جنوری کے اوائل میں خبر آئی کہ چودھری محمد سرور تحریک انصاف چھوڑ رہے ہیں۔ بتایا گیا وہ پارٹی کی اندرونی سیاست سے مطمئن نہیں ہیں اور انہوں نے پارٹی قیادت کو بھی اپنے تحفظات سے آگاہ کیا ہے۔ تاہم یہ خبر غلط ثابت ہوئی اور چودھری صاحب چھ ماہ گزرنے کے بعد بھی پارٹی میں موجود ہیں۔ سوال یہ نہیں ہے کہ انہوں نے پارٹی چھوڑی یا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ پارٹی میں ہیں تو کس حیثیت میں؟ کون سی ایسی ذمہ داریاں ہیں جو وہ اتنی خاموشی سے نبھا رہے ہیں کہ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہو رہی؟ لوگ پوچھتے ہیں‘ایک ایسا شخص جس نے برطانوی شہر گلاسگو میں لیبر پارٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے 1997ء سے 2010ء تک ہاؤس آف کامن میں بطور رکن خدمات سر انجام دیں‘ جو برطانیہ کا پہلا مسلمان ممبر پارلیمنٹ بنا‘ جس نے پوری دنیا میں کشمیر اورفلسطین کے مسئلہ کو اُجاگر کیا‘ جس نے برطانیہ میں بزنس ایمپائر کھڑی کی اور جس نے گورنر پنجاب جیسے عہدے کو لات مار دی وہ اگر تبدیلی کا نعرہ لگانے والی جماعت میں بھی کچھ نہیں کر سکا تو اس کی کیا وجوہات ہیں؟ میں نے پوری کوشش کی کہ ان ڈیڑھ برسوں کے دوران ان کی پارٹی میں کارکردگی کا تعین کر سکوں لیکن ناکام رہا۔ کارکردگی تو وہ تب دکھا پاتے جب انہیں کوئی عہدہ‘ کوئی ذمہ داری اور فری ہینڈ دیا جاتا۔ خیال کیا جا رہا تھا کہ انہیں پارٹی صدر کا عہدہ دیا جائے گا جو اس سے قبل جاوید ہاشمی صاحب کے پاس تھا۔ اس کی بجائے زبانی کلامی ان کی ذمہ داری پارٹی کی تنظیم سازی پر لگا دی گئی۔ یہ کام انہوں نے کیا کرنا تھا کہ ایک سمندر تھا جسے انہوں نے پار کرنا
تھا۔ وہ جس طرف بھی ہاتھ ڈالتے‘ بھڑوں کا ایک چھتا انہیں کاٹنے کو پڑتا۔ جلد ہی وہ تھک کر بیٹھ گئے۔ لاہور کینٹ میں انہوں نے پارٹی کا ایک خوبصورت دفتر قائم کیا لیکن اس کا بھی انہیں کچھ فائدہ نہ ہوا۔ غالباً پارٹی میں موجود کچھ لوگ یہ چاہتے تھے کہ سرور صاحب صرف پیسہ لگائیں اور تحریک انصاف میں سکہ کسی اور کا چلتا رہے۔ چودھری سرور کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ وہ مضبوط مالی ساکھ کے مالک ہیں چنانچہ قوی امکان ہے کہ ان سے پارٹی کی مالی سپورٹ تو ضرور لی جا تی رہی ہو گی لیکن بدلے میں انہیں سامنے آ کر اپنی صلاحیتیں آزمانے کا موقع نہیں دیا گیا۔ گویا چودھری سرور واپس اسی کیفیت کو پہنچ گئے جس سے تنگ آ کر وہ گورنر ہائوس سے نکلے تھے۔ گورنری چھوڑتے وقت انہوں نے مسلم لیگ ن اور اس سسٹم پر جو الزامات عائد کئے تھے‘ ٹھیک ڈیڑھ برس بعد وہ اسی پل صراط سے دوبارہ گزر رہے تھے۔ وہ گورنر ہوتے ہوئے بھی اپنی آبائی زمینوں پر سے قبضہ مافیا کو نہیں بھگا پائے تھے جس کا برملا اظہا رانہوں نے ایک پریس کانفرنس میں کیا تھا۔ مجھے یاد ہے گورنر پنجاب کے عہدے سے استعفیٰ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ عوام کے لیے کچھ نہیں کر سکے ، اس لیے انھوں نے گورنر کے عہدے سے استعفیٰ دیا۔ گورنر بننے سے قبل انہیں شاید یہ معلوم نہ تھا گورنر کی حیثیت برائے نام ہوتی ہے‘ اصل اختیارات اور طاقت کا منبع وزیراعلیٰ ہوتا ہے۔ یہ اتنی سادہ بات تھی کہ جسے پولیٹیکل سائنس کا عام طالب علم یا اخباری قاری بآسانی سمجھ سکتا ہے۔ تحریک انصاف میں شامل ہونے کی وجہ یہ بھی تھی کہ وہ عوام کے لئے کچھ کرنا چاہتے تھے۔ تحریک انصاف میں انہیں اوورسیز پاکستانیوں نے دھکیلا تھا۔ ان کا خیال تھا تحریک انصاف ہی وہ واحد جماعت ہے جو تبدیلی لا سکتی ہے اور جس پر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔ آج چودھری صاحب کو دیکھ کر وہی اوورسیز پاکستانی نہ جانے کس کیفیت سے دوچار ہوں گے۔ سوچتے ہوں گے کہ جس جماعت میں چودھری سرور کو عہدہ ملا نہ کام کرنے کی آزادی‘ اُلٹا شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین جیسے پارٹی کے کرتا دھرتا بن گئے اور پارٹی کو یرغمال بنا لیا‘وہ کیا تبدیلی لائے گی۔ چودھری سرور کو جاوید ہاشمی اور جسٹس وجیہہ الدین کا انجام سامنے رکھنا چاہیے تھا جو پارٹی سیاست کا شکار ہو چکے ہیں۔ جب جسٹس وجیہہ الدین پارٹی میں شامل نہ ہوئے تھے‘ تب خان صاحب کو جسٹس صاحب سے عظیم قانون دان کوئی دکھائی نہ دیتا تھا لیکن جب جسٹس صاحب نے پارٹی کے نظم و ضبط اور دیگر معاملات میں اپنا کردار ادا کرنا چاہا تو انہیں بھی دودھ کے بال کی طرح نکال باہر کیا۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے دوبارہ پارٹی کا اندرونی خلفشار کھل کر سامنے آ رہا ہے۔ کبھی ناراض ارکان سے بات چیت کی جاتی ہے کبھی انہیں پارٹی سے نکال پھینکنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ تین سال حکمران جماعت کو راستے سے ہٹانے کی کوشش میں لگ گئے‘ کبھی شجاع پاشا کی مدد سے دئیے جانے والے دھرنے تو کبھی پاناما لیکس کے ذریعے۔ اس نوراکشتی میں صوبہ خیبرپختونخوا اور اس کے عوام منہ دیکھتے رہ گئے۔
گزشتہ دنوں خان صاحب نے جن تیرہ نکات کا اعلان کیا‘ انہیں دیکھ کر ایسا لگا جیسے آج ہی صوبہ میں ان کی حکومت شروع ہوئی ہو۔ یہ وہ کام تھے جو انہیں ابتدا میں کرنے تھے۔ تین سال گزرنے کے بعد توعوام نتائج پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میڈیا میں ان تیرہ نکات کو پذیرائی مل سکی نہ ہی خان صاحب یہ ثابت کر سکے کہ وہ کوئی تبدیلی لا سکتے ہیں۔ آزاد کشمیر میں حکمران جماعت کی جیت تحریک انصاف کے لئے بہت بڑا سوال چھوڑ گئی۔ بیرون ممالک سے کئی لوگوں نے فیس بک اور ای میلز پر لکھا کہ خان صاحب فوری طور پر پارٹی کی جانب توجہ کریں وگرنہ یہ اگلے انتخابات میں بری طرح پٹ جائے گی۔ لوگوں نے کمنٹس کئے کہ وہ فلاں فلاں ملک میں رہتے تھے اور صرف تحریک انصاف کو ایک ووٹ دینے کے لئے گیارہ مئی کو پاکستان آئے تھے۔ بعض لوگوں نے اس امر پر مہرتصدیق ثبت کی کہ خان صاحب خود کو تبدیل نہیں کریں گے۔ کچھ لوگوں نے ایدھی صاحب کے جنازے میں عدم شمولیت پر بھی خان صاحب پر کڑی تنقید کی۔ جس درویش کو تینوں مسلح افواج کے سربراہ سلامی دے رہے تھے‘ اسے عمران خان نے کندھا دینا گوارا نہ کیا‘ اس پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔
یقینا تحریک انصاف کے سربراہ ان چیزوں سے لا علم نہیں ہوں گے تاہم لوگوں کی اکثریت اب ان سے مایوس ہوتی جا رہی ہے۔ انہیں عمران خان کی احتجاج کی کالوں میں بھی دلچسپی نہیں رہی۔ جو لوگ دھرنے میں گئے تھے ان میں سے کئی آج تک عدالتوں میں پیشیاں بھگت رہے ہیں لیکن پارٹی رہنما ان کا فون تک نہیں سنتے۔ جہاں تک تبدیلی کی بات ہے جب انہوں نے چودھری سرور اور جسٹس وجیہہ الدین پر جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو فوقیت دے دی ہے تو پھر تبدیلی کے کیسے دعوے؟ تحریک انصا ف کی شہرت‘ مقبولیت اور ساکھ آج شدید خطرے سے دوچارہے‘ خان صاحب سمجھ نہ پائے تو عوام کے پاس حکمران جماعت پر انحصار کرنے کے سوا کوئی اور چارہ نہ رہے گا کیونکہ اطلاعات کے مطابق حکومت کا سب سے زیادہ فوکس لوڈشیڈنگ کے ایشو پر ہے اور اگر الیکشن سے قبل یہ مسئلہ حل ہو جاتا ہے‘ اگر حکمران بڑے ڈیم نہ بھی بنا پائے لیکن اگر انہوں نے پرانے پلانٹ چالو کر دئیے اور آئی پی پیز کو ایڈوانس ادائیگیاں کر دیں تو پھر الیکشن سے چند ماہ قبل لوڈشیڈنگ برائے نام رہ جائے گی اور اگر ایسا ہو گیا تو پھر حکمران جماعت کو آئندہ الیکشن جیتنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ تحریک انصاف بھی نہیں