اسلام آباد: تھر کول پاور پراجیکٹ سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے آڈیٹرجنرل کو فرانزک آڈٹ کا حکم دیتے ہوئے 15 روز میں رپورٹ طلب کرلی۔
تفصیلات کے مطابق تھرکول پاورپراجیکٹ سے متعلق کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں ہوئی۔ وکیل نیب اصغر حیدرنے رپورٹ پیش کر دی۔ سائنسداں ثمرمبارک بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ دیکھنا ہے کہیں ان منصوبوں میں خرد برد تو نہیں ہوئی۔ نیب کے وکیل نے کہا کہ انجینئرز نے کہا زیر زمین گیسی فکیشن سے بجلی بنانا ممکن نہیں۔
عدالتی معاون نے کہا کہ جنہوں نے ڈاکٹر ثمرمبارک کے منصوبے کی منظوری دی انہیں دیکھنا چاہیئے تھا، ماہرین کے مطابق منصوبے سے زیر زمین پانی کی سطح کم ہوگی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کہاں گئے ڈاکٹر ثمر مند مبارک کے دعوے؟ کیا معاملہ ایف آئی اے کو نہ بھیج دیں یا اس کی نئے سرے سے تحقیقات کروائی جائیں۔
انہوں نے کہا کہ بہت شور مچایا گیا کہ ایسا کام کردیا جو آج تک کسی سائنسدان نے نہیں کیا، 100 میگا واٹ منصوبے سے 3 میگا واٹ بجلی بھی نہیں مل رہی، پاکستان غریب ملک ہے کیا پیسہ اس طرح ضائع کرنا ہے۔ پاکستان اور سندھ کا نقصان ہوگیا۔
سماعت میں عدالتی معاونین سلمان اکرم راجہ اور شہزاد الٰہی کی تجاویز جمع کرلی گئیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وفاقی اور سندھ حکومت کی کیا پوزیشن ہے؟
ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ پراجیکٹ کا سارا پیسہ وفاقی حکومت نے دیا، منصوبے کی زمین سندھ حکومت کی ہے۔
ڈاکٹر ثمر مبارک نے کہا کہ منصوبے میں کوئی ماحولیاتی آلودگی نہیں ہوئی، وکیل اس منصوبے کے بارے میں نہیں بتا سکتے۔ آسٹریلیا کی کمپنی بھی زیرزمین گیسی فکیشن کر رہی تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے پتہ تھا یہی کہیں گے۔ عدالت نے منصوبے کی تحقیقات نیب کے سپرد کردیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جب ثمرمبارک نے دعوے کیے تو رومانس ہوگیا، کہا گیا کہ مفت بجلی ملے گی، 4 ارب کا نقصان کردیا گیا۔ پہلے اس منصوبے کا آڈٹ کروا لیتے ہیں۔
عدالت نے آڈیٹر جنرل کو فرانزک آڈٹ کا حکم دیتے ہوئے 15 دن میں رپورٹ طلب کرلی۔
عدالت نے حکم جاری کیا کہ چیف سیکریٹری سندھ منصوبے سے متعلق اشیا تحویل میں لے لیں۔