.بھارتی ریاست کرناٹک کے دارالحکومت بنگلور میں‘ بی جے پی کی ہم خیال تنظیموں نے ایک تقریب منعقد کی‘ جس میں وزیراعظم نریندر مودی نے بھی خطاب کیا۔ یہی وہ تقریب تھی جس میں انہوں نے پاکستان کے صوبے بلوچستان اور گلگت کے عوام کے حق میں آواز اٹھا کر‘ ہمارے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت کی۔ قبل اس کے کہ میں کچھ کہوں‘ مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ نے مودی کی حالیہ تقریر پر دلچسپ تبصرہ کیا۔ انہوں نے کہا ”مودی نے کشمیر فتح کر کے بلوچستان کی طرف رخ کر لیا ہے۔‘‘ انہوں نے بڑے خوبصورت طریقے سے چند الفاظ میں یہ واضح کیا کہ نہ تو کشمیر بھارت کا حصہ ہے اور نہ ہی بلوچستان۔ لیکن نریندر مودی کے توسیع پسندانہ خیالات مختلف مواقع پر‘ اس طرح سامنے آتے ہیں‘ جیسے وہ پورے برصغیر کے حکمران ہیں اور سارے علاقے کی ذمہ داریاں ان کے کندھوں پر ہیں۔حکمران بی جے پی کی قیادت کی اکثریت آج بھی اکھنڈبھارت کے مسترد نظریئے پر یقین رکھتی ہے۔ ان کی بنیادی سوچ میں آج بھی آزادی کی حقیقت کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ بی جے پی کی حکومت کے بیانات اور سرکاری تحریروں میں پرانی اور فرسودہ سوچوں کا اظہار کیا جاتا ہے۔ ضرورت ہے کہ پاکستان کی وزارت خارجہ‘ موجودہ بھارت کی طرف سے طے شدہ منصوبے کے تحت پھیلائے جانے والے گمراہ کن تصورات کی اصل حقیقت عالمی رائے عامہ کے سامنے رکھے۔ خصوصاً مختلف ملکوں کے متعلقہ حکام کے لئے‘ بطور خاص حقائق پر مبنی لٹریچر تیار کیا جائے۔ حالیہ سرکاری بیانات میں یہ کوشش دکھائی دیتی ہے کہ پاکستان دوبارہ تنازعہ کشمیر کو‘ نئے حالات کی روشنی میں دنیا کے سامنے پھر سے پیش کرے۔ مقبوضہ کشمیر کی جنگ آزادی کے حقائق کو دھندلا دیا گیا ہے۔ تبدیل شدہ حقائق کواب تیسری بلکہ چوتھی نسل سمجھ بھی رہی ہے اور ان کی تشکیل میں اپنا حصہ بھی ڈالنے لگی ہے۔ بھارت کی متعصب حکمران جماعت‘ اپنے غاصبانہ عزائم کے تحت کشمیر کی سچائی کو چھپا کر متعصبانہ نظریات سامنے لا رہی ہے۔ جبکہ ہم ابھی تک اپنے ہی پرانے دلائل دہرا رہے ہیں۔ نئے سوالات کی روشنی میں پاکستانی قوم کو تاریخ کی ازسرنوتشکیل کر کے اصل سچائی سامنے لانا چاہیے۔ اس موضوع پر علیحدہ لکھنے کی ضرورت ہے۔ انشاء اللہ مناسب وقت پر یہ قرض چکائوں گا۔ مقبوضہ کشمیر میں ظلم و جبر کی جو نئی لہر‘ گزشتہ چند ماہ کے دوران سامنے آئی ہے‘ اس پر جسٹن رولٹ نے ‘اپنے تازہ ڈسپیچ میں حالیہ واقعات بیان کئے ہیں۔ اس دردبھری صورتحال کی ایک جھلک انہی کے الفاظ میں پیش کر رہا ہوں۔
”انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں گذشتہ ایک ماہ کے عرصے میں تشدد میں اضافے کے سبب تقریباً 60 افراد ہلاک جبکہ پانچ ہزار سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔اس سے شورش زدہ علاقے میں امن و امان کی بحالی کو نقصان پہنچا ہے جبکہ انڈیا اور پاکستان دونوں ہی اس خطے پر دعویٰ کرتے ہیں۔
کشمیر کے ایک شخص عبدالرحمان میر ایک گولی کو اپنے ہاتھ میں لے کر دکھاتے ہوئے کہتے ہیں”اس گولی نے میرے بیٹے کی جان لی ہے۔‘‘ انہوںنے مجھے بتایا کہ پولیس نے دارالحکومت سری نگر میں ان کے گھر پر ایک ماہ قبل چھاپہ مارا تھا۔”انہوںنے کھڑکیاں توڑ دیں اور آنسو کے گولے چھوڑے۔‘‘ انہوں نے دستی بم کے ٹکڑوں کو اپنے بیٹے کے خون سے آلودہ ایک رومال میں سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔انہوںنے بتایا ”وہ میرے بیٹے کو گھسیٹ کر لے گئے۔ ہم پہلی منزل پر ایک کمرے میں تھے اورانہوں نے اسے باغیچے میں لے جاکر گولی مار دی اور وہ وہیں مر گیا۔‘‘ریاستی حکومت ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ پولیس جب سنگ باری کرنے والے نوجوانوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی تھی تو شبیر احمد میر اسی میں مارے گئے۔
جب ہم میر کے والد سے باتیں کر رہے تھے اس درمیان باہر سے دھیمی آوازیں آ رہی تھی اور پھر نعرے تیز ہوتے گئے۔جیسے ہی یہ خبر پھیلی کہ بی بی سی والے وہاں آئے ہیں تو کرفیو کی پروا کئے بنا مزید لوگ جمع ہو گئے۔ ایسے حساس علاقے میں دن کے وقت بھی لوگوں کا باہر نکلنا بند ہے۔وہ ”آزادی، آزادی‘ ‘کا نعرہ بلند کرنے لگے۔سچی بات ہے کہ میں خوفزدہ ہو گیا۔ میں ایک ایسے گھر میں موجود تھا جو پرپیچ گلیوں کے درمیان واقع تھا۔ گھر کے باہر مشتعل بھیڑ تھی جبکہ باہر پولیس نے کرفیو نافذ کر رکھا تھا۔ہجوم کا غصہ انڈیا کے خلاف تھا اور وہ ”انڈیا واپس جاؤ‘‘ کے نعرے بلند کر رہا تھا۔جب برطانیہ نے 1947ء میں انڈیا چھوڑا تو مسلم اکثریتی کشمیر ہندوستان کا حصہ بن گیا اور اس کے بعد سے آبادی کا بڑا حصہ آزادی کا مطالبہ کر رہا ہے۔جب ہم نیچے اترے تو نعرے لگانے والے عزت کے ساتھ پیش آئے۔ وہ ہمیں یہ بتانا چاہتے تھے کہ وہاں کیا ہوا اور یہ پوچھ رہے تھے کہ وہاں جاری بدامنی کو عالمی میڈیا زیادہ توجہ کیوں نہیں دے رہا؟یہ حقیقت ہے کہ پہلے کشمیر کی شورش بڑی خبر ہوا کرتی تھی۔اس سرسبز و شاداب وادی پر جوہری طاقت کے حامل دو ممالک انڈیا اور پاکستان کا دعویٰ ہے۔ انہوں نے اس کے لیے دو جنگیں لڑی ہیں اور یہ دنیا کے سب سے زیادہ فوج زدہ علاقوں میں سے ایک ہے۔تصادم میں اضافے کے خطرات ابھی کم نہیں ہوئے ہیں لیکن دوسرے مسائل جیسے 11/9 اور اس کے بعد ہونے والی جنگ، دولتِ اسلامیہ کے عروج، شام کی جنگ، امریکہ اور یورپ میں دہشت گردی جیسے مسائل نے کشمیر کو کسی حد تک پسِ پشت ڈال دیا ہے۔
