خبرنامہ

حکمرانوں کے پاس اتنی زیادہ دولت اکٹھی ہوجائے توسوال پوچھا جاتا ہے،نیب پراسیکیوٹر

اسلام آباد:(ملت آن لائن) احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز پر سماعت جاری ہے۔

تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں معزز جج محمد ارشد ملک سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت کررہے ہیں۔

نیب نے مقدمے میں شہادتیں مکمل ہونے سے متعلق عدالت کوآگاہ کردیا ، ڈپٹی پراسیکیوٹرجنرل نیب سردارمظفرنے شہادتیں مکمل ہونے کا بیان دیا۔

سابق وزیراعظم نوازشریف نے آج حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کردی۔

نیب پراسیکیوٹرواثق ملک نے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں حتمی دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیس وائٹ کالرکرائم کا ہے،عام کیس نہیں، یہ بڑے منظم طریقے سے کیا گیا جرم ہے۔

معاون وکیل نے عدالت کو بتایا کہ فلیگ شپ ریفرنس میں نوازشریف کا بیان کل یوایس بی میں فراہم کر دیں گے، نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ آپ نےکل بھی یہ ہی کہنا ہے کہ مکمل نہیں ہوسکا۔

نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ یوایس بی میں عدالت کو بیان فراہم کرنے کا مقصد ٹائم بچانا ہے۔

نیب وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نوازشریف اور خاندان کے بیرون ملک اثاثوں کا علم پاناما لیکس کے بعد ہوا، سپریم کورٹ میں کیس سے پہلے اثاثوں کو ظاہرنہیں کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ملزمان کو سپریم کورٹ ، جے آئی ٹی اور نیب میں وضاحت کا موقع ملا، ملزمان کی طرف سے پیش کی گئی وضاحت جعلی نکلی۔

نیب کے وکیل نے کہا کہ کیس میں جس جائیداد کا ذکر ہے وہ تسلیم شدہ ہے، ملزم نے بے نامی دار کےذریعے اثاثے چھپائے۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ کیس کی تحقیقات میں یہ سوال اٹھایا گیا یہ اثاثے بنائے کیسے گئے، 2001 میں العزیزیہ کی ویلیو6 ملین ڈالراور2005میں ہل میٹل کی ویلیو5 ملین پاؤنڈ بتائی گئی۔

انہوں نے کہا کہ 2010 سے2017 میں 187.1ملین کی رقم نوازشریف کوبھیجی گئی، کسی بھی جگہ پرملزمان کی طرف سے ان سوالوں کا جواب نہیں دیا گیا۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ بیرون ممالک سے بھی تعاون اس طرح سے نہیں ملا جوملنا چاہیے تھا، ریاست ماں کی طرح ہے، اسے سوال پوچھنے کا حق حاصل ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہرفورم پرملزمان کا موقف بدلتا رہا، کیس کو نیارخ دینے کی کوشش کی گئی، حکمرانوں کے پاس اتنی زیادہ دولت اکٹھی ہوجائے توسوال پوچھا جاتا ہے۔

پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ حکمرانوں سے سوال پوچھنے کی روایت خلفائے راشدین کے دورسے چلی آ رہی ہے، جج محمد ارشد ملک نے ریمارکس دیے کہ یہاں بھی توجواب ہی دیا ہے کہ ہماری طرف سے جواب ہے۔

نیب پراسیکیوٹر واثق ملک نے کہا کہ اس کیس میں ملزم نے ہرپلیٹ فارم پرالگ رخ سے بیان دیا، اس کیس کی تفتیش 2 اگست 2017 سے شروع ہوئی۔

واثق ملک نے کہا کہ کیس کے تفتیشی افسرمحبوب عالم تھے، 3ملزمان ہیں، یہ ریفرنس 15 ستمبر 2017 کو دائرہوا، اس کیس میں چارج فریم 19 اکتوبر2017 کو ہوا۔

انہوں نے کہا کہ اس کسی میں ضمنی ریفرنس 14 فروری 2018 کو دائر ہوا، اس ریفرنس میں ٹوٹل 26 گواہان تھے، 22 کا بیان ریکارڈ ہوا۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ یہ کیس بینفشل آنراوربےنامی دارسے متعلق ہے، یہ وہ کیس نہیں کہ اس کا کوئی مالک نہیں، اس کیس سے جڑے تمام افراد کواپنے دفاع کے لیے مواقع ملے۔

واثق ملک نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ملزمان کودفاع میں ثبوت دینے کے لیے موقع دیا، پھربات جےآئی ٹی تک آ گئی اورنیب میں وضاحت پیش کرنے کا موقع ملا۔

انہوں نے کہا کہ اس کیس میں جومنی ٹریل پیش کی گئی وہ غلط ثابت ہوئی، اس کیس میں تمام اثاثے مانے گئے ہیں کہ ہمارے ہیں۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ اس کیس میں اصل مالک کوچھپایا گیا ہے، یہ کیس ملزم نوازشریف کے خلاف ہے، کیس اس کے خلاف ہے جو 3 مرتبہ وزیراعظم، 2 بار وزیراعلی، وزیرخزانہ اور اپوزیشن لیڈر رہا۔

