میڈ ان پاکستان وزیر خزانہ۔۔اسداللہ غالب
کشکول توڑ دیا گیا ہے۔
زر مبادلہ کے ریزرو تاریخ کی بلند تریں سطح پر ہیں۔
اعشاریئے حوصلہ افزا ہیں۔
ترقی 4.8 کی شرح سے بتدریج بڑھ رہی ہے۔
وزیر خزانہ اسحق ڈار نے منگل کے روزحامد میر کو انٹرویو دیتے ہوئے جب یہ کہا کہ اب عالمی مالیاتی اداروں کو خدا حافظ کہنے کاوقت آ گیا ہے تو میرادل بلیوں اچھلنے لگا۔میرا سر فخر سے بلند ہو گیا کہ میں اب بھیک منگی قوم سے تعلق نہیں رکھتا۔
میاں نواز شریف نے اپنی انتخابی مہم میں وعدہ کیا تھا کہ اقتدار میں آ کر کشکول توڑ دیں گے ۔
میڈیا اور اپوزیشن کی طرف سے بار بار سوال ا ٹھایاجا رہا تھا کہ کہ یہ وعدہ کب پورا ہو گا۔
اورا سحق ڈار نے یہ ممکن کر دکھایا، ان کا کہناہے کہ دوبئی میں آئی ایم ایف کے بارہویں ریویو کے بعد ہم اس ادارے کو خدا حافظ کہہ دیں گے۔
یہ بات کوئی میڈ ان پاکستان وزیر خزانہ ہی کر سکتا ہے۔
ہمیں ماضی میں امپورٹڈ وزیر خزانہ ا ور وزیر اعظم ملتے رہے، وہ عالمی مالیاتی اداروں کے تنخواہ دار تھے، ان کی کوشش رہی کہ پاکستان کو بھیک مانگنے اور جھولی پھیلائے رکھنے پر مجبور رکھا جائے۔
اکتوبر ننانوے میں اسحق ڈار امریکہ میں تھے، ان کے فون پر لاتعدا د ایس ایم ایس موصول ہوتے رہے، یہ شوکت عزیز کی طرف سے تھے جو ایک عالمی مالیاتی ادارے سے وابستہ تھے، اسحق ڈار جانتے تھے کہ موصو ف کی اپنے ادارے میں مزید ترقی ممکن نہیں ہے،ا سلئے وہ پاکستان میں نوکری کا خواہاں ہے، شوکت عزیز فوری طور پر ملاقات چاہتے تھے مگر اسحق ڈار بے حد مصروف تھے، پاکستان واپسی پر بھی ان کی مصروفیات بے اندازہ تھیں، شوکت عزیز کے بے حد اصرار پر انہوں نے اسے 23 اکتوبر 1999 کی تاریخ دے دی، مگر بارہ اکتوبر کو ھکومت کا تختہ الٹ دیا گیا، اس طرح وہ شخص جو کسی معمولی نوکری کی تلاش میں تھا،ا سے جنرل مشرف نے وزیر خزانہ بنا دیا۔اور پھر وزیر اعظم بھی۔
امریکہ ہی میں ملازمت کرنے والے ایک اور شخص ڈاکٹر عشرت حسین بھی تھے، ان کی ملاقات اسحق ڈار سے وہیں ہو گئی اور انہوں نے بھی پیش کش کی کہ وہ اسحق ڈار کے ساتھ کام کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اسحق ڈار نے توا نہیں کسی کام پر نہ لگایا مگر جنرل مشرف نے ا س شخص کو اسٹیٹ بنک پر بٹھا دیا۔
یہ واقعہ بھی اتناپرانا نہیں جب امریکہ ہی سے معین قریشی کو یکا یک پاکستان مدعو کیا گیا، وہ بھی ایک عالمی مالیاتی ادارے سے وابستہ تھا، اسے نگران وزیر اعظم بنا دیا گیا، ستم ظریفی یہ ہے کہ حلف لیتے وقت وہ امریکی شہری تھا، ا سے پاکستان کا شناختی کارڈ بعد میں بنا کر دیا گیا، پاکستان میں معین قریشی کی جڑیں تلاش کرنے کا فریضہ لاہور پولیس کو سونپا گیا جس نے میانی صاحب میں ایک پرانی، خستہ حال قبر سے اعتراف کروا لیا کہ وہ نگران وزیر اعظم کی ماں کی قبرہے۔ اور معین قریشی نے اس قبر کو اپنی والدہ کی قبر سمجھ کر فاتحہ خوانی کی۔
معین قریشی،شوکت عزیز اور ڈاکٹر عشرت حسین امپورٹد مال تھے، مگر اسحق ڈار اول و آخر پاکستانی ہے۔ اس کا خمیر اسی مٹی سے گوندھا گیا ہے۔
