سارک کانفرنس کی تشکیل کے پیچھے یہ نظریہ کارفرما تھا کہ بھارت کے چھوٹے ہمسائے اکٹھے ہو کر اس کی بالا دستی کو نکیل ڈالنے کی کوشش کریں گے مگر وقت کے ساتھ ثابت یہ ہوا ہے کہ سارک کو بھارت نے اپنی بالادستی مستحکم کرنے کے لئے کامیابی سے ا ستعمال کیا ہے۔
ایک وقت تھا کہ ہم نے اسلام آباد میں راجیو گاندھی کا استقبال کرنے کے لئے کشمیر ہاؤس کے بورڈ اتروا دیئے، پی ٹی وی پر کشمیری خبرنامہ معطل کر دیا اوراسٹیج پر بیٹھ کر راجیو اور بے نظیر نے مسکراہٹوں کا تبادلہ کیا۔
اب بھارتی و زیر داخلہ اس حال میں قدم رنجہ فرمارہے ہیں کہ کشمیر میں 8 جولائی کے بعد سے بے گناہوں کی لاشیں تڑپ رہی ہیں ا ور عفت مآب کشمیری خواتین کی اجتماعی آبرو ریزی کا نیا سلسلہ شروع ہو گیا ہے، امریکہ کو بھی اس جبر اور ستم پر صدائے احتجاج بلند کرنا پڑی ہے۔
پاک بھارت مذاکرات کی تاریخ طے ہو مگر پٹھانکوٹ میں ایک ڈرامہ کھیلا جائے جس کی آڑ میں بھارت ان مذاکرات کو غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دے مگر کشمیریوں کی لاشیں تڑپیں ا ور ہم راجناتھ کا استقبال کریں ، چہ معنی دارد! ہم بھی صاف معذرت کر سکتے تھے کہ مہاراج ! آپ کے ہاتھ بے گناہ کشمیریوں کے خون سے لتھڑے ہوئے ہیں، پاکستان کے طول وعرض میں پھیلی ہوئی کشمیری آبادی سخت مضطرب ہے، پاکستان کی سیاسی جماعتیں اس پرآل پارٹیز کانفرنس کر کے سخت احتجاج کر چکی ہیں، جماعت ا سلامی نے اپنے جذبات کے اظہار کے لئے واہگہ مارچ بھی کیا ہے اور جماعت الدعوہ کے رہنما حافظ محمد سعید نے راجناتھ کی آمد پر یوم سیاہ منانے کا اعلان کر دیا ہے تو اس پس منظر میں سارک وزرائے داخلہ کے اجلاس کو ملتوی کر دینا چاہئے تھا تاکہ بھارتی وزیر داخلہ کو کشمیریوں کے قتل عام کے دوران پاکستان میں سواگت کروانے کا موقع نہ ملے۔
اس وقت اطمینان کی بات یہ ہے پاکستان کی حکمران جماعت بھی بھارتی مظالم کے خلاف سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے۔ وہی نواز شریف جن کی نواسی کی شادی میں بھارتی وزیر اعظم مودی کوشرکت کا اعزاز ملا، وہ بھی کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم پر بر افروختہ ہیں۔پاکستان کا فارن آفس بھی اپنا قبلہ سیدھاکر چکا ہے اور وہ بھار ت کو کھری کھری سنا رہا ہے۔
کشمیر میں بھارتی فوج نے درندگی کی ہر حد پار کر لی ہے اور وہ ایسا اسلحہ ا ستعمال کر رہا ہے جس سے کشمیری نوجوان مرد اور خواتین کی بینائی ضائع ہو گئی،ان کے چہرے داغ داغ ہو گئے ہیں۔شہید ہونے والوں کو سیدھے سراور دل میں گولیاں ماری گئی ہیں۔
کشمیر کی تاریخ میں پہلی بار کٹھ پتلی حکومت کو بھی دلی سرکار کے خلاف زبان کھولنا پڑ ی ہے۔ وزیرا علی محبوبہ مفتی نے کہا ہے کہ برہان وانی کی شہادت کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جاسکتا۔
مگر سفاک بی جے پی کی ہوس انتقام ٹھنڈی ہونے میں نہیں آتی۔ یہ وہی پارٹی ہے جس نے بابری مسجد کو شہید کیاا ور جس کے ا نتخابی منشور میں ہے کہ وہ آئین میں ترمیم کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اسے بھارتی جغرافیئے میں ضم کر دے گی ،ا س کے لئے وہ موقع کی تاک میں ہے۔اسی بی جے پی کی حکومت میں مسلمانوں کو شہید کر نے کے لئے ایک نیا بہانہ تلاش کر لیا گیا ہے کہ وہ گائے کو ذبح کرتے ہیں،یااس کا گوشت اسٹور کرتے ہیں یااسے فروخت کرتے ہیں۔اورا سی بی جے پی کی حکومت کا وزیر داخلہ راجناتھ اسلام آباد آنے کا قصد کر رہا ہے جہاں وہ دود ن تک ٹھہرے گا۔ یہ تو پاکستانیوں کے سینے پہ مونگ دلنے کے مترادف ہے۔
