خبرنامہ

ریاست پاکستانی تارکینِ وطن کے ساتھ کھڑی ہے

حکومت پاکستان نے برطانیہ میں نسلی تعصب کے خلاف پاکستانی تارکین وطن کے اتحاد پر زور دیا ہے کیونکہ برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کو آبادی کا صرف 2 فیصد ہونے کے باوجود گرومنگ گینگز کے بارے میں ہونے والی گفتگو میں غیر متناسب طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس نے ایک غیر منصفانہ بیانیہ تشکیل دیا ہے جو اسلامو فوبیا اور نسلی تعصب کو بڑھاتا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ بار بار سامنے آنے والی تصویر کشی اہم حقائق کو نظر انداز کرتی ہے اور پاکستان مخالف جذبات کو ہوا دیتی ہے۔ نادانستہ طور پر انتہائی دائیں بازو کے گروہوں اور غیر ملکی مفادات کی مدد کرتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کے بیانیے پاکستانی تارکین وطن کے اندر داخلی تقسیم کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور یہاں تک کہ وسیع تر جغرافیائی سیاسی ایجنڈوں سے ہم آہنگ ہو سکتے ہیں۔
اگرچہ پاکستانی ریاست یہ تسلیم کرتی ہے کہ تارکین وطن کے اندر ایک چھوٹے سے طبقے نے پاکستان کے مفادات کے خلاف کام کیا ہے لیکن وہ اپنے لوگوں کے ساتھ مضبوطی سے کھڑی ہے کیونکہ وہ قوم کا اٹوٹ حصہ ہیں۔ پاکستان اپنے تارکین وطن پر زور دیتا ہے کہ وہ اتحاد کو ترجیح دیں اور اپنے اجتماعی تشخص کو کمزور کرنے کے لیے بنائے گئے بڑے سیاسی ایجنڈوں میں پیادے بننے سے گریز کریں۔ اس مشکل وقت میں پاکستانی تارکین وطن کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ اس طرح کے جھوٹے بیانیے کا مقابلہ کرنے اور عالمی سطح پر اپنی کمیونٹی کی ساکھ کو برقرار رکھنے کے لیے پاکستان کی کوششوں کے ساتھ ہم آہنگ ہوں۔ پاکستانی ریاست نے تارکین وطن کے لیے اپنی وابستگی کا اعادہ کیا اور اس بات پر زور دیا کہ اتحاد اور اجتماعی طاقت تفرقہ انگیز بیان بازی اور ٹارگٹڈ مہمات کا مقابلہ کرنے کے لیے بہترین ہتھیار ہے۔
گرو منگ گینگزکی اصطلاح 2011ء میں ٹائمز کی رپورٹ کے بعد مقبول ہوئی جس نے اس مسئلے کو جنوبی ایشیائی مردوں سے جوڑ کر اس کو ایک جرم کے طور پر پیش کیا۔ میڈیا کی سرخیاں اور سیاسی بیان بازی نے اس تصور کو مزید تقویت دی کہ مسلمان مردوں میں اس طرح کے جرائم کے لیے کوئی ثقافتی یانہ ہی رجحان پایا جاتا ہے جس نے وسیع تر نظامی اور سماجی مسائل کو نظر انداز کیا۔ برطانیہ کی وزارتِ انصاف کے مطابق بچوں کے جنسی استحصال کے 83 فیصد مجرم سفید فام تھے جبکہ باقی17 فیصدمیں دیگر سفید فام 496 جنوبی ایشیائی 76 اور دیگر 66 شامل ہیں۔ برطانیہ کی وزارتِ انصاف کے 2022ء کے اعداد و شمار سے واضح طور پر پتا چلتا ہے کہ گرو منگ گینگز کے مجرموں میں سے 836 سفید نام ہیں جبکہ صرف 796 ایشیائی ہیں اور محض 296 پاکستانی نسل کے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس طرح کے جرائم کا زیادہ تر تعلق پاکستانیوں سے نہیں ہے۔ برطانیہ میں گرو منگ گینگز اور بچوں کے جنسی استحصال کا مسئلہ عوامی اور سیاسی سطح پر شدید بحث کا باعث بن چکا ہے جس میں نسلی اور ثقافتی دقیانوسی تصورات نے دھندلاہٹ پیدا کی ہے۔ پاکستانی ورثے کو انتہا پسند بیانیوں کے ذریعے غیر مناسب طور پر اجاگر کیا گیا ہے۔
اس تمام صورتحال پر سخت رد عمل دیتے ہوئے ترجمان دفتر خارجہ نے چند افراد کی حرکتوں کی بنیاد پر پوری کمیونٹی پر سنگین الزامات کو باعث تشویش اور قابل مذمت قرار دیا اور بڑھتے نسل پرستانہ، اسلاموفوبیا پر مبنی تبصروں کو باعث تشویش کہا۔ ترجمان دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ پاکستان اور برطانیہ کی دوستی مستحکم تعاون اور اعتماد پر مبنی ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ کئی دہائیوں سے جاری رشتہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ایک اہم ترجیح ہے، 17 لاکھ برطانوی پاکستانی تارکین وطن کی موجودگی دونوں دوست ممالک کے درمیان مضبوط ترین رابطہ فراہم کرتی ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ برطانیہ میں بڑھتی ہوئی نسل پرستانہ اور اسلامو فوبک تبصرے باعث تشویش ہیں اور اس کا مقصد پورے برطانوی پاکستانیوں کے ساتھ چند افراد کے قابل مذمت اقدامات کو ملانا ہے۔ اس میں کہا گیا کہ چند افراد کی حرکتوں کی بنیاد پر پوری کمیونٹی پر سنگیں الزامات لگانا باعث تشویش اور قابل مذمت ہے۔
