خبرنامہ

لاپتہ افرادکے خاندانوں کیلئے وزیراعظم کا بڑا فیصلہ

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

میں اپنی غیور اور محب وطن مسلح افواج کو سلام پیش کرتا ہوں کہ اس نے کمال صبر اور حوصلے سے اپنے خلاف طاغوتی مہم کو برداشت کیا، اس کے لیے ہر کوئی اسے داد دے گا۔ ملک کے اندر لا پتا افراد کے بارے میں ایک عرصہ سے پروپیگنڈا مہم جاری ہے۔ کبھی میڈیا نے زہر آلودہ زبان استعمال کی، کبھی سول سوسائٹی نے ہٹلر کے وزیر گوئبلز سے بڑھ کر جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا، گوئبلز کا نظریہ تھا کہ اتنا جھوٹ بولو کہ اس پر سچ کا گمان ہو۔ کبھی عدلیہ کی طرف سے کڑوے کسیلے ریمارکس جاری کیے گئے اور ایک ایسے ایشو کو اچھالا گیا جس کا میرے نزدیک سرے سے کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ یہ ساری بھونڈی کوششیں پاکستان اور اس کی غیور، بہادر اور شہیدوں کی امانت دار مسلح افواج کے چہرے پر کالک ملنے کے مترادف تھیں۔ یہ شیطانی فعل ملکی اور غیر ملکی ایجنڈے کے تحت انجام دیا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان ایک مہذب اور پر امن ملک ہے مگر اسے دہشت گرد ثابت کرنے کے لیے کرائے کے پٹھوﺅں نے تمام حربے استعمال کیے۔ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت اور پاک فوج کی مردانگی و شجاعت بھارت کو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع اور اپنے عظیم ہمسائے عوامی جمہوریہ چین سے قربت کی وجہ سے امریکا اور اس کی حریف طاقتیں ہمیشہ سازشوں کا جال بنتی رہی ہیں۔ خاص طور پر سی پیگ گوادر اور ون بیلٹ ون روڈ کے منصوبے کے آغاز سے امریکا کو خطے میں اپنے مفادات خطرے میں نظر آرہے ہیں۔ اسی لیے پاکستان کے خلاف گوناگوں پابندیاں عائد کی جاتی ہیں اور ہمارے پیارے وطن عزیز پاکستان میں انتشار پھیلانے کے لیے ملکی اور غیر ملکی ایجنٹ سرگرم عمل ہیں۔ لا پتا افراد کے بارے میں ملکی ایجنسیوں کے خلاف مسلسل یہ زہریلا پروپیگنڈا انھی عالمی طاقتوں کی سازشوں کا شاخسانہ ہے۔
ان تمام حقائق کے باوجود وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت نے اس مسئلے پر گہرا غور و خوض کیا ہے اور لا پتا افراد کے لواحقین کی دل جوئی اور تلافی کے لیے ایک بڑے پیکیج کا اعلان کیا ہے جس کی تفصیل وفاقی وزیر اعظم نذیر تارڑ نے ایک میڈیا بریفنگ میں پیش کی ہے۔ اس پیکیج کے تحت پانچ سال سے زائد لا پتا افراد کے لواحقین کو 50 ,50لاکھ روپے کی امدادی رقم بھی دی جائے گی۔ یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ اگر کوئی لا پتا شخص واپس آگیا تو یہ رقم ان کے خاندانوں سے واپس نہیں لی جائے گی۔ اس فیصلے سے حکومت ِ وقت نے یہ ثابت کیا کہ وہ لا پتا افراد کے بارے میں نیک نیتی سے فیصلے کرنے کو تیار ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ لا پتا افراد کی گمشدگی میں حکومت کا اپنا کوئی کردار نہیں ہے اور نہ اس کے لیے ریاستی اور سکیورٹی اداروں کو مطعون کیا جاسکتا ہے۔بہرحال آپ وفاقی وزیر کی میڈیا بریفنگ ملاحظہ فرمائیں تاکہ آپ پر یہ واضح ہوسکے کہ کچھ عناصر نے اپنے مخصوص مفادات کے لیے رائی کو پہاڑ بنا کر پیش کیا ہے۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ کابینہ نے لا پتا افراد کے خاندانوں کے لیے 50 لاکھ روپے فی کس امدادی پیکیج کی منظوری دے دی ہے۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے، اسی سوچ کے تحت لا پتا افراد کے متاثرین کو ریلیف دیا جا رہا ہے۔ ایک میکنزم کے تحت لا پتا افراد کے 2 ہزار کیسز کو شارٹ لسٹ کیا گیا جس میں سے پانچ سال پرانے ایک ہزار کیسز کو پہلے لیا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ لا پتا افراد کے لواحقین کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے، ان مسائل کے حل کے لیے سفارشات کی منظوری دی گئی جس میں نادرا، بینک اکاو¿نٹس اور جائیداد کے مسائل شامل ہیں۔ کابینہ اجلاس میں لا پتا افراد کے لواحقین کے لیے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو ان خاندانوں کے کیسز کا جائزہ لے گی۔ افغان جنگ کے بعد دہشت گردی نے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، اس میں بین الاقوامی طاقتیں شامل تھیں جنھوں نے پاکستان کو پلے فیلڈ کے طور پر استعمال کیا۔ اس کی وجہ سے ہماری سلامتی کو خطرات لاحق ہو گئے اور اسی سے جڑے بہت سے ایشوز میں سے ایک لا پتا افراد کا تھا، کئی سال سے اس پر بات چیت ہو رہی تھی، سپریم کورٹ نے ایک فیصلے کے ذریعے ہدایات دیں جس پر لا پتا افراد کا کمیشن قائم کیا گیا جو کئی سال سے کام کر رہا ہے۔ حکومتی سطح پر بھی اس کے حل کے لیے کوششیں کی گئیں، پارلیمنٹ میں بحث ہوئی اور مختلف تجاویز زیر بحث آئیں۔ اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ 2022ءمیں پی ڈی ایم کی حکومت میں وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر ایک کمیٹی قائم کی گئی جس میں انھیں کنوینئر بنایا گیا، انھوں نے سٹیک ہولڈرز سے بات کی، وہ کوئٹہ گئے اور وہاں انہوں نے متاثرہ خاندانوں سے بات کی جبکہ سٹیٹ ایجنسیز کا بھی موقف لیا گیا، نگران دور میں بھی لا پتا افراد کے حوالے سے کمیٹی قائم ہوئی اور اس نے مزید کام کو آگے بڑھایا اور سٹیٹ ایجنسیز کا موقف بھی لیا گیا۔
بےشک یہ ریاست کا ایک غیر معمولی اور تاریخی فیصلہ پانچ سال سے زیادہ عرصے والے ”گمشدہ افراد“ کے متاثرہ خاندانوں کے دکھ میں شامل ہونے کے لیے ریاست کا ایک مخلصانہ اور مادرانہ رویہ ہے، اس ا قدام کو ریاست یا اس کے اداروں کی طرف سے کسی بھی ذمہ داری کی قبولیت کے طور پر نہیں لیا جانا چاہیے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ”گمشدہ افراد“ کے پیچھے متعدد اور پیچیدہ وجوہات ہیں، حکومت پاکستان نے عوامی ویلفیئر کی ایک اعلیٰ مثال قائم کر دی۔دردناک الزامات کے باوجود ریاست اور اداروں کا یہ ایک مخلصانہ اور قابل تحسین قدم سمجھا جارہا ہے۔ پاکستان میں ہر شہری کی زندگی کا تقدس اور تحفظ اہم ہے، اور ریاست اس مقدس فرض کو یقینی بنانے کی ذمہ داری نبھا رہی ہے۔ ریاست تمام وسائل کا استعمال کرتے ہوئے مسنگ پرسنز کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے پر عزم ہے۔اس عزم کے اظہار کے لیے حکومت پاکستان قومی اتفاق رائے کمیشن برائے قانونی حل لا پتا افراد (این سی ایل آر) کے ذریعے قانونی اقدامات کو مزید مضبوط کر رہی ہے۔
یہ تو تھی وفاقی وزیر قانون کی میڈیا بریفنگ کا حال، اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ لوگ لا پتا کیسے اور کیوں ہوتے ہیں؟بلوچستان میں شر انگیزی پہلے روز سے جاری ہے۔ گریٹر بلوچستان کی سازش کو پروان چڑھانے کے لیے بعض بیرونی ممالک نے صوبے کے عوام کو پیسہ اور اسلحہ فراہم کیا۔ ان کی پاکستان کی سلامتی کے خلاف جنگ 77 برس سے جاری ہے۔ اس جنگ میں کلبھوشن جیسے بھارتی ایجنٹ بھی شریک ہیں اور ایک مقامی طبقہ بھی بیرونی ہاتھوں میں کھیل رہا ہے جو انھیں دلی کے ریسٹ ہا?سوں میں ٹھہراتا ہے۔
اس باغیانہ جنگ کے لیے جو لوگ گھر بار چھوڑ جاتے ہیں، ان کو لا پتا کیسے کہا جاسکتا ہے۔ افغانستان پر روسی افواج نے جارحانہ یلغار کی تو امریکا کی قیادت میں اسلامی جہاد کا آغاز ہوا۔ اس مقصد کے لیے دنیا بھر سے مسلم نوجوان افغانستان میں داخل ہوئے اور پاکستان کے نوجوانوں کو بھی اسی جنگ میں جھونکا گیا۔ اس جنگ میں بھی ہزاروں لوگ لا پتا ہوئے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ لوگ ایک عظیم مشن کے لیے افغانستان میں گئے تھے۔ نائن الیون کے بعد دنیا ایک نئے سونامی سے دوچار ہوگئی۔ اس کے لیے بھی افغانستان کی بنجر سرزمین کو استعمال کیا گیا۔ یہ ایک درد آلود ماحول تھا ،جس میں پاکستان کے بعض عناصر بھی سرگرم عمل ہوگئے۔ کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ لوگ امریکی فوج کے خلاف لڑرہے تھے یا پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال ہورہے تھے۔ ان عناصر سے افغانستان بھرا پڑا ہے۔ سینے پر ہاتھ رکھ کر کہیے کہ کیا اس کے لیے حکومت ِ پاکستان یا اس کے ریاستی و سکیورٹی اداروں کو مورد ِ الزام ٹھہرایا جاسکتا ہے؟ میرا جواب ہے، ہرگز نہیں۔ حکومت کا حالیہ فیصلہ اس حقیقت کا بین ثبوت ہے۔