واثق ملک نے بتایا کہ گواہ جہانگیراحمد نے تینوں ملزمان کا 1996 سے 2016 کا ٹیکس ریکارڈ پیش کیا جبکہ گواہ طیب معظم نے نوازشریف کے 5 اکاؤنٹس کا ریکارڈ پیش کیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ اکاؤنٹس پاکستانی روپےاورغیرملکی کرنسی کے تھے، ان اکاؤنٹس سے پتہ چلتا ہے کتنی رقم آئی اور گئی۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ یاسرشبیرنے نوازشریف اورمریم کے اکاؤنٹ کی تفصیلات پیش کیں جبکہ سدرہ منصور نے مہران رمضان ٹیکسٹائل کا ریکارڈ پیش کیا۔

واثق ملک نے کہا کہ نورین شہزادی نے نوازشریف، حسین نوازکے اکاؤنٹ اوپننگ فارم پیش کیے، حسین نواز کے اکاؤنٹ میں ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ سےترسیلات کا ریکارڈ دیا۔

انہوں نے کہا کہ گواہ شیراحمد خان نے ملزمان کے اکاؤنٹس کی جائزہ رپورٹ پیش کی، ہل میٹل کا 97 فیصد منافع پاکستان بھجوایا گیا۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ جب مل کم منافع کما رہی تھی توبھی زیادہ پیسے بھجوائے جا رہے تھے، معزز جج محمد ارشد ملک نے استفسار کیا کہ نیب نے ان رقوم کو منجمد کیا یا کچھ بھی نہیں؟۔

معزز جج نے سوال کیا کہ کیا یہ رقوم اب بھی بینک میں موجود ہیں؟ نیب کے وکیل نے جواب دیا کہ اب تو اکاؤنٹس میں بہت کم رقوم موجود ہیں ، منجمد نہیں کی گئی۔

نیب کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ میں 3 پٹیشن دائر کی گئیں، ایک پٹیشن عمران خان، دوسری شیخ رشید اور تیسری سراج الحق نے دائرکی۔

واثق ملک نے عدالت کو بتایا کہ پٹیشن دائر ہوئیں تو ملزمان کی جانب سےسی ایم ایزجمع کرائی گئیں۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ملزمان کی جانب سے ایک سی ایم اے جے آئی ٹی کے بعد فائل کی گئی، سپریم کورٹ نے 20 اپریل 2017 کو فیصلہ دیا اور جے آئی ٹی بنائی گئی۔

انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی کوسوالات دیے گئے جن کی معلومات حاصل کرنی تھی، جے آئی ٹی نے 2 ماہ میں رپورٹ جمع کرانی تھی۔

واثق ملک نے کہا کہ ملزمان نےعدالت اورتحقیقاتی کمیٹی کو گمراہ کرنے کی کوشش کی، ملزمان دسمبر 2000 میں سعودی عرب منتقل ہوئے۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ پاکستان سے جانے کے کچھ عرصے بعد العزیزیہ اسٹیل قائم کی گئی، ملزمان خود کہتے ہیں پاکستان سے خالی ہاتھ سعودی عرب گئے۔

احتساب عدالت نے ریمارکس دیے کہ جلدی سے اپنے دلائل ختم کریں ، پھروکیل صفائی کے دلائل سننے ہیں، دونوں کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سوال وجواب کا سیشن ہوگا۔

پراسیکیوٹر نے کہا کہ نوازشریف نے خطاب میں کہا العزیزیہ کے لیے سعودی بینکوں سے قرض لیا، نوازشریف نے کہا العزیزیہ کچھ عرصے کے بعد فروخت کردی گئی۔

انہوں نے کہا کہ ناجائزذرائع سے پیسہ کمانے والے اپنے نام کمپنیاں نہ اثاثے بناتے ہیں، نوازشریف کے بیان کوبچوں کے کفالت میں ہونے کے تناظرمیں پیش کرتا ہوں۔

معزز جج نے ریمارکس دیے کہ نا جائزدولت ہوتی تو حسین نوازاپنے نام پرکمپنی نہ بناتے، نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ نوازشریف نےکہا العزیزیہ مل 64 ملین ریال میں فروخت ہوئی۔

واثق ملک نے کہا کہ ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ پاناماکیس کے آخرمیں ظاہر کی گئی، سعودی عرب سے آنے والی رقوم سے متعلق سوال پرایچ ایم ای کو ظاہر کیا گیا۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ نوازشریف کے قومی اسمبلی میں خطاب کے وقت صرف ایون فیلڈ فلیٹس کا معاملہ تھا، حسین نوازکا انٹرویواثاثوں سے متعلق تھا۔

انہوں نے کہا کہ حسین نوازنے بتایا العزیزیہ فروخت ہوئی تو ایون فیلڈ فلیٹس خریدے، حسین نواز نے کہا 2005 میں اثاثوں کی تقسیم کے بعد والد کا کاروبارسے تعلق نہیں۔

واثق ملک نے کہا کہ حسین نوازکے بیان سے ظاہرہے 2005 سے پہلے نوازشریف کا کاروبار سے تعلق تھا، حسین نوازنے کہا کہ شرعی طورپرمیرا سارا کچھ میرے والد کا ہے۔

عدالت میں گزشتہ روز سماعت کے دوران نیب نے فلیگ شپ ریفرنس میں نوازشریف کو تحریری سوال نامہ فراہم نہ کرنے اور پہلے دفاع کو حتمی دلائل دینے کی درخواست کی تھی تاہم عدالت نے نیب کی دونوں درخواستوں کومسترد کردیا تھا۔

احتساب عدالت کی جانب سے گزشتہ روز نواز شریف کو 342 کے تحت بیان قلمبند کروانے کے لیے سوال نامہ فراہم کردیا گیا تھا۔ نواز شریف کو دیا گیا سوال نامہ 62 سوالات پر مشتمل ہے۔