ریو یو ججمنٹ اینڈ آرڈر ایکٹ کالعدم ، آئین سے متصادم : سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے ریویو آف ججمنٹ اینڈ آرڈر ایکٹ 2023ءکو کالعدم قرار دیدیا ہے۔ ریویو آف ججمنٹ اینڈ آرڈر ایکٹ کیخلاف درخواستوں پر تین رکنی بینچ نے متفقہ فیصلہ جاری کردیا۔ تفصیلی فیصلے میں عدالت نے قرار دیا کہ یہ ایکٹ آئین پاکستان سے واضح طور پر متصادم ہے۔ پارلیمنٹ ایسی قانون سازی کا اختیار ہی نہیں رکھتی۔ آئینی اور قانونی ماہرین کے مطابق سابق وزیراعظم نوازشریف اور جہانگیر خان ترین کیس میں اس فیصلے کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ سپریم کورٹ ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کا تحریری حکمنامہ بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے 87 صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریر کیا ہے۔ فیصلے کے مطابق نظرثانی کو محض عمومی قانون سازی سے اپیل میں نہیں بدلا جاسکتا، آئینی ترمیم کے ذریعے ہی ایسا ممکن ہے۔ سپریم کورٹ ریویو ایکٹ کی کوئی قانونی حثیت نہیں، آئینی عدالتوں کا فرض ہے کہ وہ آئین کا تحفظ اور دفاع کریں، عدالتوں کو آئین کی حکمرانی قائم کرنے کا اختیار دیا گیا، قانون آئین کے مطابق ہے یا نہیں؟ اس عدالتی اختیار کو بہت احتیاط کے ساتھ استعمال کرنا پڑتا ہے۔ ریویو ایکٹ کی شق 2 میں کہا گیا نظرثانی کو اپیل جیسا درجہ ہوگا، یہ قانون نظرثانی کا دائرہ وسیع کرنے تک محدود نہیں تھا، اس قانون میں پورا دائرہ اختیار بدلا گیا۔ کسی بھی قانون کو کالعدم قرار دینے کے اختیار کو انتہائی احتیاط سے استعمال کرنا چاہیے اور ایک قانون کو اس وقت کالعدم قرار نہیں دینا چاہیے جب اس کی شقیں آئین سے ہم آہنگی رکھتی ہوں۔ ریویو آف ججمنٹ آئین پاکستان سے متصادم ہے، یہ ممکن نہیں ہے کہ اس قانون کو آئین سے ہم آہنگ قرار دیا جائے۔ ہم نے آئین کا تحفظ اور دفاع کا حلف اٹھا رکھا ہے۔ ریویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ کو اس طرح بنایا گیا جیسے آئین میں ترمیم مقصود ہو، اگر اس قانون کے تحت اپیل کا حق دے دیا گیا تو مقدمہ بازی کا ایک نیا سیلاب امڈ آئے گا، سائیلن سپریم کورٹ سے رجوع کرنا شروع کر دیں گے اس بات کو سامنے رکھے بغیر کہ جو فیصلے دئیے گئے ان پر عملدرآمد بھی ہو چکا۔ فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار سے متعلق قانون سازی نہیں کر سکتی۔ طے شدہ اصول ہے کہ سادہ قانون آئین میں تبدیلی یا اضافہ نہیں کر سکتا اور سپریم کورٹ رولز میں تبدیلی عدلیہ کی آزادی کے منافی ہے۔ تحریری فیصلے میں مزیدکہا گیا کہ ہمارے ذہنوں میں کوئی شک نہیں کہ مجوزہ قانون کا اصل مقصد آرٹیکل 184/3 کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق دینا تھا، اس سوال کا جواب کہ پارلیمنٹ بینچز کی تشکیل سے متعلق قانون بنا سکتی ہے نفی میں ہوگا۔ فیصلے میں جسٹس منیب اختر کا نوٹ بھی شامل جو کہ 30 صفحات پر مشتمل ہے۔ جسٹس منیب اختر نے اپنی اضافی نوٹ میں لکھا ہے کہ مختلف فیصلوں کا جائزہ لینے سے تین اہم نکات سامنے آتے ہیں، پہلے نکتے کے مطابق نظرثانی اپیل نہیں ہو سکتی، دوسرا نکتہ مقدمات کے حتمی ہونے کا ہے اور تیسرا اہم نکتہ نظر ثانی کے محدود ہونے کا ہے۔ اضافی نوٹ میں مزید لکھا ہے کہ سیکشن 2 میں دیا گیا اپیل کا حق آئین کے آرٹیکل 188 کے بر خلاف ہوگا اور موجودہ ایکٹ کے بعد 184 کے مقدمات میں کبھی فل کورٹ نہیں بن سکے گا۔ اہم مقدمات میں فل کورٹ کی تشکیل نہ ہونا سپریم کورٹ کے انتہائی اہم اصول کو ختم کرتا ہے۔ چیف جسٹس کا بینچ کی تشکیل کا اختیار انصاف کی فراہمی کے لیے اہم ہے، ایکٹ کا سیکشن 2 اور 3 آئین کے ایک سے زائد آئینی اصولوں کے بر خلاف ہے۔ ایکٹ کے سیکشن 3، 2 آئین کے آرٹیکل 188 میں دیے اختیار سے بھی متصادم ہیں۔ نوٹ میں لکھا ہے کہ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کا سیکشن 2 آئین کے آرٹیکل 185 کے مطابق نہیں، کیا پارلیمان کی طرف سے ہدایت کی جا سکتی کہ نظرثانی کو اپیل جیسا سمجھا جائے؟۔ اصول ہے عدالت میں پہلے سے طے ہو چکا معاملہ دوبارہ نہیں اٹھایا جا سکتا، نظرثانی کا دائرہ اختیار اسی اصول کے ساتھ جڑا ہے۔ آئینی اور قانونی ماہرین کے مطابق سابق وزیر اعظم نوازشریف اور جہانگیر خان ترین کیس میں اس فیصلے کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ کیونکہ پارلیمان الیکشن ایکٹ کے اندر ترمیم کے ذریعے ایک شق شامل کرچکی ہے جس کے مطابق 62 ون ایف کے تحت سزا یافتہ شخص کی نااہلی 5 سال کے لیے ہوگی۔سابق وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ پارلیمان کے اختیارات میں بار بار مداخلت اچھی روایت نہیں، یہ اداروں کو مضبوط نہیں کمزور کرتی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے پر ردعمل میں انہوں نے کہا ہے کہ آئین نے نظام کو چلانے کیلئے ایک طریقہ وضع کیا ہے، عدالت کا کام کیسز کا فیصلہ کرنا ہے، لوگوں کو انصاف فراہم کرنا ہے، آئین کہتا ہے کہ آپ اپنی مرضی کا وکیل رکھ سکتے ہیں۔ کل پارلیمان تحلیل ہوئی اور اس کے بعدیہ فیصلہ جاری کیا گیا، اس فیصلے پر ریویو کی آپشن بالکل ہے، 30دن کے اندر اندر ریویو فائل کرسکتے ہیں۔ اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ دوسری آپشن یہ ہے کہ آنے والی اسمبلی اس پر دوبارہ قانون سازی کا سوچے۔ ان کا کہنا تھا کہ نوازشریف کے کیسز کا معاملہ اس سے بالکل الگ ہے، سیاست میں حصہ لینا بنیادی حق ہے، الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد نااہلی کی سزا پانچ سال سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔ ن لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 62 کے تحت سزا پر نااہلی کی زیادہ سے زیادہ مدت 5سال ہوگی، نوازشریف اور دیگر لوگ جن کو 3/184 کے کیسز میں تاحیات نااہل کیا گیا تھا وہ الیکشن ایکٹ 232کے تحت 5 سال بعد اہل ہوچکے ہیں۔ انہوں نے کہا تاثر جاتا ہے کہ پارلیمان کی غیرموجودگی کا فائدہ اٹھایا گیا۔ یہ قانون بار کونسلز اور بار ایسوسی ایشنز کا پرانا مطالبہ تھا۔ سمجھ سے بالاتر ہے جس ڈاکٹر سے شفاءنہیں مل رہی‘ کہا جا رہا ہے دوسرا آپریشن بھی اسی سے کرایا جائے۔ پارلیمان 184/3 کے تحت سزا پر نااہلی 5 سال کرنے کا قانون منظور کر چکی۔ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد نااہلی 5 سال سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔ قتل یا ریپ کیسز میں سزا ہوتی ہے تو سزا کے 5 سال بعد سے آ گے نااہلی نہیں جاتی۔