خبرنامہ

ملک برکت علی اور تحریک پاکستان کا شاہنامہ

ملک برکت علی1936ء کے الیکشن میںمتحدہ پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ۔انھیں قائد اعظم نے آل انڈیا مسلم لیگ کی طرف سے ٹکٹ جاری کیا۔ٹکٹ تو راجہ غضنفر علی خان کو بھی دیا اور وہ الیکشن میں کامیاب بھی ہوئے مگر حلف اٹھاتے وقت انھوں نے لوٹا گردی کا مظاہرہ کیا اور وہ حکمران جماعت یونینسٹ کے بنچوں پر جا بیٹھے۔یوں ملک برکت علی اگلے دس سال تک ایک چومکھی جنگ لڑنے کے لیے پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ کے تنہا نمائندے باقی بچے۔اس پنجاب اسمبلی میں بھارت کا موجودہ صوبہ ہریانہ،مشرقی پنجاب اور پاکستان کا موجودہ صوبہ مغربی پنجاب شامل تھے۔ انڈیا کے حکمران انگریز تھے،اور پنجاب اسمبلی کے ایوان میں ہندو ،سکھ اور مسلمان بھی شامل تھے جن کا مقابلہ ملک برکت علی نے تن تنہا کیا۔
ملک برکت علی کا ذکر ہماری تاریخ میں بہت کم ہے، نصابی کتابوں میں بھی انکانام نہیں آتا، اس لیے نئی نسل کے سامنے ان کا شاندار کردار جلوہ گر نہیں ہواجو انھوں نے پنجاب اور مسلم لیگ کے لیے انجام دیا۔اسمبلی سے باہر مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن بھی تھی اور بڑے بڑے قد آور مسلمان لیڈر بھی لیکن اسمبلی کے اندر ان کی آوازبلند کرنے کا فریضہ ملک برکت علی کے کندھوں پر تھا، اس شخص نے پہاڑ جیسا کام کیا مگرتاریخ نے اسے فراموش کردیا اور ہم بھی انھیں بھلا بیٹھے تھے۔ مگرلیجیے ایک کتاب ان پر شائع ہوچکی ہے،جسے ملک برکت علی کے ہونہار اور فرض شناس پوتے ڈاکٹرمحمود شوکت نے تحریر کیا ہے۔محمود شوکت خود آج کے معاشرے میں ایک قد آور شخصیت ہیں لیکن ان کی پہچان ملک برکت علی کے پوتے کے طورپر نہیں کی جاتی ،وہ ایک کامیاب اور معروف سرجن ہیں۔میو ہسپتال،جناح ہسپتال،گلاب دیوی ہسپتال جیسے بڑے ہسپتالوں کے وہ میڈیکل سپرنٹنڈنٹ رہے۔ سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی تقرری ہیلتھ یونیورسٹی کے وی سی کے طور پر کی گئی اور دو سال وہ پنجاب کورونا کمیٹی کے اعزازی ایڈوائزر اور سربراہ رہے۔
ڈاکٹر محمود شوکت نے اپنے دادا کو تاریخ کی گمنامی سے نکالنے کا فیصلہ کیا ،دادا کا بھی بڑا نام اورپوتے کا بھی بڑا نام،ایک بڑے نے دوسرے بڑے پر کتاب لکھنے کے لیے عرق ریزی سے کام لیا۔انہوں نے پنجاب اسمبلی کا ریکارڈ چھان مارا،اسلام آباد کے سیکرٹریٹ کے ایم بلاک میںتحریک پاکستان کے آرکائیوز میں بھی انھوں نے تانک جھانک کی اور ملک برکت علی پر ایک قابل قدر کتاب تالیف کر ڈالی۔اس کتاب کا مسودہ میری میز پر پانچ سال پڑا رہا،شروع میںتو میں نے اس پر گہری تنقیدی نظر ڈالی لیکن پھر میری بینائی کا مسئلہ آڑے آگیاتو میں نے ڈاکٹر محمود شوکت کو مشورہ دیا کہ کتاب کی تدوین کے لیے کسی اچھے لکھاری کی خدمات حاصل کرنا پڑیں گی،اس ضمن میںپہلے تو میرے ذہن میں شعیب بن عزیز کا نام ابھرا، ان سے درخواست کی تو انھوں نے تعاون کی حامی بھر لی مگر میں جلدی ان کی خدمت میںمسودہ نہ پہنچا سکا اور وہ کسی دوسرے پراجیکٹ میں مصروف ہوگئے۔شعیب بن عزیز کے بارے میں میں یہ جانتا ہوں کہ انھوں نے دیگر کتابوں کے علاوہ سابق آئی جی پنجاب پولیس سردار محمد چودھری کی کتاب کی تدوین کا فریضہ انجام دیا تھا جس سے جہان ِ حیرت کی زبان وبیان میں ایک انقلابی تاثیر پیدا ہوئی۔
