خبرنامہ

مثبت تبدیلی….مفتی منیب الرحمن

علماء سے شکایت

مثبت تبدیلی….مفتی منیب الرحمن

’’رابطۂ عالم اسلامی ‘‘کے زیرِ اہتمام مکۂ مکرمہ میں 12و13دسمبر 2018ء کو ’’المؤتمر العالمی‘‘ (World Convention)کا انعقاد ہوااور مجھے بھی اس میں شرکت کا موقع ملا ۔ ماضی میں رابطہ کے زیرِ اہتمام اس طرح کی کانفرنسیں یا کنونشن وقتاً فوقتاً منعقد ہوتے رہے ہیں ، لیکن اُن میں زیادہ تر اُن کے ہم خیال علماء کو مدعو کیا جاتا رہا ہے ،اس مرتبہ صورتِ حال یا منظر ماضی سے مختلف نظر آیا ۔اس بارمتعدد ممالک سے ہم خیال کے ساتھ ساتھ مختلف الخیال علماء کو بھی مدعو کیا گیا تھا، گویا یہ عالمی سطح پراہلِ فکر ونظر کا ایک وسیع تر اور متنوِّع اجتماع تھا،اس میں مختلف مذاہب حتیٰ کہ صوفیہ کے بھی نمائندے شامل تھے،اس میں پہلی بار عام روایت سے ہٹ کراہلسنت کے چند علماء کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ مُتنوِّع اور مختلف الخیال اہلِ فکر ونظر کو ایک فورم پر جمع کیا جانا بجائے خود ایک قابلِ قدر بات ہے ،خواہ اس کی تحریک اُن کے اندر سے پیدا ہوئی ہو یا حالات کے جبر کے نتیجے میں اسے اختیار کیا گیا ہو، یہ بہر حال قابلِ تحسین ہے ۔اس ’’المؤتمر العالمی‘‘ کا اعلامیہ کافی مبسوط ہے اور کسی عالمی کانفرنس یا کنونشن کا اتنا مبسوط اعلامیہ کم دیکھنے کو ملتا ہے ۔ اعلامیے کے آخر میں 26نکات پر مشتمل ’’توصیات‘‘یعنی Recommendationsیا سفارشات ہیں۔
اس اعلامیے یا اس کی توصیات میں ایک ہی جیسے الفاظ کا تکرار بہت ہے اور عجلت میں انجام دیے ہوئے کاموں میں اس طرح کا تکرار یا حشو وزوائد کا پایا جانا ناگزیر ہے ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اس وقت امتِ مسلمہ عالمی سطح پر بے حد دباؤ کا شکار ہے ، سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا سانحہ ترکی میں سعودی قونصل خانے میں رونما ہوا اور اس کے نتیجے میں عالمی سطح پر ولی عہد محمد بن سلمان کافی دباؤ میں ہیں ،اگرچہ وہ استقامت اور مزاحمت کا تاثّر دے رہے ہیں اور یہ اُن کی ضرورت بھی ہے ۔میں نے کوشش کی ہے کہ اس اعلامیے کے مندرجات کو آسان الفاظ میں اور مربوط انداز میں آپ کے سامنے بیان کروں تاکہ بار بار ایک ہی طرح کی باتوں کے تکرار سے طبیعت اکتا نہ جائے۔
اس اعلامیے اور ضمیمے کے طور پر ’’تَوصِیَات ‘‘کا عمیق نظر سے مطالعہ کریں تو آپ پر عیاں ہوگا کہ امت کو بار بار اقوامِ عالَم کو یقین دہانی کرانی پڑ رہی ہے کہ ہم ایک متوسط مزاج ،معتدل اور متوازن امت ہیں ، کسی قسم کی نفرت انگیزی ،دہشت گردی،انتہا پسندی اور جذباتیت سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے اور ہم برسرِ عام ان رویوں کی مذمت اور ان سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہیں ۔ان باتوں کا مختلف انداز میں بار بار اعادہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ حکومتیں ان چیزوں کا کنٹرول کریں ۔
ان توصیات میں جو اہم نکات ہیں ، میں اُن کی نشاندہی کرنا ضروری سمجھتا ہوں ، کہا گیا ہے :
(1)’’مسلمان اپنی پہچان اُس نام سے کرائیں ،جس سے اللہ تعالیٰ نے انہیں موسوم کیا ہے ،ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اُس نے تمہارا نام مسلمان رکھا، پہلی کتابوں اور اس کتاب (قرآن)میں بھی ،(الحج:78)‘‘۔پس اسلام ہی وہ عظیم تر اور وسیع تر سائبان ہے ،جس کے زیرِ سایہ ہمیں ملتِ واحدہ اور جسدِ واحد بن کر رہنا چاہیے ۔ہمیں اپنے تفردات اور تمیُّزات کو نمایاں کرنے کے بجائے مشترکات پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے‘‘۔ کاش کہ یہ آواز اس مقدس مقام سے بہت پہلے بلند ہوئی ہوتی ۔