تشدد میں حالیہ اضافہ نوجوان جنگجو برہان مظفر وانی کی ہلاکت کا نتیجہ ہے۔ اس 22 سالہ نوجوان کی کشمیر کے غیر متاثر نوجوانوں میں سوشل میڈیا پر زبردست فالوونگ تھی۔برہان کی موت پولیس کے ساتھ تصادم میں آٹھ جولائی کو ہوئی تھی۔ اس بات پر اتفاق نہیں ہے کہ آیا انڈین حکام نے دانستہ طور پر اسے نشانہ بنایا تھا لیکن یہ بات انہیں ضرور معلوم تھی کہ کیا ہونے والا ہے۔ موبائل فون نیٹ ورک بند کر دیا گیا، کرفیو نافذ کر دیا گیا، اور مزید فوجی کمک پہنچائی گئی۔ ایک ماہ سے زیادہ عرصے کے بعد اب بھی انڈیا تشدد پر قابو پانے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔
میں دیکھتا ہوں کہ دو نوجوان سر اور چہرے پر کپڑے لپیٹے، جس میں دیکھنے کے لیے دو سوراخ ہیں، وہ پولیس کی طرف پتھر پھینکتے ہیں۔ میں شام کے دھندلکے میں بچنے کے لیے بھاگتا ہوں لیکن پولیس اہلکار پتھر کو بڑی مہارت کے ساتھ اپنی ڈھال سے روک دیتا ہے اور ایک دوسرا طاقتور غلیل نکال کر پتھر کو واپس پھینکتا ہے۔کمانڈر راجیش یادو ہمیں مطمئن کرنے کے لئے کہتا ہے کہ ”یہ انہیں خود سے دور رکھنے کے لئے ہے۔‘‘لیکن جو بھی ہو اس سے حقیقی نقصان پہنچتا ہے۔
شہر کے صدر ہسپتال میں ایک پورا وارڈ ہے جس میں نوجوان دھوپ کے چشمے لگائے ہوئے ہیں اور یہ چشمے بہت سے خوفناک زخم کو چھپائے ہوئے ہیں۔ایک ڈاکٹر نے بتایا’ ‘چھوٹے چھوٹے چھروں نے آنکھوں کو نقصان پہنچایا ہے اور درجنوں کی بصارت جانے کا خطرہ ہے۔‘‘
ہجوم کو کنٹرول کرنے کے لئے انڈیا کے جابرانہ انداز کو نظر انداز کرنا مشکل ہے، لیکن تشدد کی لہر کے پیش نظر ان کے پاس زیادہ متبادل راستے بھی نہیں۔انڈیا نے کشمیر میں بہت زیادہ فوجی تعینات کر رکھے ہیں اور سخت گیر علیحدگی پسندوں سے بات کرنے کے لیے تیار نہیں۔ دریں اثنا اس بات پر بضد ہے کہ آزادی بات چیت کا حصہ ہو ہی نہیں سکتی۔ انڈیا کی حکمت عملی یہ ہے کہ مزید پولیس اور فوج کو وہاں تعینات کیا جائے اور اس وقت تک رکھا جائے جب تک مظاہرے اپنی موت آپ نہ مر جائیں۔پہلے یہ حکمت عملی کامیاب رہی ہے لیکن یہ خطرناک ہے۔جب رات ہونے لگی تو آخری نوجوان بھی تاریکی میں گم ہو گیا، لیکن یہی منظر کل دوبارہ دہرایا جائے گا۔میں نے ایک تھکے ہارے پولیس اہلکار کو اپنے ہیڈ کوارٹر کی طرف واپس جاتے ہوئے بڑبڑاتے ہوئے سنا: ”ہر ماں ایک برہان پیدا کرے گی۔‘‘