خبرنامہ

وارث میرکی میراث اور حامد میر

آج مجھے پروفیسر وارث میر اس لیے یاد آرہے ہیں کہ وہ ایک دلیر ،نڈر اور بے باک کالم نگار تھے۔ انہوں نے1971میں بڑے جرات مندانہ انداز سے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کی مخالفت کی تھی۔ وہ واحد آدمی نہیں تھے جنہوں نے اس آپریشن کی مخالفت کی بلکہ پاک فوج کی مشرقی کمان کے اس وقت کے سربراہ صاحبزادہ جنرل یعقوب علی خان بھی اپنا منصب چھوڑ کر مغربی پاکستان جی ایچ کیو واپس آ گئے تھے ۔جس کے بعد وہاں جنرل ٹکا خان کو بھیجا گیا تھا۔ اسی طرح وہاں ایک سابق ایڈمرل احسن گورنر لگے ہوئے تھے، جو ایک زمانے میں قائد اعظم ؒ کے اے ڈی سی بھی تھے، انہوں نے بھی گورنری سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ ان سب کا موقف یہ تھا کہ اپنے ہی عوام پر ریاست گولی چلائے گی تو مسئلہ گھمبیر ہو جائے گا اور حالات نے وہی نتیجہ نکالا۔
آج میں پھر خوف خوفزدہ ہوں کہ ملک میں پاکستان تحریک انصاف نے ایک ایسا بیانیہ بنانے میں کامیابی حاصل کر لی ہے کہ ان کے لوگوں پر گولیاں چلائی گئیں اور لاشیں گرائی گئیں۔یہ بیانیہ اگرچہ بالکل سراسر غلط ، بے بنیاد اور جھوٹا ہے لیکن پوری دنیا میں پی ٹی آئی کے ورکرز پھیلے ہوئے ہیں اور ہر جگہ پر وہ موثر انداز سے ایک ہی پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ پاکستان میں ان کے کارکنوں پر، ان کی لیڈرشپ پر ظلم ہو رہا ہے اور ان کےبانی لیڈر کو جیل میں پھینکا گیا ہے۔ 1971 میں بنگالیوں کو اپنا بیانیہ بنانے میں بھی اسی طرح ہی جھوٹ بولنا پڑا تھا اور ان کے اس جھوٹ کو ہوا دینے کے لیے انہیں بھارتی حکمران اندرا گاندھی کی حمایت حاصل تھی، جس نے ساری دنیا کا دورہ کیا اور مشرقی پاکستان میں ہونے والےریاستی مظالم کا پراپیگنڈا پھیلایا۔ آج یہ کام پی ٹی آئی کے اوورسیز ورکر زبڑی کامیابی سے کر رہے ہیں۔ اس وقت پاکستان کا میڈیا مشرقی پاکستان کے پراپیگنڈے کے ازالے کے لیے ہرگز میدان میں نہیں اترا تھابلکہ الٹا ہمارے صحافیوں نے قسم قسم کے مضمون لکھے کہ وہاں تو محبت کے زمزمے بہہ رہے ہیں، وہ محبت کے زمزمے تو نہیں تھے بلکہ خون کی آبشاریں تھیں۔ انہوں نے مقامی آبادی کا خون کیا، فوج کا بھی خون کیا اور ریاستی اہلکاروں کا بھی خون بہایا۔کل کے مشرقی پاکستان اور آج کےبنگلہ دیش میں ایک مرتبہ پھر حسینہ واجد نے گولی چلا کر دیکھ لی ہے، 500 نوجوانوں کی لاشیں تڑپی ہیں لیکن کیا ہوا ؟ وہ اپنے اقتدار سے محروم ہو گئیں، اس کے گھر کونذر آتش کر دیا گیا اور اسےجان بچانے کیلئے ہمسایہ ملک بھارت فرار ہونا پڑا۔
