خبرنامہ

فواد چوہدری کےبیان پرنوازشریف کے وکلا کی عدالت سے نوٹس جاری کرنے کی استدعا

اسلام آباد:(ملت آن لائن) احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے وکلا نے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے بیان کا معاملہ عدالت کے سامنے رکھ دیا، جس پر عدالت نے وکلا کو تحریری درخواست دائر کرنے کی ہدایت کردی۔

وفاقی دارالحکومت کی احتساب عدالت میں جج ارشد ملک نے نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کی، اس دوران نواز شریف وکیل خواجہ حارث اور زبیر خالد نے فواد چوہدری کے بیان کی طرف توجہ مبذول کرائی۔

زبیر خالد نے عدالت میں کہا کہ ایک وزیر بیٹھے ہیں جو آپ سے متعلق اور نواز شریف کی گرفتاری سے متعلق بیان دے رہے ہیں، یہ آپ کی حدود میں آتا ہے آپ کو ایکشن لینا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ایک وزیر کو کیسے الہام ہوگیا کہ نواز شریف 100 فیصد جیل جائیں گے، ان کے پاس کون سی چڑیا ہے یا انہیں خواب آتا ہے۔

وکیل کا کہنا تھا کہ اس بیان کا نوٹس نہ لیا گیا تو عدالت کے لیے بھی مسئلہ بنے گا، اس پر جج ارشد ملک نے استفسار کیا کہ کیا وزیر نے عام فہم بات کی یا خاص طور عدالت سے متعلق بیان دیا ہے؟

جج ارشد ملک نے کہا کہ کوئی جو مرضی کہے فیصلہ عدالت نے کرنا ہے، آپ ابھی جرح شروع کریں اس بیان کو دیکھتے ہیں کہ کیا کرنا ہے۔

اس پر نواز شریف کے وکلاء نے استدعا کی کہ عدالت فواد چوہدری کو فوری طور پر نوٹس جاری کرے، جس پر جج ارشد ملک نے وکلاء کو تحریری درخواست دائر کرنے کی ہدایت کردی۔

ساتھ ہی عدالت نے ہدایت کی کہ درخواست کے ساتھ اخبار کا تراشہ بھی منسلک کیا جائے، اگر فواد چوہدری کو نوٹس جاری کرنا پڑا تو کریں گے۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے نجی ٹی وی کے پروگرام میں ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ’ نواز شریف 100 فیصد دوبارہ جیل جائیں گے‘۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’کیسز آپ کے سامنے ہیں، ہل میٹل کیس کے حقائق سامنے ہیں، جس میں نواز شریف دبئی ایک ایف زیڈ ہی کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’ایف زیڈ ای کمپنی سے ہل میٹل کو پیسے دیے جاتے ہیں، جہاں سے وہ ایک ڈارئیور، باورچی اور گارڈ کے پاس آتے ہیں، پھر یہ 80 کروڑ روپے کی رقم مریم نواز کے اکاؤنٹ میں چلی جاتی ہے‘۔

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ یہاں وزیراعظم کہتے ہیں کہ چوروں اور ڈاکوؤں کو نہیں چھوڑوں گا تو اپوزیشن حکومت کے خلاف کھڑی ہوجاتی ہے۔

واضح رہے کہ فواد چوہدری کے اس بیان کو بعد ازاں مقامی اخبارات نے بھی شائع کیا تھا، جس کا معاملہ عدالت میں اٹھایا گیا۔