جس طرح کہا جاتا ہے کہ لولی لنگڑی جمہوری حکومت بہترین فوجی حکومت کے مقابلے میں بدرجہا بہتر ہے، اسی طرح میں کہتا ہوں کہ اسحق ڈار پر گو کسی عالمی مالیاتی ا دارے کا ٹھپہ نہیں مگر وہ ایک خالص پاکستانی ہے،اس کی جڑیں پاکستان میں ہیں،وہ یہیں پلا بڑھا اور تعلیم حاصل کرتا رہا۔ گورنمنٹ کالج میں وہ مجھ سے چند کلاسیں پیچھے تھا مگر ملک وقوم کی خدمت کی دوڑ میں وہ زقندیں بھرتا آگے نکل چکا ہے،میں اس کا حاسد نہیں ، اس پر رشک کرتا ہوں ۔ اور پوری قوم کو اس پر فخر ہونا چاہئے ۔ ایوب خان فیلڈ مارشل تھا، پاکستان کا پہلا چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بھی مگر وہ بھی چیخ اٹھا تھا : اے طاہر لاہوتی، اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی ۔
توپھر میرے ساتھ مل کر اسحق ڈار کو داد دیجئے اور کھل کر داد دیجئے کہ انہوں نے طائر لاہوتی کے پروں کو آزاد کر دیا۔
اسحق ڈار پر سب سے بڑا حملہ یہ ہے کہ وہ محض ایک اکاؤ نٹنٹ ہے، صرف دو جمع دو کر سکتا ہے۔مگر دیکھئے کہ اس نے دو جمع دو نہیں ، 23ارب بنا دیئے ہیں ، وہ بھی روپوں میں نہیں ، ڈالروں میں۔ اسوقت ایک معجزہ ہوا ہے، اسحق ڈار نے اپنی تین وزارتوں کے دور کے وسیع تجربے کو بروئے کا لاتے ہوئے پاکستان میں تاریخ کا سب سے بڑا زرمبادلہ کا ذخیرہ کر دیا ہے، اٹھارہ ارب اسٹیٹ بنک کے پاس اور پانچ ارب کمرشل بنکوں کے پاس۔اتنی دولت جس ملک کے پاس اکٹھی ہو جائے تو اسے کشکول کی ضرورت کیوں ہے۔
ایک دو ہفتے کا انتظار کرتے ہیں ، تاکہ رسمی طور پر پاکستان عالمی مالیاتی اداروں کو خدا حافظ کہہ دے، یہ ستمبر پینسٹھ کی جنگ جیسا معرکہ ہے جسے پاکستان نے اسحق ڈار کی مالیاتی لیڈر شپ میں سر کر دکھایا ہے۔
یہ کام محض کسی اکاؤنٹنٹ کے بس کا نہیں، اس کے لئے کسی ماہر اقتصادیات کا ویژن چاہئے۔یہ کوالٹی قائد اعظم کو بھی حاصل تھی۔ وہ تھے تو ماہر قانون اور پھر سیاست کی دنیا کے بے تاج بادشاہ مگر انہوں نے پاکستان کے لئے طویل عرصے کی معاشی منصوبہ بندی کے لئے کمیٹیاں قائم کیں جن کو یہ فریضہ سونپا گیا تھا کہ وہ پانچ پانچ سالہ، تین منصوبے تیار کرے یعنی اگلے پندرہ برس کے لئے معاشی روڈ میپ۔قائد اعظم کے پاس معیشت کی کوئی ڈگری نہیں تھی، محض قانون کی ڈگری تھی مگر ایک لیڈر،جب اسٹیس مین کا درجہ اختیار کر لیتا ہے تو وہ حکومت کاری کی مہارت تامہ سے مالا مال ہو جاتا ہے۔اسحق ڈار محض وزیر خزانہ نہیں، وہ ایک مدبر سیاستدان ہیں، اسٹیٹس مین کے مرتبے پر فائز ہیں۔وہ گوناں گوں ذمے داریاں ادا کرر ہے ہیں۔ عمران خان ا ور ڈاکٹر قادری سے سیاسی مذاکرات بھی کرتے ہیں، پانامہ لیکس پر اپوزیشن سے بھی حساب برابر کرلیتے ہیں۔اور وزیر اعظم کی علالت کے دوران حکومت کا پورا بوجھ بھی اٹھا لیتے ہیں۔
اسحق ڈار نے بڑی نیکیاں کمائی ہوں گی مگر ایک نیکی ایسی ہے جس کے لئے وہ اپنے کلاس فیلو سعید احمد کو پاکستان لائے ہیں۔ یہ ہے پاکستان میں بنکاری کو بلا سودی بنیادوں پر کھڑا کرنا اور چلانا۔یہ ہو جائے تو ہماری معیشت جنت بن جائے۔کاش! اسحق ڈار یہ بھی کر گزریں۔اور پاکستان کو جنت ارضی میں تبدیل کر دیں۔
کہا جاتا ہے کہ اسحق ڈار بڑے ہارڈ نیگوشی ایٹر ہیں۔میں کبھی ان سے ملوں توان مذاکرات کی کہانی سنوں اور پھر آپ کو سناؤں کہ کس طرح انہوں نے وائٹ ہاؤس میں صدر امریکہ اور ان کی ٹیم سے سخت گیر رویہ اختیار کیا اور ایف سولہ کی ساری رقم وصول کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ ہنری کسنجر کی مذاکرات کاری کی دھوم ہے۔اسحق ڈار اپنی کہانیاں سنائیں گے تو لوگ ہنری کسنجر کو بھول جائیں گے۔