اب لے دے کے میرے پاس ایک ہی نام تھا اور یہ تھے وحید رضا بھٹی جو میرے راوین فیلو ہیں،وہ گورنمنٹ کالج کے میگزین ’راوی‘ کے ایڈیٹربھی رہے، بعد میں وہ سرکاری ملازمت میںپھنس گئے مگر انھوں نے لکھنے پڑھنے کا سلسلہ بند نہیں کیا۔ وہ اردو، انگریزی اور فرانسیسی زبان پر یکساں عبور رکھتے ہیں۔ ان کی لائبریری میں نادر کتابوں کا ذخیرہ ہے، جو ان کے اعلیٰ ادبی ذوق کی غمازی کرتا ہے۔چند برس قبل لاہور کے ایک ثقافتی ادارے نے ان سے ایک انگریزی کتا ب کا ترجمہ کروایا جو قصے لاہور کے نام شائع ہوئی ۔اس کتاب کو پڑھتے ہوئے قاری کو ہرگز احساس نہیں ہوتاکہ وہ کوئی ترجمہ شدہ کتاب پڑھ رہا ہے۔وحید رضا بھٹی کے قلم، تجربے اور مطالعے نے اس کتاب کو ایک اوریجنل روپ میں ڈھال دیا ہے۔وحید رضا بھٹی کو اس کتاب کے ترجمے پر گراں قدرقومی ایوارڈبھی عطا کیا گیا۔میں نے وحید رضا بھٹی سے ملک برکت علی کتاب کی تدوین کے لیے بات کی تو اتفاق کی بات ہے کہ وہ ان دنوں کسی پراجیکٹ میںمصروف نہیں تھے،چنانچہ میں نے کتاب کا مسودہ ان کے گھر پہنچاد یا۔
وہ لاہور ایئر پورٹ کے سائے میں عسکری 10 کی خوبصورت کالونی میں مقیم رہے، جہاں انسان کا دل خواہ مخواہ مچلتا ہے کہ وہ کوئی تخلیقی کام کرے۔وحید رضا بھٹی نے کتاب تو لے لی مگر مجھے یہ نہ بتایا کہ وہ بھی آنکھوں کی اسی بیماری میں مبتلا ہیں جس نے مجھے پانچ سال قبل اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔اس کے باوجود بھٹی صاحب نے حوصلہ نہیںہارا،وہ نظر کی خرابی کے باوجود فرض شناسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس قومی پراجیکٹ پر مصروفِ عمل رہے۔ بہرحال جو کام چند ہفتوں کا تھا اس پر کئی مہینے لگ گئے۔بھٹی صاحب نے کتاب کے مسودے میں جو تبدیلیاں کی تھیں، ان کی روشنی میں کتاب کو نئے سرے سے کمپوز کرا دیاگیا تاکہ کتاب میں کوئی سقم نہ رہے اور ملک برکت علی کی زندگی کا جیتا جاگتا مرقع اشاعت کے لیے دیا جا سکے۔
میں داد دیتا ہوں ڈاکٹر محمود شوکت کو جنھوں نے انتہائی تحمل سے اپنے دادا کی زندگی کا ہر زاویہ تلاش کر ڈالا۔ میںکتاب کے بارے میں کیا بتائوں، یہ کتاب اب چھپ کر مارکیٹ میں موجود ہے ، قارئین کرام اسے خرید کراپنے ہاتھوں میں پکڑیں گے تویہ خوداپنے بارے میں بولے گی۔میری رائے میں کتاب میں اگر صرف ایک جملہ ہوتا کہ ملک برکت علی دس سال تک متحدہ پنجاب اسمبلی میں آل انڈیا مسلم لیگ کی ترجمانی کا فریضہ انجام دیتے رہے ہیں تو کتاب پھر بھی مکمل تھی۔یہ ایک بہت بڑا اعزازتھا جو صرف ملک برکت علی کو نصیب ہوا۔آل انڈیا مسلم لیگ اور اس کی کوششوں سے وجود میں آنے والا پاکستان ملک برکت علی کے شاہنامے پر ناز کر سکتا ہے۔