اسلام آباد: مسلم لیگ (ن) کے صدر اور اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کی گرفتاری پر بلائے گئے قومی اسمبلی کے خصوصی اجلاس میں حکومتی اور اپوزیشن اراکین آمنے سامنے آگئے اور ایک دوسرے پر شدید تنقید کی۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے کہا کہ پارلیمنٹ اس لیے نہیں یہاں آئیں بحث کریں چلے جائیں، ریاست کے اندر جو خلفشاراورحالات پیدا ہوتے ہیں وہ یہاں زیر بحث آتے ہیں، آئین کہتا ہےکہ پارلیمنٹ اداروں کی ماں ہے، اداروں کے لیے قانون اور آئین بناتی ہے، حقیقت یہ ہے کہ پارلیمنٹ سپریم ہے، پی پی نے ہمیشہ پارلیمنٹ کی سپرمیسی کے لیے لڑائی لڑی ہے اور ہمیں لڑتے ہوئے پچاس سال ہوگئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جمہوریت کے لیے اپنی جانوں کی قربانی دی، اس کے وجود کے لیے ہم نے کوشش کی اور پی پی اپنی اس سیاسی جدوجہد میں کامیاب ہوئی، ہمارے لیے ضروری نہیں کہ ہماری حکومت ہوتو جمہوریت ہو، ہم جمہوریت اور جمہوری روایات کا تسلسل چاہتے ہیں لیکن ایک طرف پھر اس طرف گامزن ہیں جہاں جمہوری روایات کو پامال اور تاریخ کو مسخ کیا جارہا ہے جس سے جمہوریت کو خطرہ محسوس ہورہا ہے۔
خورشید شاہ کا کہنا تھاکہ 88ء سے لے کر آج تک پہلی مرتبہ ہے جب اپوزیشن لیڈر کو گرفتار کیا گیا، اس بحث میں نہیں پڑتا کیا سچ کیا جھوٹ ہے، اپوزیشن لیڈر نے وضاحت کردی، جو چیزعدالت میں چل رہی ہے ہم اسے چیلنج نہیں کررہے، صرف بہتری کے لیے پیشکش ہے، ہمیں اس لڑائی کا خوف یہ نہیں کہ اپوزیشن لیڈر جیل چلے گئے قیامت ہوگئی، وائس چانسلر جیل گئے تباہی ہوجائے گی، تاجر اور بزنس مین پریشان ہیں، نیب کے کیسز کی وجہ سے پریشان ہیں کہ پتا نہیں کیا ہوجائے گا۔
پی پی رہنما نے مزید کہا کہ ہمیں پاکستان کے آج کے حالات کی فکر ہے، آج جو مسائل سامنے آرہے ہیں اور جو عوام کے اوپر دباؤ آرہا ہے، معیشت تباہ ہورہی ہے، پاکستان کے عوام پریشان ہیں، پاکستان صرف حکومت یا اپوزیشن کا نہیں، ہم چاہتے ہیں یہ پارلیمنٹ اور حکومت چلے، اس حکومت نے جو وعدے کیے اور منشور دیا اس پر عمل کرے، پارلیمنٹ کا استحکام ملکی سالمیت کی بقا ہے، پاکستان نے آمر دیکھے، انہوں نے ملک کی سالمیت کو تباہ کیا اور اسے توڑا ہے، ملک میں چالیس سال ڈکٹیٹر رہے، ان کاکوئی احتساب نہیں، انہیں کوئی نہیں پوچھتا، یہ ملک توڑ دیتے ہیں اس لیے نہیں پوچھتے کہیں نقصان نہ ہوجائے، ساری تلواریں سیاستدانوں پرآتی ہیں اور ہم ایک دوسرے پرالزمات دیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم پارلیمنٹیرین عوام کے نمائندے ہیں اور ایک ہیں، ہم رویہ یہ رکھتے ہیں کہ ہم اچھے اپوزیشن بری،اس تقسیم نے ہمیں تباہ کردیا، لوگ ہم پر شک کررہے ہیں، وہ لوگ بچ جاتے ہیں جو ملک کی تباہی کا سبب بنتے ہیں، جب وہ بچ جاتے ہیں اور ہم آتے ہیں تو وہ حملہ کرتے ہیں کیونکہ وہ بچے رہتے ہیں، کسی کو احساس ہےکہ اس لڑائی نے کتنا نقصان دیا، کہاوت ہے کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا آٹھ آنے۔
خورشید شاہ کی غلط کہاوت پر ایوان میں شور شرابا ہوا اور کہاوت میں آٹھ آنے کی بجائے بارہ آنے کی آوازیں آئیں،اس پر پی پی رہنما نے کہاکہ چلو بڑھادیتے ہیں مہنگائی ہوگئی ہے۔
