اسلام آباد:(ملت+اے پی پی) خطے میں بھارت کے بغیر نئی صف بندیاں ہورہی ہیں اور اس کا تازہ ترین مظہر آئندہ ماہ ماسکو میں ہونے والا پاکستان، چین اور روس کا مشترکہ اجلاس ہے۔ ایک سرکاری عہدیدار کے مطابق افغانستان سمیت دیگر معاملات پر تینوں ممالک کا اجلاس ہورہا ہے، جب کہ مخصوص علاقائی اور بین الاقوامی طاقتوں سے پاکستان، روسی اور چین تینوں کو خطرات لاحق ہیں۔ ذرائع نے ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں نیویارک میں افغانستان، بھارت اور امریکا نے پہلے سہ فریقی اجلاس کی یاددہانی کراتے ہوئے کہا ہے کہ نئی پیشرفت (مجوزہ سہ ملکی ماسکو اجلاس) کو اس سے الگ کرکے نہیں دیکھاجاسکتا۔ 1980کی دہائی میں افغانستان جب بدامنی کا شکار تھا تواسلام آباد اور ماسکو اس وقت مخالف کیمپوں میں ہوا کرتے تھے لیکن سرد جنگ کی حریفانہ چپقلش اب ایک ڈرامائی موڑ لے چکی ہے اور اب دونوں ممالک افغانستان میں امن لانے کے لیے ممکنہ حل تلاش کرنے میں ایک دوسرے کے شراکت دار بننے والے ہیں۔ اس غرض سے روس پہلی مرتبہ ایک ایسے سہ فریقی مذاکرات کی میزبانی کرنیوالا ہے جن میں روس ، پاکستان اور چین شریک ہوں گے، یہ مذاکرات رواں ماہ ہی ہوں گیجن کا مقصد یہ ہے کہ افغانستان کی پہیلی کو کسی طرح سے سلجھایاجاسکے۔ ایک سینئر پاکستانی عہدیدار جسے یقین ہے کہ یہ پیشرفت دنیا کے اس حصے میں ہونیوالی نئی صف بندیوں کا حصہ ہے کا کہنا ہے کہ ’’یہ ماضی دھوڈالنے کالمحہ ہے‘‘ گزشتہ ماہ روس اور پاکستان نے تاریخ میں پہلی مرتبہ فوجی مشقیں کی تھیں جو ان کے باہمی تعلقات میں ہونے والی تدریجی پیشرفت کی غماز تھی،وہ تعلقات جو سرد جنگ کے دورکی حریفانہ چپقلش کی وجہ سے خراب چلے آرہے تھے۔ ماسکو نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجی کیمپ پر حملے کے بعد پاکستان سے مشترکہ فوجی مشقیں نہ کرنے کی بھارتی درخواست مسترد کر دی تھی۔بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے گوا یں کی جانے والی کوششوں کو اس وقت پھر ایک دھچکا لگا جب روسی وزیر اعظم ولادی میر پوٹن نے بھارت کے موقف کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا۔مجوزہ پاک چین روس اجلاس کی تفصیلات کا علم رکھنے والے ایک عہدیدار کا کہنا ہے کہ اس سے واضح طور پر چلتا ہے کہ مودی کی جانب سے پاکستان کو دنیا سے الگ تھلگ کرنے کی کوششیں ناکام ہوگئی ہیں۔اس عہدیدار نے درخواست کی کہ اس کا نام ظاہر نہ کیا جائے کیونکہ وہ میڈیا سے گفتگو کرنے کا سرکاری طور پر مجاز نہیں ہے ۔ اس کا کہنا تھاکہ تین ملکی مذاکرات میں اس امر پر بات کی جائے گی کہ افغانستان میں طویل عرصے سے جاری تنازع کو ختم کیسے کیاجائے کہ داعش جیسے گروہوں کو جنگ سے تباہ حال اس ملک میں پاؤں جمانے سے روکا جا سکے۔ اس سلسلے میں جب فارن آفس سے رابطہ کیاگیا تو اس کے ترجمان نفیس ذکریا نے کہا کہ اس اقدا م کا مقصد افغانستان اور خطے میں عمومی طور پر امن لانا ہے۔ذکریا نے بتایا کہ ’’افغانستان کی بگڑتی ہوئی صورتحال نے اس کے صورتحال کے دوسرے ممالک تک پھیلنے کی تشویش کو ابھارا ہے کیونکہ اس ملک میں غیر ریاستی عناصر اور دیگر عناصر موجود ہیں‘‘۔یہ دیگر عناصر دراصل ان مخصوص علاقائی اور بین الاقوامی طاقتوں کا حوالہ ہے جن سے پاکستان ، روسی اور چین تینوں کو خطرات لاحق ہیں کہ بالآخر یہ قوتیں افغانستان کی صورتحال کو خطے مین اپنے بڑے مقاصد کیلیے استعمال کریںگی۔ یہی وجہ ہے کہ وسیع تر تناظر مین ماسکو میں دسمبر کے پہلے ہفتے میں ہونے والا اجلاس بڑے بین الاقوامی کھلاڑیوں کے تعلقات میں تبدیلی کا شاخسانہ ہوگا۔ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کیاجلاس میں نیویارک میں افغانستان ، بھارت اور امریکا نے پہلی سہ فریقی اجلاس منعقد کیا تھا اور اس وقت اس پر پاکستان میں تشویش کا احساس پیدا ہوا تھا کہ بھلا اس قسم کے رابطوں کا محرک کیا ہے۔ ایک اور عہدیدارکا کہنا تھا کہ ماسکو میں ہونیوالا اجلاس اس قسم کی حالیہ پیشرفتوں سے الگ کرکے نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ماسکو، اسلام آباد اور بیجنگ کا اب افغانستان سمیت بہت سے دیگر معاملات پر ’اجماع‘ ہو رہا ہے ۔ تازہ ترین اقدام امریکا کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی افغان پالیسی سمیت تمام تر پالیسیوں میں ممکنہ تبدیلیوں کے پس منظر میں بھی اہمیت کا حامل ہے ۔ افغانستان کے تنازع کے حل کیلیے ماضی کے تمام تر سیاسی اقدامات سے ماضی میں یا تو بہت کم فائدہ ہوا یا بالکل ہی کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔ پاکستان کو افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے اہم تصور کیاجاتا ہے اس نے جولائی 2015میں طالبان اور افغان حکومت کے مابین پہلی مرتبہ براہ راست مذاکرات کرانے کی کوشش کی تھی جو طالبان کے سپریم کمانڈر ملاعمر کے انتقال کی اطلاع کی توثیق کے باعث آگے نہ بڑھ سکی۔ اس کے 6 ماہ بعد ایک اور اقدام کیا گیا جس میں پاکستان، افغانستان، امریکا اور چین شامل تھے ان مذاکرات میں غنی انتظامیہ کے طالبان سے براہ راست مذاکرات کی کوشش کی گئی تھی۔ یہ گروپ جو گزشتہ برس دسمبر میں بنا تھا وہ رواں برس جولائی میں طالبان کے نئے سربراہ ملا اختر منصور کی کوئٹہ کے نزدیک ہلاکت کے بعد سے غیر فعال ہوگیا تھا ۔