم یا پیسے فلیگ شپ انویسمنٹ لمیٹڈ کے لیے سرمایے کی مد میں فراہم کیے ہوں۔
ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ نیب کو ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا جس سے ثابت ہو کہ جب حسن نواز لندن میں تعلیم حاصل کررہے تھے تو ان کے اخراجات کے لیے نواز شریف نے کوئی رقم برطانیہ بھیجی۔
استغاثہ کے گواہ کا مزید کہنا تھا کہ نواز شریف کے بچے برطانیہ میں قانونی طریقے سے کاروبار کررہے ہیں اور ان سے کبھی بھی کسی انتظامیہ یا حکومت کی جانب سے کسی بھی غلط کام کے حوالے سے کوئی سوال جواب نہیں کیے گئے۔
گواہ کا مزید کہنا تھا کہ میں نے ایسی کوئی دستاویز نہیں دیکھی جس میں ملزم نواز شریف کے منی لانڈرنگ یا کسی بھی طریقے سے آف شور کمپنی میں ملوث ہونے کا الزام ثابت ہو۔
تفتیشی افسر نے مزید کہا کہ میرے علم میں یہ بات آئی ہے کہ حسین نواز کا برطانیہ میں جائیدادیں خرید کر ان کی تزیئن و آرائش کر کے دوبارہ فروخت کرنے کا کاروبار ہے۔