خبرنامہ

قانون ہاتھ میں لینے والوں کوعبرت کا نشان بنادیں گے،شہریار آفریدی

اسلام آباد:(ملت آن لائن) وزیرِ مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی کا کہنا ہے کہ ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے والوں کو رعایت نہیں دی جائے گی، جن لوگوں نے قانون کو ہاتھ میں لیا ہے انہیں عبرت کا نشان بنادیں گے۔

سینیٹ میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے شہریار آفریدی نے کہا کہ سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ دے گی اس کو من و عن نافذ کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔

انہوں کہا کہ عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کے بعد جو دھرنے ہوئے انہیں حکومت نے احسن انداز میں بغیر کسی خون خرابے کے معاہدہ کرکے ختم کروایا، جس کا سہرا وزیرِ مواصلات، نیشنل ہائی وے اینڈ موٹروے اتھارٹی اور دیگر متعلقہ اداروں کو جاتا ہے۔

وزیرِ مملکت کا کہنا تھا کہ معاہدوں کے باوجود کچھ شرپسند عناصر نے قانون کو ہاتھ میں لیا اور ہنگامہ آرائی کی، میں اس ایوان کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ جنہوں نے قانون کو ہاتھ میں لیا ان میں سے ایک کو بھی معاف نہیں کیا جائے گا بلکہ انہیں عبرت کا نشان بنادیا جائے گا۔

شہریار آفریدی نے بتایا کہ جب جلاؤ گھیراؤ کی ویڈیوز تحریک لبیک کو دکھائی گئیں تو انہوں نے شرپسندوں سے لاتعلقی کا اعلان کردیا۔

انہوں نے کہا کہ تحریک لیبک کے لا تعلقی کے اعلان کے بعد مثالی اقدامات کیے گئے جن میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے)، سائبر کرائم، ڈفنس سائبرکرائم، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے تمام ڈیٹا اور فوٹیجز کو جمع کر لیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) سے شرپسندوں کا ڈیٹا بھی حاصل کرلیا گیا ہے جبکہ ان فوٹیجز کی جیو فینسنگ اور فارنزک جاری ہے۔

گرفتاریوں سے متعلق بات کرتے ہوئے شہریار آفریدی کا کہنا تھا کہ ہم نمبر بڑھانے کے لیے گرفتاریاں نہیں کر رہے بلکہ ایک قانونی طریقے سے فریم ورک کے ساتھ اس معاملے میں حکومت آگے جارہی ہے۔

وزیرِ مملکت نے کہا کہ وزیرِاعظم عمران خان کا واقح پیغام ہے کہ قانون میں سب برابر ہیں، چاہے اس میں اراکینِ پالیمنٹ یا وفاقی کابینہ کے وزرا ہی شامل کیوں نہ ہوں۔

اپنے خطاب کے اختتام پر انہوں نے چیئرمین سینیٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہ ’تمام پارلیمنٹیرین کے لیے قومی سلامتی سے متعلق ایک حد کا تعین کریں، تاکہ کوئی بھی پارلیمنٹیرین سیاسی مفاد کے لیے اُس حد کو پار نہ کرے جس سے ملک اور قوم کو ناقابلِ تلافی نقصان ہو‘۔

اپوزیشن نے اجلاس کے دوران کورم کی نشاندہی کی لیکن اس کے باوجود اجلاس جاری رہا۔