خدا نہ کرے اب موجودہ پاکستان پرایسا وقت آئے، اس لیے ہمیں ہوش کے ناخن لینے چاہیئں اور اس پراپیگنڈے کا مقابلہ کرنا چاہیے جو پی ٹی آئی نے پھیلا رکھا ہے ۔کوئی تو ہو جو لوگوں کے سامنےسچ لائے اور دودھ کا دودھ ،پانی کا پانی کر کے دکھائے کہ پی ٹی آئی کتنا جھوٹ بول رہی ہے اور کتنا سچ بول رہی ہے۔ ایسے میں پروفیسروارث میر جیسے بے باک، نڈر اور دلیرکالم نگار اور دانشوروں کی ضرورت ہے جو آگے آئیں اور معاملات کی تحقیقات کر کے سچ کو سامنے لائیں ۔پی ٹی آئی کےپروپیگنڈےکے سامنے پاکستان،پاکستان کے عوام یا ریاست کے ہم نواؤں کاپراپیگنڈا کہیں نظر نہیں آتا۔ریاست نے صرف وائی فائی، انٹرنیٹ اور فائر وال کی پابندیاں لگا رکھی ہیں لیکن پی ٹی آئی کی تمام تر ویڈیوز یوٹیوب،فیس بک اور سوشل میڈیا کے دیگر چینلزپر چلتی ہیں حتیٰ کہ چند روز قبل صوابی میں پی ٹی آئی کا جلسہ براہ راست دکھایا گیا ہے تو ایسے عالم میں ہمیں ضرورت ہے ایسے لوگوں کےپروپیگنڈا کرنے کا مقابلہ کر سکیں اور جھوٹ کو بے نقاب کر سکیں اور دلیری سے کر سکیں اوربلاخوف کر سکیں۔ وہ محبت کے زمزمے نہ بہائیں لیکن بہرحال جو حقیقت حال ہے اس کو تو سامنے لائیں ۔ پروفیسر وارث میر نے جووارننگ دی تھی وہ کسی نے نہیں سنی۔ آج توکوئی وارننگ دینے والا بھی نہیں ہے، اس لیے آج مجھے پروفیسر صاحب بڑی شدت سے یاد آ رہے ہیں۔
اب مجھے صرف حامد میرنظر آتا ہےجوپروفیسر وارث میر کا بیٹا ہے۔حریت فکر کی جو میراث حامد میر نے اپنے عظیم باپ سے پائی، اس کی کما حقہ حفاظت بھی کی ہے۔دونوں باپ بیٹے کی تحریروں میں مواد کی باریکیوں کا فرق ضرور ہے، مگر دونوں کا مقصد عوام تک سچائی پہنچانا ہے۔یعنی ان کی تحریروں اور بیانات میں سچائی کو تلاش کرنا اور اسے عوام تک پہنچانا قدرمشترک ہے۔ ان دونوں کے اظہار خیال کی وجہ سے انہیں عوامی حمایت بھی حاصل ہوئی اور وہ عوام کی آواز بننے میں کامیاب ہوئے۔
حامد میر نے سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی باتوں کو عوام تک پہنچانے کا ایک نیا طریقہ اپنایا۔ انہوں نے اپنے تبصروں اور رپورٹنگ کے ذریعے عوامی آگاہی پیدا کی اورریاستی رویوں پر عوامی تاثر کو سامنے لانے کا موقع فراہم کیا۔حامد میر نے بھی مختلف ویڈیو پروگرامز میں شرکت کی، جہاں انہوں نے بلا جھجکریاست کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے اور عوام کو آگاہی دی۔حامد میر نے ریاست کے اثر و رسوخ اور مداخلت پر کھل کر بات کی۔ وہ صرف رپورٹنگ تک محدود نہ رہے بلکہ بڑے بڑے سوالات اٹھا کر اپنے نقطہ نظر کو واضح کیا۔ وہ اپنے مؤقف کی وجہ سے کئی بار قانونی مسائل میں بھی پڑ چکے ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ انہوں نے اپنی صحافت کی وجہ سے خطرہ مول لیا ہے۔