دفتر خارجہ نے برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کے خلاف نسل پرستانہ، اسلاموفوبیا پر مبنی تبصروں پر اظہار مذمت کیا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کے بارے میں بڑھتے نسل پرستانہ اور اسلامو فوبیا پر مبنی تبصروں کی مذمت کرتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان گہرے تعلقات کے ساتھ ساتھ برطانوی پاکستانیوں کی کاوشوں کو بھی اجاگر کیا۔ ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے یہ بیان ارب پتی امریکی شخص ایلون مسک کی جانب سے ’ایشین گرومنگ گینگز‘ کی اصطلاح استعمال کرنے کے بعد متنازع بحث چھڑنے کے بعد سامنے آیا ہے۔
ایلون مسک نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر جاری بیان میں گرومنگ گینگز کے الفاظ کے ساتھ برطانوی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور حکمران جماعت لیبر کے ایک اہم رہنما پر ریپ نسل کشی کے حوالے سے معذرت خواہانہ رویہ رکھنے والا شخص ہونے کا الزام لگایا اور انھیں اور برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر کو جیل بھیجنے کا مطالبہ کیاتھا۔بھارت کی ادھو ٹھاکرے کی زیر سربراہی انتہا پسند ہندو جماعت شیو سینا کی رہنما پرینکا چترویدی نے ایکس پر لکھا کہ ’میرے بعد دہرائیں، وہ ایشین گرومنگ گینگز نہیں بلکہ پاکستانی گرومنگ گینگ ہیں‘ اس پر ایلون مسک نے اپنے جوابی ریمارکس میں اپنی حمایت کا اشارہ دیتے ہوئے کہا ’یہ سچ ہے‘۔
اب مسک کا بیانیہ ان ریاستوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا رہا ہے جنھیں امریکا سٹریٹجک طور پر کمزور تصور کرتا ہے۔ مغرب میں انتہائی دائیں بازو کی حکومتیں ممکنہ طور پر ٹرمپ انتظامیہ کو فائدہ پہنچائیں گی۔ یورپی یونین میں بھی مسک پر اب تک فرانس، جرمنی اور ناروے نے سیاست میں مداخلت کا الزام لگایا ہے۔ کینیڈا میں انتہائی دائیں بازو کا عروج سکھوں کو کمزور کرتا ہے۔ پاکستانی برطانیہ میں سب سے بڑی مسلم تارکین وطن نسل ہیں۔ دونوں صورتوں سے ہندوستان کو فائدہ ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ ٹرمپ انتظامیہ میں ہندوستانی نژاد افراد کی تقرریاں اور ان کا ممکنہ اثر و رسوخ بھی ہے۔
گرومنگ گینگز کی اصطلاح برطانیہ کے کئی قصبوں اور شہروں میں لڑکیوں کے ساتھ بڑے پیمانے پر بدسلوکی کے واقعات رپورٹ ہونے کے بعد ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصہ قبل سامنے آئی تھی۔ ان واقعات کے حوالے سے عدالتی فیصلوں میں درجنوں افراد کو سزائیں سنائی گئیں، مجرموں میں زیادہ تر جنوبی ایشیائی مسلمان تھے جبکہ متاثرین زیادہ تر سفید فام لڑکیاں تھیں۔اس اسکینڈل کو انتہائی دائیں بازو کی شخصیات خاص طور پر ٹومی رابن سن نے، جو ایک نمایاں انتہا پسند، اشتعال انگیز شخص ہیں، خوب اچھالا۔
بین الا قوامی سطح پر یونیسیف رپورٹ کرتا ہے کہ بچوں کا جنسی استحصال ایک عالمی مسئلہ ہے جس کے مجرم اکثر نسلی پس منتظر سے بہت مختلف ہوکر معاشی و سماجی عوامل کی بنا پر جرائم کرتے ہیں۔ اس لیے یہ مسئلہ کسی ایک گروہ سے منسلک نہیں کیا جا سکتا، جیسا کہ دنیا بھر کے ممالک میں دیکھا جا سکتا ہے۔نیشنل پولیس چینلز کو نسل کے ڈیٹا سے پتا چلتا ہے کہ 2024ء میں ’گروپ بینڈ ‘ بچوں کے استحصال کے مجرم سفید فام تھے، جو حالیہ آنلائن مہمات کو چیلنج کرتا ہے جو پاکستانی مردوں کو گرو منگ گینگز سے جوڑ رہی ہیں۔برطانوی اخبار دی انڈ پینڈنٹ کے مطابق، پولیس چیف کی جانب سے ظاہر کر دہ ڈیٹا مکمل نہیں کیونکہ پولیس کے پاس 2024ء کے پہلے نو ماہ میں صرف 39 مشتبہ افراد کی معلومات ہیں۔