خبرنامہ

زینب قتل کیس کے مجرم عمران کو 17 اکتوبرکو پھانسی دی جائے گی

لاہور: زینب زیادتی و قتل کیس کے مجرم عمران کے ڈیتھ وارنٹ جاری کردیئے گئے جس کے تحت مجرم کو 17 اکتوبر کو پھانسی دی جائے گی۔

لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت کے جج شیخ سجاد احمد کے روبرو پراسیکیوٹر عبدالرؤف وٹو نے دلائل دیئے جس کے بعد عدالت نے مجرم عمران کے ڈیتھ وارنٹ جاری کیے۔

عدالت سے جاری ڈیتھ وارنٹ کے مطابق قصور کی 7 سالہ زینب کے اغوا، زیادتی اور بہیمانہ قتل کے مجرم عمران کو17 اکتوبر کو سینٹرل جیل لاہور میں پھانسی دی جائے گی اور مجرم کو مجموعی طور پر 21 بار سزائے موت کا حکم دیا گیا ہے۔

عدالت نے کائنات بتول کیس میں مجرم عمران کو 3 بار عمر قید اور23 سال قید کی سزاسنائی ہے۔

اس کے علاوہ عدالت نے مجرم کو 25 لاکھ روپےجرمانہ اور 20 لاکھ 55 ہزار روپے دیت ادا کرنے کا بھی حکم دیا۔

عدالت زینب سمیت 7 بچیوں تحمینہ، ایمان فاطمہ، عاصمہ، عائشہ آصف، لائبہ اور نور فاطمہ کےقتل کیس کا فیصلہ بھی سناچکی ہے۔

زینب قتل کیس—کب کیا ہوا؟

رواں برس کے آغاز میں پنجاب کے ضلع قصور سے اغواء کی جانے والی 7 سالہ بچی زینب کو زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا تھا، جس کی لاش 9 جنوری کو ایک کچرا کنڈی سے ملی تھی۔

زینب کے قتل کے بعد ملک بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور قصور میں پرتشدد مظاہرے پھوٹ پڑے جس کے دوران پولیس کی فائرنگ سے 2 افراد جاں بحق بھی ہوئے۔

بعدازاں چیف جسٹس پاکستان نے واقعے کا از خود نوٹس لیا اور پولیس کو جلد از جلد قاتل کی گرفتاری کا حکم دیا۔

23 جنوری کو پولیس نے زینب سمیت قصور کی 8 بچیوں سے زیادتی اور قتل میں ملوث ملزم عمران کی گرفتاری کا دعویٰ کیا۔

اگلے ہی ماہ یعنی 17 فروری کو لاہور کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے قصور کی 7 سالہ زینب سے زیادتی و قتل کے مجرم عمران کو 4 بار سزائے موت سنادی تھی، جسے ملکی تاریخ کا تیز ترین ٹرائل قرار دیا گیا تھا۔

انسداد دہشت گردی عدالت نے مجرم عمران کو کُل 6 الزامات کے تحت سزائیں سنائی تھیں۔

مجرم عمران کو ننھی زینب کے اغوا، زیادتی اور قتل کے ساتھ ساتھ انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7 کے تحت 4،4 مرتبہ سزائے موت سنائی گئی۔

دوسری جانب عمران کو زینب سے بدفعلی پر عمرقید اور 10 لاکھ روپے جرمانے جبکہ لاش کو گندگی کے ڈھیر پر پھینکنے پر7سال قید اور 10 لاکھ جرمانےکی سزا بھی سنائی گئی تھی۔

مجرم کی جانب سے سزا کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں اپیل بھی دائر کی گئی تاہم 20 مارچ کو عدالت عالیہ نے یہ اپیل خارج کردی تھی۔