وارث میر نے اپنے کالمز اور مضامین میں فوجی حکومتوں پر تنقید کی اور جمہوریت کی بحالی کے لیے جدوجہد کی۔حامد میر نے وارث میر کی روایات کو مزید آگے بڑھایا۔ انہوں نے مختلف ٹی وی چینلز پراور اپنے پروگرامز کے ذریعے کھل کر بات کی۔وہ اپنے پروگرامز میںاکثر ایسی شخصیات کو مدعو کرتے ہیں جو ان معاملات پر آزادانہ رائے رکھتے ہیں۔وارث میر سے حامد میر تک کا یہ سفر اس بات کا عکاس ہے کہ صحافتی ورثے میں استقامت اور سچائی کی تلاش کا عمل جاری ہے۔ دونوں نے اپنی اپنی جگہ پر صحافت کو ایک نئے دھارے کی طرف موڑ دیا، جہاں انہوں نےحکومتی پالیسیوں پر سوالات اٹھائے، جو پاکستانی سیاست اور معاشرت کی نوعیت میں تبدیلی کا باعث بنے۔
وارث میر نے اپنی تحریروں میں منطقی اور ادبی زاویوں کا استعمال کیا۔ وہ دلائل کے ساتھ بات کرتے ہیں تاکہ عوام کو بیدار کر سکیں۔حامد میر نے کئی بارریاست کے خلاف کھل کر بات کی ، جو ان کے کردار کو ایک طاقتور اور موثر صحافی کی حیثیت سے پیش کرتی ہے۔ ان کی بے باکی نے انہیں بہت سے مواقع پر خطرے میں بھی ڈالا، لیکن ان کا عزم ہمیشہ مضبوط رہا ہے۔وارث میر نے عوامی شعور کو بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا، جبکہ حامد میر نے اس شعور کو ایک صوتی شکل میں تبدیل کر دیا۔وارث میر نے اچھے متن اور تجزیے کے ذریعے عوامی رائے پر اثر ڈالا، جبکہ حامد میر نے براہ راست سیاسی مسائل پر بحث کر کے عوام خاص طور پر نوجوانوںکے ذہنوں کی گرہ کھولی۔
اگرچہ میں دائیں بازو اور بائیں بازو کی اصطلاحوں سےمتفق نہیں ہوں۔ لیکن چونکہ لوگ اس انداز میں سوچتے ہیں تو میں کہوں گا کہ پروفیسر وارث میر بائیں بازو کے شورش کشمیری تھے۔پروفیسروارث میر کی تحریر سمندر کی تلاطم خیز لہروں کی طرح تھی۔نوائے وقت اخبار کی پیشانی پہ لکھا ہوتا ہے کہ جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا بھی جہاد ہے۔ تو جب انسان وارث میر کی تحریر پڑھتا ہے تو وہ فورا ًیہ پکار اٹھتا ہے:
آئین جواں مرداں حق گوئی و بیباکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
گزشتہ ماہ میں نے اپنی بیماری کے بڑھتے ہوئے اخراجات سے شدید پریشان ہو کر اپنے ایک مہربان صحافی دوست کو درخواست کی کہ وہ وزیراعظم شہباز شریف سے کہیں کہ وہ مجھے علاج کے لیے کوئی امداددیں۔ میرے دوست نے مجھ سے پوچھا کہ وہ آپ کو امدادکیوں دیں؟ میں نےانہیں کہا کہ وزیر عظم نے فردوس جمال کو ایک کروڑ کا چیک علاج کے لیے خود اس کے گھر جاکر دیا ہےتو میرے دوست کہنے لگے کہ وہ تو اداکار ہیں، تم کیا ہو؟ میں نے کہا ،چلیں وہ اداکار تھا تو پھرمجھے بدکار سمجھ لیں، نہ کریں میری سفارش اور ایسا ہی ہوا انہوں نے آج تک میری سفارش نہیں کی۔ اس سے میرے دل پہ جو چوٹ لگی ہے ،میں وہ لفظوں میں کیسے بیان کر سکتا ہوں۔پروفیسر وارث میر نے پتہ نہیں اس طرح کی کتنی چوٹیں کھائیں اور معاشرے کے دوست نما دشمنوںکی طعن وتشنیع کے باعث سےدل ہار بیٹھے ہیں۔ اللہ تعالی انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