پی پی رہنما نے کہا کہ ہمارا قرضہ 24 ہزار کھرب ہے، جیسے ہی حکومت آئی یہ 27 ہزار سے اوپر چلاگیا، آج پاکستان کےعوام مقروض ہوگئے، یہ اس لیے ہوا کہ دنیا کا ہم پر اعتماد ختم ہوگیا، 2 ماہ میں 17روپے ڈالر بڑھا، یہ ن لیگ اور پی پی کی حکومت میں نہیں ہوا۔
خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ مجھے ٹی وی پر بے عزت کیا گیا کہ میرے خلاف بھی تفتیش ہے، میرے خلاف تفتیش کی جائے کہاں کرپشن کی ہے، ہم نے کرپشن کی ہے یا ادارے بچائے ہیں، سیاستدان ریاست کے لیے خدمت کرتا ہے، ہمیں ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔
سابق اپوزیشن لیڈر نے وزیراعظم عمران خان کا نام لیے بغیر ان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ نعرے ہوتے ہیں کہ خودکشی کرلوں گا، ضروری نہیں وہ کرے، انہوں نے کوشش کی تھی آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں مگر اب جانا پڑرہا ہے، یوٹرن لینا کوئی گناہ تو نہیں، آئین کےاندر تو نہیں یوٹرن نہیں لے سکتے، ملک کی بہتری کے لیے جارہے ہیں تو جانا چاہیے۔
خورشید شاہ کی تنقید
انہوں نے کہاکہ لوگ پریشان ہیں تو حکومت بھی خوفزدہ ہورہی ہے، ٹیکسز بڑھارہی ہے، 143 فیصد گیس کی قیمت بڑھ رہی ہے۔
خورشید شاہ نے فواد چوہدری کے ہیلی کاپٹر کے کرائے کے بیان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس حکومت میں ہیلی کاپٹر کا کرایہ 55 روپے کلومیٹر ہے جو حکومت کی تاریخی کامیابی ہے، یہ بہت بڑی تبدیلی ہے، پھر بھی آپ کہیں گے تبدیلی نہیں آئی، یہ تبدیلی نہیں تو کیا ہے۔
خورشید شاہ نے فواد چوہدری اور بیرسٹر فروغ نسیم کا نام لیے بغیر بھی ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شدید تنقید کی اور کہا کہ یہاں مشرف کے وکیل بیٹھے ہیں، یہ بہت اچھے آدمی ہیں لیکن رہے مشرف کے وکیل ہیں،ان کی وکالت چھوڑ کر یہاں آگئے، سب کو پتا ہے مشرف کے ساتھ کون تھے، وہ کل ہمارے ساتھ تھے اور ہمارے ترجمان تھے آج یہاں بیٹھے ہیں، قربان قربان جاتے تھے، چمک دیکھی چلے گئے۔
پی پی رہنما نے اسپیکر قومی اسمبلی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ جب آپ کو چھوڑیں گے پھر دیکھوں گا درد کیسا ہوتا ہے، ان کے پاس بہت دلائل ہوں گے، گالم گلوچ سن لو، اب پی ٹی آئی گالم گلوچ بریگیڈ بن گئی ہے، 2013 سے پی ٹی آئی میں گالم کلوچ کے جراثیم آگئے ہیں، یہ خراب نہیں بہت اچھے لوگ ہیں مگر حکمرانی کی بیماری آگئی ہے، ہمیں یہ بیماری نہیں، ہمیں جمہوریت کی بیماری ہے یہ جا نہیں سکتی۔
خورشید شاہ نے فواد چوہدری پر مزید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ 2008 سے 2013 تک کیا تھر نہیں تھا؟ اس وقت کیوں تعریف کرتے تھے؟ آج تھر یاد آیا ہے، شرم ہوتی ہے حیا ہوتی ہے، اتنے بے شرم ہیں کل تھالی میں کھاکرآئے ہو کچھ حیا کرلو، ہمارے چیئرمین کو بھی احساس ہونا چاہیے تھا ان گِدھوں سے بچتے ، ہم سب کو ان گِدھوں سے بچنا چاہیے، پی ٹی آئی کو بھی بچنا چاہیے، پی ٹی آئی کے جو لوگ لڑلڑ کر آئے ہیں، آج معصوم ہوکر گھوم رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھاکہ ہم انکروچمنٹ کرنے کے عادی ہیں، ادارے ایک دوسرے پرانکروچ کرتے ہیں، خواہش ہے خدا کے واسطے سب ادارے اپنی حدود میں رہتے ہوئے اپنا کام کریں اور پارلیمنٹ کو اپنا کام کرنے دیں، پارلیمنٹ والے بھی اپنا کام کریں تو عوام بھوکے نہیں مرسکتے، ہمیں سیاست کو سیاست سمجھنا چاہیے۔
