اسلام آباد:(ملت آن لائن) وزیراعظم کے مشیر برائے سمندر پار پاکستانی زلفی بخاری کی نااہلی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم صرف یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کیا تقرر قانون کے تحت ہوا یا نہیں۔
سپریم کورٹ میں زلفی بخاری کی نااہلی سے متعلق کیس کی سماعت شروع ہوئی تو ان کی جانب سے اعتزاز احسن بطور وکیل پیش ہوئے، اس موقع پر درخواست گزار عادل چھٹہ نے استدعا کی کہ میرے وکیل علاج کے لیے امریکا گئے ہیں اس لیے سماعت 15 دسمبر تک ملتوی کی جائے۔
وکیل اعتزاز احسن نے دلائل دیتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ زلفی بخاری معاون خصوصی ہے رکن اسمبلی نہیں جن کا پروفائل عدالت میں پیش کردیا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا زلفی بخاری پاکستان میں کب متعارف ہوئے، لائم لائٹ میں کب آئے جس پر اعتزاز احسن نے عدالت کو بتایا کہ زلفی بخاری لندن میں پاکستانی کمیونٹی میں بہت متحرک رہے ہیں، حکومت کے پہلے 100 دن میں اس نوجوان نے بہترین کارکردگی دکھائی۔
وکیل اعتزاز احسن نے یہ بھی کہا کہ زلفی بخاری نے تعیناتی سے اب تک ساری تنخواہ ڈیم فنڈ میں دی ہے جس پر چیف جسٹس نے مسکراتے ہوئے کہا یہ تو بہت اچھا کیا۔
اس موقع پر درخواست گزار عادل چھٹہ نے کہا کہ کہنے کو یہ وزیراعظم کے مشیر برائے بیرون ملک پاکستانیز ہیں لیکن یہ ای او بی آئی کے بورڈ کی میٹنگز میں بھی بیٹھتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کل کو حکومت کو بھگتنا ہے کہ کتنے اچھے لوگ لگائے اور کتنے نہیں، ہمارا اس سے تعلق نہیں، ہم تو صرف یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کیا تقرر قانون کے تحت ہوا یا نہیں۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا اگر تقرری میں اقرباء پروری ہوگی تو ضرور عدالتی جائزہ لیں گے، ایک فیصلے میں لفظ اقرباء پروری استعمال کیا تو بہت لے دے ہوئی، کسی کو افسوس ہوا ہے تو اس کے لیے عدالتی نظام میں تبدیلی نہیں کر سکتے۔
چیف جسٹس نے کہا ہمارا کام انتظامیہ کی تضحیک کرنا نہیں، غالباً کسی نے ان کو بتایا ہی نہیں کہ یہ مقدمہ کووارنٹو کا ہے، اقربا پروری تو ایک گراؤنڈ کے طور پر زیر بحث آیا تھا جب کہ درخواست گزار نے تو اقربا پروری کا ایشو اٹھایا ہی نہیں تھا۔