مقام شکر ہے کہ ا س بار پاکستان قوم پوری طرح یک سو ہے۔ اسے اپنے کردار اور عمل سے دنیا کو یہ باور کرانا ہو گا کہ وہ کشمیرمیں بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف اس وقت تک احتجاج کرتی رہے گی جب تک بھارت اپنے ناپاک قدم اس جنت نظیر وادی سے ہٹا نہیں لیتا۔ اس کا عملی مظاہرہ اسے راجناتھ کی آمد پر کرنا ہو گا اور یک جان ہو کر بھرپور احتجاج ریکارڈ کرانا ہو گا۔
بھارت جس طرح کا سلوک ہمارے لوگوں کے ساتھ کرتا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ ہمارا کوئی گلوکار بھارت چلا جائے تو اس کی تذلیل کی جاتی ہے۔ استاد غلام علی کے ساتھ جو ہوا وہ کل کی بات ہے۔ عدنان سمیع کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک روا رکھا گیا۔بھارتی انتہا پسند نہ صرف مہمانوں کی بے عزتی کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں بلکہ وہ میزبان جو پاکستانی مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہیں ،بھارتی غنڈے ان کا بھی منہ کالا کرنے سے باز نہیں آتے۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کا معاملہ بھی سب کے سامنے ہے۔ بھارت اپنی شدت پسند تنظیموں کو لگام دے سکا، نہ دینا چاہتا ہے۔ وہ ان کی پشت پناہی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے جب بھی پاکستانی ٹیم کا بھارت میں کوئی میچ متوقع ہوتا ہے تو پاکستانی کھلاڑیوں کو جان کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ گراؤنڈ کی پچیں اکھاڑ دی جاتی ہیں اور دہشت گردی کے خطرات نمایاں ہو جاتے ہیں جس پر میچ کسی اور سٹیڈیم میں منتقل کیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ برسوں سے جاری ہے۔ اب راجناتھ کی آمد پر بھی پاکستانی عوام کو جیسے کو تیسا کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ہندو بنئے کو اسی کی زبان میں جواب ملے گا تو اسے اپنی اوقات سمجھ میں آ جائے گی۔ جو کہتے ہیں کہ بھارت سے تجارت ضروری ہے انہیں پتہ ہونا چاہیے کہ یہ تجارت کشمیریوں کے خون اور عصمتوں کی قیمت پر نہیں جاری رکھی جا سکتی۔ بھارت کے ساتھ ایسی تجارت میں خسارہ ہی خسارہ ہے۔
کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں حل ہو جائے تو اس پر نہ تو پاکستانی حکومت کو اعتراض ہو گا نہ عوام کو اور نہ ہی خود کشمیریوں کو۔ انہیں بھارتی تسلط سے ہر قیمت پر آزادی درکار ہے۔ ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ ان کی جدوجہد اور قربانیاں کا ثمر کشمیریوں کو مل کر رہے گا۔ بھارت سرکار اپنا رویہ تبدیل کرے تو یہ اس کے لئے بھی بہتر ہے اور خطے کے پائیدار امن کے لئے بھی۔ پاکستان ایٹمی قوت ہے‘بھارت کو اس کا غم ہے۔ وہ اس غم کو مٹانے کے لئے پاکستان میں دراندازی کرتا ہے تو کبھی کشمیر میں ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتا ہے۔ کشمیری عوام کی آواز کو نظر انداز کرنا اس کے لئے ممکن نہیں۔ یہ بات مودی سرکار کو سمجھ لینی چاہیے۔
راجناتھ کی پارٹی بی جے پی ہے جس نے تجویز دی کے برہان وانی کو شہید کرنے والے بھارتی فوجیوں کو اشوک چکر سے نقاز جائے ۔ یہ زمانہ امن میں بہادری کے مظاہرے پر اعلی تریں بھارتی ایوارڈ ہے، بھارت اگر اپنے کسی فوجی کو اشوک چکر دیتا ہے تو پاکستان کو چاہئے کہ وہ برہان وانی کے لئے نشان حیدر کا اعلان کر دے۔ اگر ہم کہتے ہیں کہ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے تو پھر برہان وانی ہمارے ہی جسد قومی کا ایک حصہ تھا اور وہ نشان حیدر کا بجا طور پر حقدار ہے۔ پاکستان کے اس اقدام سے بھارتی لالے کا دماغ ٹھکانے آ جائے گا۔