فوادچوہدری کا ایوان میں اظہار خیال
خورشید شاہ کی تقریر کے بعد جب فواد چوہدری ایوان میں اظہار خیال کرنے کھڑے ہوئے تو اپوزیشن اراکین نے شور شرابا کیا اور نعرے بازی کی جس پر وزیر اطلاعات نے کہا کہ اپوزیشن والے حوصلہ رکھیں۔
وزیراطلاعات نے شہبازشریف کی تقریر پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ نیب میں پی ٹی آئی نے ایک چپڑاسی بھی بھرتی نہیں کیا، چیئرمین نیب کی تقرری خورشید شاہ اور ن لیگ نے کی، سارا تفتیشی سیٹ اپ انہوں نے لگایا، نیب کے موجودہ سیٹ اپ میں نوازشریف اور خورشید شاہ تھے، آج کے چیئرمین نیب پر بڑی تنقید ہوئی لیکن ماضی میں سیف الرحمان کو چیئرمین لگایا۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ن لیگ والے جب اختیار میں تھے تو کوئی ایسا لیڈر نہیں تھا جو ان کے شرسے محفوظ ہو، پچھلے دورمیں وزیراعظم عمران خان پر 32 کیس بنے جن میں 8 دہشت گردی کے تھے، ہمارے سیکڑوں کارکن دہشتگردی کے پرچے میں نامزد ہوئے۔
وزیراطلاعات نے کہا کہ ہم ناتجربہ کار ہیں اور یہ تین تین نسلوں سے پاکستان پر حکومت کررہے ہیں۔
فواد چوہدری کی شعر پڑھ کر حکومت پر تنقید
فواد چوہدری نے (ن) لیگ کے دور حکومت پر تنقید کرتے ہوئے منیر نیازی کا شعر بھی سنایا اور کہا کہ ان کے دور پر منیر نیازی نے شعر کہا ہے
منیرؔ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
وزیراطلاعات کا کہنا تھاکہ ان کی حرکت تیز رہی جب حکومت میں آئے تو کسی کے پاس دھیلا نہیں تھا ،آج خاندان کا ہرفرد کھرب پتی ہے، خوشی ہوئی جب اپوزیشن لیڈر نے بار بار جائیداد ثابت ہونے پر استعفے کا کہا، ان سے پوچھنا چاہ رہا تھا کہ یہ رول نواز شریف پر لاگو ہوتا ہے یا نہیں؟ یہ جو مقدمات ہیں ایک بھی ہمارا بنایا ہوا نہیں، چاہے وہ صاف پانی، آشیانہ یا ایون فیلڈ ہو، ہمارا ان مقدمات سے کوئی تعلق نہیں، جب بھی وزیراعظم نے یہ بات کی کہ پچاس چوروں کو پکڑنا ہے اور چوروں کو نہیں چھوڑیں گے، تو اپوزیشن کیوں پریشان ہوجاتی ہے، یہ بات سمجھ سے باہر ہے، جولوگ ایسے نہیں وہ بھی پریشان ہوجاتے ہیں۔
فواد چوہدری کا کہنا تھاکہ اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ ان پر مقدمہ بن گیا تو پاکستان اور چین کے تعلقات خراب ہوجاتے ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے اور جب آپ اتنا عرصہ اقتدار میں رہیں تو آپ جمہوریت کی بجائے بادشاہت کی طرف جاتے ہیں، اس لیے انہیں لگتا ہے ہم نہ ہوں تو چین سے کیسے تعلقات ہوں گے مگر آج ہمارے ان تمام ممالک سے تعلقات مضبوط تر ہیں اور مزید مضبوط ہورہے ہیں۔
وزیراطلاعات نے کہا کہ ن لیگ سے پوچھتا ہوں کہ اصغر خان کے مقدمے میں ہمارا ساتھ دیں گے؟ اور اس میں جو ملزم ہیں انہیں سزا ہونی چاہیے؟ انہوں نے اپنے مقدمے پر بات کی، یہ وہ جانیں اور نیب جانے، ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں۔