اسلام آباد:(ملت آن لائن) وفاقی تحقیقاتی ادارے (نیب) کا کہنا ہے کہ وزیرِ مملکت برائے سمندر پار پاکستانی سید زلفی بخاری غیر قانونی جائیداد سے متعلق کیس میں تفتیش کاروں کے ساتھ تعاون نہیں کر رہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے زلفی بخاری کی جانب سے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے سے متعلق درخواست کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران نیب نے اپنا جواب جمع کروایا جس میں انہوں نے عدالت کو بتایا کہ بیورو کی جانب سے وفاقی وزیرِ مملکت پر کرپشن کے الزامات اور غیر قانونی جائیداد سے متعلق نیب آرڈیننس 1999 کے تحت انکوائری کا آغاز کیا۔
خصوصی پراسیکیوٹر نیب عمران شفیق نے عدالت میں پیش ہوکر جسٹس عامر فاروق کو آگاہ کیا کہ نیب کی درخواست پر 4 اگست کو وزارتِ داخلہ نے زلفی بخاری کا نام ای سی ایل میں ڈالا جبکہ ان کے خلاف نامعلوم ذرائع آمدن سے جائیداد بنانے کا الزام ہے۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ درخواست گزارنے تفتیش کاروں کے سامنے پیش ہونے سے گریز کیا اور خود کو انکوائری سے متعلق کارروائی سے بھی دوررکھا۔
نیب کے جواب میں کہا گیا کہ زلفی بخاری کا انکوائری کے دوران ملک سے باہر جانے کے خدشات تھے اس لیے ان کا نام وزارت داخلہ کی درخواست پر ای سی ایل میں ڈالا گیا تاکہ انکوائری سے متعلق کارروائی کے دوران ان کی پیشی کو یقین بنایا جاسکے۔
وزیرِ مملکت کے خلاف جاری انکوائری سے متعلق اس جواب میں کہا گیا کہ پاناما پیپرز میں یہ انکشاف ہوا تھا کہ درخواست گزار نے برٹش ورجن آئی لینڈ (بی وی آئی) میں ایک آف شور کمپنی بنائی ہوئی ہے۔
جواب میں کہا گیا کہ رواں برس کے آغاز میں چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے زلفی بخاری کے خلاف کرپشن، غیر قانونی ذرائع آمدن سے جائیداد بنانے اور آف شور کمپنی سے متعلق تحقیقات کرنے کا حکم دیا تھا۔
نیب نے عدالت کو بتایا کہ زلفی بخاری اور ان کے اہلِ خانہ کے نام پر کے فیکٹر، بروڈبری، بے ٹیک لمیٹڈ، بیلا ٹریڈنگ، پوئیم ٹریڈنگ اور جینسٹم ٹریڈنگ لیمیٹڈ انکارپوریٹڈ نامی کمپنیاں 2006 سے بی وی آئی میں موجود ہیں۔
جواب میں کہا گیا کہ یہ کمپنیاں بی وی آئی میں بنائی گئیں لیکن پاکستان میں متعلقہ حکام کو ان سے متعلق نہیں بتایا گیا۔
نیب نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ زلفی بخاری کو 4 مرتبہ طلبی کے نوٹسز جاری کیے جاچکے ہیں لیکن انہوں نے جان بوجھ کر انکوائری میں شامل ہونے سے انکار کیا۔
زلفی بخاری نے عدالتِ عالیہ میں اپنا نام ای سی ایل سے خارج کرنے کے حوالے سے جمع کروائی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا تھا کہ وہ پاکستانی نژاد برطانوی شہری ہیں اور ان کی بیوی اور بچے برطانوی شہری ہیں جبکہ ان کے کاروبار بھی وہیں سے چلائے جاتے ہیں۔
درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ زلفی بخاری انکوائری ٹیم کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں لیکن یہ جان کر حیران ہیں کہ ان کا نام ای سی ایل میں کیوں شامل کیا گیا۔
زلفی بخاری نے کہا کہ قانون کے مطابق اگر وفاقی حکومت کی جانب سے یہ فیصلہ لیا جاتا ہے تو متاثر شخص کے پاس اس کا جائزہ لینے کی درخواست کا حق ہوتا ہے، تاہم 2 ماہ گزر جانے کے باوجود نہ ہی اسے وفاقی کابینہ کے سامنے پیش کیا گیا اور نہ ہی وفاقی حکومت نے اس سے متعلق کوئی فیصلہ لیا۔
احتساب عدالت کے جسٹس عامر فاروق نے کیس کی سماعت 27 نومبر تک ملتوی کردی۔