(2)’’غیر مسلم ممالک میں رہنے والے مسلمان ،جنہوں نے وہاں کی وطنیت کو اختیار کیا ہے یا فطری طور پر وہاں پیدا ہوئے، ان ممالک کو اپنا وطن سمجھیں اور انتہا پسندانہ شعار کو ترک کر کے وہاں کے آئینی اور قانونی دائرے میں رہتے ہوئے اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کریں اور جدو جہد کریں ‘‘۔
(3)’’تکفیر ،تفسیق (دوسروں کو گمراہ قرار دینے) اور تبدیع (دوسروں پر بدعتی ہونے کا لیبل لگانے)کا سلسلہ موقوف ہونا چاہیے‘‘۔اگر حرمینِ طیبین کی سرزمین سے اس پر لفظاً اور معنیً عمل کیا جائے تو میرے نزدیک یہ بہت بڑا سنگِ میل اور فیصلہ کُن موڑ ہے اور امت کی وحدت قائم کرنے اور نفرتوں اور دوریوں کو مٹانے کے لیے مُمِدّومعاون ثابت ہوگا۔ اس سے پہلے ہر خطبے اور خطاب میں وہاں ایسے ہی موضوعات کا صراحت اور اشارات وکنایات میں بیان ہوتا تھا ۔اس بار حرمینِ طیبین کے جمعوں کے خطبات کا لب ولہجہ بھی متوازن نظر آیا۔ حرمین طیبین میں مُجَمَّعُ الملک فہد کی طرف سے مترجم اور حاشیے والا قرآن طبع کر کے مطالعے کے لیے رکھا جاتا ہے اور تقسیم بھی کیا جاتا ہے ۔میں نے عربی کا مختصر حاشیہ بھی دیکھا اور یہاں کے دوستوں نے جو اردو حاشیہ لکھا ہے،وہ بھی دیکھا ، بعض اہم مقامات پر دونوں میں بَیِّن فرق ہے ،مثلاً: خواجہ غریب نواز ،داتا گنج بخش ، کرنی والااور کرماں والا کو شرکِ صریح سے تعبیر کیا گیا ہے ، یہ بہت بڑی زیادتی ہے ، اس میں سعودی علماء کا اتنا قصور نہیں ہے ،جتنا یہاں کے ہمارے دوستوں کا ۔ہمارے ہاں پنجاب میں تو عام طور پر بولاجاتا ہے :’’کرماں والیو! ساڈا وی خیال رکھو‘‘، ’’بندہ پرور! آپ کی توجہ اور عنایت کا طلب گار ہوں‘‘، وغیرہ‘‘، اس میں شرک کہاں سے آگیا۔ سو دوریاں پیدا کرنے اور بڑھانے میں اسی طرح کے لوگوں کی کرم فرمائی کا بڑا دخل ہے۔ یہ تو میں نے اردو حاشیے کی مثال دی ہے، دیگر زبانوں میں بھی اس طرح کے تصرفات اور شاہکار یقیناًمل جائیں گے ۔ وہاں بعض زائرین کو پریشان کرنے والے حضرات بھی زیادہ تر ’’لال رومال ‘‘لپیٹے ہوئے سعودی حلیے میں ادھر ہی کے لوگ ہوتے ہیں۔
(4)’’انفرادی تکفیر ی فتوے جاری نہیں ہونے چاہییں‘‘ ،ہم نے بھی علماء ومشایخ اہلسنت کی توثیقات کے ساتھ اپنی کتاب ’’اصلاحِ عقائد واعمال ‘‘میں یہی بات لکھی ہے کہ جہاں ناگزیر ہو،اس طرح کے فتاویٰ ثقہ مفتیانِ کرام کی ایک جماعت کی توثیقات کے ساتھ جاری ہوں تاکہ اگر کوئی رائے قائم کرنے میں کسی ایک سے صَرفِ نظر ہوتو دوسرا اس کی اصلاح کرلے ، اگر صریح کفر کے اطلاق سے بچنے کی کوئی کمزور توجیہ وتاویل بھی ہو ،تو اُسے اختیار کیا جائے ۔سوہم پہلے ہی سے اس موقف کے حامی اور مُؤیِّد ہیں ،لیکن اب ضرورت اس امر کی ہے کہ حرمین طیبین کی سرزمین سے ان توصیات پر لفظاً ومعنیً عمل کیا جائے ، تو کم وقت میں بہتر نتائج برآمد ہوسکتے ہیں ۔کہا گیا ہے کہ اگر کسی مسئلے میں کسی کی کوئی شاذ رائے ہو تو اُسے اپنی ذات تک محدود رکھے ،اُس کی بنا پر فتنہ انگیزی سے گریز کیا جائے ۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر سوال کسی خاص فن سے متعلق ہو توشرعی رائے قائم کرنے سے پہلے اس کے ماہرین سے رہنمائی حاصل کی جائے ۔
