شنگھائی کانفرنس ،پاکستان کیلئے قابل فخر اعزاز
اسد اللہ غالب….انداز جہاں
شنگھائی تعاون تنظیم(ایس سی او)کی دو روزہ سربراہی اجلاس کل سے پاکستان کے دارالحکومت اسلام آبا د میں شروع ہو رہی ہے۔سربراہی کانفرنس میں شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک بشمول بھارت، پاکستان، چین، روس، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ازبکستان اور ایران کے اعلیٰ سطح کے سرکاری وفود شرکت کریں گے۔ 12 ملکوں کے سربراہان پاکستان تشریف لارہے ہیں، اس سے پاکستان کی عزت و تکریم میں بین الاقوامی سطح پر اضافہ ہوگا اوراس امر میں کوئی شک نہیں کہ ایس سی او سربراہ کانفرنس کی میزبانی پاکستان کیلئے ایک قابل فخراعزاز ہے۔ممبر ممالک کے وفود پاکستان پہنچنا شروع ہو گئے ہیں۔جس میں چین، روس اور بھارت سمیت دیگر ممالک کے نمائندے شامل ہیں۔
شنگھائی تعاون تنظیم(ایس سی او) ایک یوریشین سیاسی، اقتصادی، بین الاقوامی سلامتی اور دفاع کے حوالے سے اہم تنظیم ہے،جسے چین اور روس نے 2001 میں قائم کیا۔ یہ جغرافیائی دائرہ کار اور آبادی کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی علاقائی تنظیم ہے، جو یوریشیا کے تقریباً 80فیصد رقبے اور دنیا کی 40فیصد آبادی پر محیط ہے۔ آبادی اور جی ڈی پی کے لحاظ سے شنگھائی تعاون تنظیم اقوام متحدہ کے بعد سب سے بڑا فورم ہے۔پہلے تو شنگھائی تعاون تنظیم دہشت گردی کے خاتمے اور معاشی ترقی جیسے امور پر زیادہ فوکس کرتی تھی ، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کا دائرہ کار بھی وسیع ہوتا چلا گیاہے ۔ 2023ء تک یہ دنیا کی مجموعی جی ڈی پی کا تقریباً 32 فیصد تھی۔ شنگھائی سربراہ کانفرنس کامیزبان ملک پاکستان، جو اس تقریب کے لیے ایس سی اوکونسل آف ہیڈز آف گورنمنٹ (CHG) کی گردشی چیئرمین شپ رکھتا ہے۔ پاکستان کی بے عیب میزبانی میںسربراہ کانفرنس کا مقصدمختلف پہلوئو ں کو مثبت طور پر اجاگر کرنا ہے۔ پاکستان کا اقتصادی اور علاقائی رابطہ، پاکستان کی سفارتی مطابقت اور ساکھ، قابل اعتماد سیکورٹی، پاکستان کو غیر محفوظ اور ناکام ریاست کی تصویر کشی کرنے والے دشمن عناصر کے منفی پروپیگنڈہ کو ختم کرناشامل ہے۔
سربراہی اجلاس میں موجود عالمی رہنما رکن ممالک کے درمیان تعاون کو مزید بڑھانے اور بین الحکومتی ادارے کے بجٹ کو بہتر بنانے کے لیے تنظیمی فیصلے اپنائیں گے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں معیشت، تجارت، ماحولیات، سماجی و ثقافتی روابط کے شعبوں میں تعاون پر تبادلہ خیال کے ساتھ ساتھ تنظیم کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے گا۔ سربراہی اجلاس رکن ممالک کے درمیان کثیر جہتی تعاون کو بڑھانے پر توجہ مرکوز کرے گا، علاقائی اور بین الاقوامی اہمیت کے اہم موضوعات پر بات چیت کرے گا۔ اقتصادی تعاون پرگفتگو و شنید ہوگی، جس میں تجارت اور سرمایہ کاری کے اقدامات شامل ہیں۔ کانفرنس میں دہشت گردی کا مقابلہ کرنے اور علاقائی استحکام کو بڑھانے سمیت سیکورٹی کے خدشات کو دور کیا جائے گا۔پاکستان میں سربراہی اجلاس کا بڑامقصد علاقائی استحکام کو مضبوط بنانا اور جاری تنازعات کو حل کرنا ہے۔سربراہی اجلاس سے پہلے رکن ممالک کے درمیان مالی، اقتصادی، سماجی، ثقافتی، اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر تعاون پر توجہ مرکوز کرنے والی وزارتی اور سینئر حکام کی ملاقاتیں ہوں گی۔ ایس سی او میں ہندوستان کی شرکت ایک نازک توازن کا عمل ہے، جو تنظیم کے اندر چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے ہوشیار رہنے کے خلاف علاقائی سلامتی کے تعاون کی ضرورت کو وزن دیتا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کی اقتصادی حکمت عملیوں میں شامل ہو کر، ہندوستان ایک اہم نقطہ نظر پر عمل پیرا ہے جس کا مقصد وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ تعمیری تعلقات کو فروغ دیتے ہوئے چینی تسلط کا مقابلہ کرنا ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے اس اہم اجلاس کے موقع پر سائیڈ لائن پر ہونے والی ملاقاتوں میں پاکستان کے لیے بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ روس کے نائب وزیر اعظم ابھی پاکستان سے ہو کر گئے ہیں ، روسی صدر سے ان کے دورے پر ہونے والی پیش رفت کو مزید پختہ کرنے پر بات ممکن ہے۔ چینی قیادت کا دہشت گرد حملوں کے بعد پاکستان آنا سی پیک کے منصوبوں کی ساکھ کو بہتر کرے گا۔ پاکستان اور چین کی قیادت حالیہ دہشت گردی کے حوالے سے بھی اپنے نوٹس شیئر کریں گے۔یہ کانفرنس دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کی کوششوں کو علاقائی تعاون دے سکتی ہے۔ اس سفارتی کامیابی سے پاکستان کو ممبر ممالک سے روابط بڑھانے اور باہمی تعاون کی راہیں تلاش کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
اس موقع پروزیراعظم محمد شہبازشریف نے کہا ہے کہ پاکستان کی معیشت مثبت سمت میں گامزن ہے۔ اب چین کے وزیراعظم دو طرفہ دورے پر پاکستان آ رہے ہیں۔ وزیراعظم نے کہاکہ شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس کے لئے ہر ممکنہ حفاظتی اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔لیکن اس کو بدقسمتی ہی سمجھئے کہ پاکستان کی ایک سیاسی جماعت تحریک انصاف نے حسب سابق، حسب ِ معمول شر پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس اہم موقع پر وفاقی دارالحکومت کے مرکز ڈی چوک میں احتجاج کا اعلان کردیا ہے۔ دوسری طرف وفاقی وزیراطلاعات و نشریات عطااللہ تارڑ نے حکومت کی طرف سے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کی سربراہ کانفرنس خوش اسلوبی سے آگے چلے گی، شرپسند عناصر کو رخنہ ڈالنے کا موقع نہیں ملے گا، ہم مہمانوں کا استقبال کرنے کیلئے تیار ہیں۔انہوں نے شر پسند عناصر پر واضح کردیا ہے کہ سازشی ذہنیت والوں کو گھر بیٹھ کرسکون کرنا چاہیے، سکیورٹی انتظامات مکمل ہیں،ایس سی او اجلاس کی سکیورٹی کیلئے اسلام آباد میں فوج، رینجرز اور پولیس کے چاق وچوبند دستے تعینات ہیں، جو 17 اکتوبر تک موجودرہیں گے۔
اس وقت پاکستان کو دہشت گردی کی دلدل میں دھکیلنے اور پاکستان کی معیشت کو تباہ کرنے والے دشمنوں کے خلاف پوری قوم کو متحد ہونے کی ضرورت ہے۔تحریک انصاف کی لیڈرشپ کو سوچنا اور دیکھنا چاہیے کہ وہ کہیں دانستہ یا نادانستہ خدانخواستہ پاکستان کے دشمنوں کے ہاتھ تو مضبوط تو نہیں کر رہی۔دشمن شنگھائی تعاون تنظیم سمٹ کو سبوتاژ کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے، لہٰذا شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس کو کامیاب بنانے کے لیے وسیع تر قومی اتحاد کی ضرورت ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پی ٹی آئی تخریب و انتشار کی سیاست ترک کر کے قومی تعمیر کی طرف آئے۔ملک کے تمام سیاسی مسائل پارلیمنٹ میں حل ہونے چاہئیں جو کچھ ہو رہا ہے ، وہ بہرحال ملک وقوم اورمعاشرے کے لیے نقصان دہ ہے۔ آج قومی افہام و تفہیم کی شدید ضرورت ہے۔ ملک اور سسٹم کی بقا و استحکام ہرمحب وطن سیاسی جماعت کی اولین ذمہ داری ہونی چاہیے۔