گزشتہ دو ہفتوں میں آرمی چیف کے بارے میں ، میں نے دو کالم لکھے ، ایک کالم امریکی سنٹرل کمان کی طرف سے پاکستانی آرمی چیف کو تحسین کے حوالے سے لکھا گیا ، دوسرے کالم میں ، میں نے ان کے کارناموں کا شاہنامہ بیا ن کیا۔ جس روز یہ کالم شائع ہوا ،اسی روز کسی نے فون پر بتایا کہ آپ کی سنی گئی ہے اور آرمی چیف کو دو سال کی توسیع مل گئی ہے۔ مجھے اس بات میں کوئی وزن محسوس نہیں ہوا کیونکہ توسیع کا فیصلہ کالم کی اشاعت سے ایک روز قبل ہوا تھا۔ اس لیے میرا اس میں کوئی عمل دخل نہیں۔ مگر میری خواہش ضرور تھی کہ موجودہ آرمی چیف اچھا کام کررہے ہیں ، لہٰذا انھیں تین سال کے بعد گھر نہ بھیجا جائے بلکہ ملک و قوم کی خدمت کا مزید موقع فراہم کیا جائے۔ میں نے خبر کو مزید کریدا تو پتا چلا کہ صرف آرمی چیف کو نہیں بلکہ مسلح افواجِ پاکستان کے تینوں سربراہان کی ملازمت میں توسیع کردی گئی ہے اور آئندہ وہ تین سال کی بجائے پانچ سال بعد ریٹائرڈ ہوں گے۔ یہ ایک اچھا فیصلہ ہے کیونکہ فوج کے سربراہ کے پہلے چھے مہینے تو کور ہیڈکوارٹرز کے دوروں میں صرف ہوجاتے ہیں۔ آخری چھے ماہ میں وہ الوداعی ملاقاتوں میں مصروف ہوجاتے ہیں ، ا س طرح عملی طور پر ان کو اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے صرف دو سال ملتے تھے۔
ماضی میں بھی اچھی شہرت کے حامل فوجی سربراہوں کو توسیع ملازمت ملتی رہی ہے ، لیکن اس کے لیے بڑا رن پڑتا ہے اور قوم کو تقسیم کرنے والے اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ماضی کی تاریخ میں ایوب خان ، ضیاءالحق اور پرویز مشرف ایک طویل عرصے تک فوج کی کمان کرتے رہے ہیں۔ مارشل لاءکی وجہ سے وہ اس پوزیشن میں تھے کہ اپنے آپ کو خود ہی توسیع دیتے رہیں۔ ایوب خان کے طویل دور میں ملک نے تیزی سے صنعتی ترقی کی۔ ضیاءالحق نے بھی اپنا وقت فضول کاموں میں صرف نہیں کیا بلکہ ایک طرف تو ایٹمی پروگرام کو فائنل شکل دی اور ایٹم بم کا کولڈ ٹیسٹ بھی کرلیا ، جس کی گواہی امریکی سفیر نے دی نیشن اخبار کی ایک تقریب میں دی۔ جس نے کہا کہ پاکستان سرخ بتی عبور کرچکا ہے۔
دوسری طرف، افغانستان میں سب سے بڑی عالمی جنگ چھڑی ، جسے ضیاءالحق نے آئی ایس آئی کی مدد سے جیت کر دکھایا۔ اس جنگ میں جہاں ایک طرف بگ پاور سوویت یونین روس کی افواج تھیں ، دوسری طرف ان کے مدمقابل مجاہدین کے لشکر تھے۔ جنرل ضیاءالحق نے ایسی ڈپلومیسی سے کام کیا کہ پوری دنیا نے ان مجاہدین کی پشت پناہی کی۔ جدید تاریخ میں روس جیسی دنیا کی ایک بڑی طاقت کو شکست ِ فاش کا سامنا کرنا پڑا۔ یورپ میں اشتراکی یا کمیونسٹ ممالک کے حصے بخرے ہوگئے اور سوویت یونین روس بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا۔ جنرل پرویز مشرف نے بھی کمال کردکھایا ، اس نے نائن الیون کے بعد دہشت گردوں کے خلاف بیس سال تک جنگ لڑی اور دہشت گردوںکو پاش پاش کرکے رکھ دیا۔ جبکہ افغانستان میں نیٹوممالک اور امریکا کی متحدہ افواج دہشت گردوں کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوئیں۔ اس طرح دنیا میں پاکستان کی بلے بلے ہوگئی۔ ہماری ایک بدقسمتی یہ رہی ہے کہ حکومت اور فوج میں ہم آہنگی پیدا نہیں ہوسکی ، بھٹو نے آرمی چیف کو دبوچ کر استعفیٰ لیا اور فضائیہ کے چیف کو بھی مستعفی ہونے پر مجبور کیا۔ بھٹو اپنی مرضی کا آرمی چیف لگانا چاہتے تھے ، اس کے لیے انھوں نے جنرل ضیاءکا نام فائنل کیا۔ مگر انھی کے ہاتھوں بھٹو حکومت کا دھڑن تختہ ہوگیا۔
جنرل ضیاءالحق کے بعد ایک طویل سول دور شروع ہوا مگر دونوں بڑی سیاسی پارٹیاں باہم الجھتی رہیں۔ ایک آرمی چیف کو گھر بھجوادیا گیا ، ان پر الزام تھا کہ حکومتی پالیسی کے خلاف کیوں بیان جاری کیاہے ؟ جنرل پرویز مشرف کے بعد فوج اور سول حکومت کے درمیان چپقلش انتہا کو پہنچ گئی۔ جس سے پاکستان عدم استحکام کا شکار ہوگیا۔ ا س وقت بہرحال فوج اور حکومت کے درمیان بڑی حد تک مفاہمت کی شکل نظر آرہی ہے۔ شاید اسی کے نتیجے میں فوجی سربراہان کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ کیا گیا۔ انسانی تاریخ میں جتنے بھی بڑے جرنیل آئے ، انھوں نے تاحیات اپنے فرائض نبھائے۔ سکندر اعظم، ڈیگال ، منٹگمری کے ساتھ کسی نے چھیڑچھاڑ نہیں کی ، اسی لیے وہ دنیا بھر میں چھائے رہے۔ اسلام میں خلیفہ وقت بھی تاحیات ٹرم کے لیے آتا رہا ہے۔ اگر ان کو بھی کسی ٹرم کا پابند کردیا جاتا تو دنیا میں اسلامی سلطنت کو اس قدر توسیع میسر نہ آتی۔ امریکا میں صدر کی مدت چار سال رکھی گئی ہے لیکن ہر اچھا صدر دوسری ٹرم کے لیے ضرور منتخب ہوا۔ سعودی عرب ، قطر، بحرین ، کویت ، متحدہ عرب امارات کی معاشی خوشحالی کا راز وہاں کے شاہی حکومتی نظام کے تسلسل میں پوشیدہ ہے۔ ہمیں بھی اپنے سسٹم کی اوور ہالنگ کرنی چاہیے۔ سیاسی پارٹیوں کی سوچ میں بلوغت آنا ضروری ہے۔ وہ اگر فوجی تنصیبات پر حملے کریں گی تو سیاست اور حکومت کا ڈانواڈول رہے گا۔ فوج کے سربراہوں کی ٹرم میں اضافے کا فیصلہ بہت اچھا اور قابلِ تحسین ہے مگر اس کے ساتھ پارلیمانی استحکام بھی وقت کی اشد ضرورت ہے۔
میری رائے میں فوجی سربراہان کو تاحیات ٹرم دی جانی چاہیے، اسی طرح پاکستان کی دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کو ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر حکومت کرنے کا حق دیا جائے۔ یہ دونوں پارٹیاں 1970ءسے اب تک باری باری حکومت میں آرہی ہیں ، لیکن ان کی باہمی رسہ کشی کے باعث اب تک وطن عزیز پاکستان میںاب تک دیرپا حکومتی وسیاسی استحکام نہیں آسکا۔ تاہم موجودہ حکومت میں یہ دونوں بڑی پارٹیاں ایک ساتھ کام کررہی ہیں۔ جس سے ملک و قوم کو بڑے بڑے اچھے فوائد مل سکتے ہیں۔ فوج کے سربراہوں کو بھی سکون سے کام کرنے کا موقع ملے تو دنیا کا کوئی دشمن ہمارے ملک وقوم کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ بس آپ اپنی سوچ میں انقلابی تبدیلی کو خوش آمدید کہنے کے لیے تیار رہیں۔
٭….٭….٭