(5)’’یہ بھی کہا گیا ہے کہ علمائے راسخین نوجوانوں کی تربیت کا اہتمام کریں اور اُن میں یہ ملکہ پیدا کریں کہ مقتضائے حال ، یعنی کسی خاص خطے یا زمان ومکان کے تقاضوں کو غیر جذباتی انداز میں سمجھیں اور حتمی رائے قائم کرنے سے پہلے ٹھنڈے دل سے تمام مثبت اور منفی پہلوؤں پر غور کریں ‘‘۔
(6)’’یہ بھی کہا گیا ہے کہ دوسرے ممالک یا خطوں کے بارے میں سمع وبصر اور دماغ کے دریچے بند کر کے فتویٰ دینے کی بجائے ،اُس خطے کے معروضی حالات اور خاص احوال کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے ، ہر جگہ اور ہر خطے میں کسی مسئلے کا سیاق وسباق ایک جیسا نہیں ہوتا ، اس حساسیت اور نزاکت کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے ‘‘،یہ نکتہ نہایت اہم ہے اور اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
(7)’’یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ ہر جگہ ایک’’ علمی وتحقیقی مجلس ‘‘ہونی چاہیے ، جونئے درپیش مسائل ،جنہیں فقہی اصطلاح میں ’’نوازل‘‘ سے تعبیر کیاجاتا ہے ،کے بارے میں امت کی رہنمائی کرے تاکہ دینی شعور کے اعتبار سے غیر راسخ اور ناپختہ ذہن کے لوگ دین کو بازیچۂ اطفال نہ بنائیں، رابطۂ عالم اسلامی کے زیرِ اہتمام بھی ایک ایسی مجلس کے انعقاد کی سفارش کی گئی ہے‘‘۔
اس مرتبہ کانفرنس کے اختتام پر سید المرسلین ﷺ کی شان میں خصوصی عربی نعت بھی پیش کی گئی ، جو ایک شاہکار تھی ۔ نیز میں نے مسجدِ حرام کی دیوار پر صحیح مسلم کی یہ حدیث بھی لکھی ہوئی دیکھی :’’آپ ﷺ سے (آپ کے )ہر پیر کے دن روزہ رکھنے (کے معمول) کی بابت سوال کیا گیا (کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں)،تو آپ ﷺ نے جواب دیا: اس دن میری پیدائش ہوئی اور اسی دن میری نبوت کا اعلان ہوایا مجھ پر (پہلی بار ) وحیِ ربانی نازل ہوئی،(صحیح مسلم:1162)‘‘۔ اس حدیث سے واضح ہے کہ سید المرسلین ﷺ کی ولادتِ باسعادت اور آپ کی بعثتِ مبارکہ ایسی عظیم نعمت کا تشکّر بجا لانا ،خود آپ کی سنتِ جلیلہ ہے اور آپ ہر پیر کو روزہ رکھ کر یہ تشکّر بجا لاتے تھے، اس کے بعد تصورِ میلاد کے بارے میں اختلافات ختم ہوجانے چاہییں ، ہاں اگر کسی کو بعض مظاہر کے بارے میں تردُّد ہو تواُن پر ان کا اختیار کرنا لازم نہیں ہے ،تشکّرِ ولادت تو نفلی روزہ رکھ کر ،نوافل پڑھ کر ، تلاوت کر کے ،اذکار وتسبیحات ودرود اور صدقات دے کر بھی کیا جاسکتا ہے، آپ کو حق ہے کہ ان میں سے کسی بھی شعار کو آپ اختیار کرلیں اور اس بات کو بنائے اختلاف نہ بنائیں۔
(8)’’ایک سفارش میں کہا گیا ہے کہ افلاس ،بیماری اور آفاتِ ارضی وسماوی کے مواقع پر مسلمان جو باہم تعاون کرتے ہیں، وہ خالص اسلامی اور انسانی بنیاد پر ہونی چاہیے اور اُسے اپنے مخصوص مذہبی اور گروہی مقاصد کو مسلّط کرنے یا پھیلانے کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے ، کیونکہ یہ دکھی انسانوں کی ضرورتوں اور مجبوریوں سے ناجائز فائدہ اٹھانے کے مترادف ہے ‘‘۔
(9)’’یہ بھی قرار دیا گیا ہے کہ امت کو درپیش مسائل کا حل مسلکی اور گروہی عصبیت سے بالاتر ہوکر امت کے عظیم تر مفاد میں اور دین کی اعلیٰ تر تعلیمات کی روشنی میں تلاش کرنا چاہیے ‘‘۔
(10)’’ایک ایسی کثیر المقاصد مجلس تشکیل دی جائے جو مسلمانوں کے مختلف طبقات پر مشتمل ہو اور وہ ایک اسلامی منشور ترتیب دے ، جومسلمانوں کے درمیان اختلافات وتنازعات کے حل کے لیے ایسے قطعی اور جامع اصول وقواعد وضع کرے ،جن کی روشنی میں مسلمانوں کے مابین پیداشدہ اختلافی مسائل کو حل کیا جاسکے، اسے ’’میثاقِ مکۂ مکرمہ‘‘کا نام دیا جائے‘‘۔