خبرنامہ

پاناما لیکس کیس، سپریم کورٹ نے فریقین سے تمام دستاویزات طلب کر لیں

اسلام آباد: پاناما لیکس کیس میں وزیراعظم کے بچوں نے جواب جمع کرا دیئے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ مریم نواز وزیراعظم کے زیر کفالت نہیں جب کہ تینوں بچے کسی سرکاری عہدے پر فائز نہیں ہیں جب کہ عدالت نے فریقین سے کیس سے متعلق تمام دستاویزات طلب کر لی ہیں۔
سپریم کورٹ میں پاناما لیکس سے متعلق دائر درخواستوں کی سماعت چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بنچ کر رہا ہے۔ کیس کی سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے استفسار کیا کہ کیا وزیراعظم کے بچوں کے جواب جمع کرا دیئے گئے ہیں جس پر سابق اٹارنی جنرل اور وزیراعظم کے وکیل سلمان بٹ نے عدالت کو بتایا کہ مریم، حسن اور حسین نواز کے جوابات جمع کرا دیئے گئے ہیں۔
بیرسٹر ظفر اللہ نے کہا کہ کمیشن تشکیل دینے کے خلاف درخواست دائر کر رکھی ہے، پہلے میری درخواست کی سماعت کی جائے جب کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ میرے موکل نے عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف درخواستیں دائرکر رکھی ہیں، ان کی درخواستوں کو بھی ساتھ سنا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جتنی درخواستیں دائر ہیں ان کی سماعت کریں گے۔
سلمان بٹ کا وزیراعظم کے بچوں کے جواب پڑھتے ہوئے کہنا تھا کہ مریم نواز شریف وزیر اعظم کے زیر کفالت نہیں ہیں جب کہ وزیراعظم کے تینوں بچوں میں سے کسی کے پاس بھی سرکاری عہدہ نہیں ہے جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ عدالت کے ساتھ مذاق نہ کریں، آپ کی بات سے زیادہ دستاویزات اہم ہیں، مریم نواز نے خود کو پہلے زیر کفالت ظاہر کیا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وزیراعظم کے وکیل سے پوچھا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ مریم نواز ابھی کسی کے زیر کفالت نہیں ہیں جس پر سلمان بٹ نے کہا کہ مریم نواز 2011 میں کسی کے زیر کفالت نہیں تھیں، کمیشن کے روبرو ساری چیزیں پیش کردیں گے جس پر عدالت نے کہا کہ آپ کے جواب سے لگتا ہے کہ کچھ چھپا رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہم نے کڑوی گولی نگلی ہے، بادشاہ بن کر نہیں بیٹھے کہ جس کے خلاف چاہیں حکم دیں، آئین اور قانون کے مطابق حکم دیں گے، حاکم وقت کی صورتحال دیگر افراد سے مختلف ہے، حضرت عمر کو ایک شخص نے کٹہرے میں لا کھڑا کیا اور سوال اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ پاناما لیکس میں جج کا نام بھی آیا ہے لیکن جج کے خلاف تحقیقات کا طریقہ کار الگ ہے، جو عوامی عہدے پر ہیں ان کا کیس چلتا رہے گا۔ کیا تحقیقات کرنا عدالت کا کام ہے، 600 لوگوں کے خلاف تحقیقات 20 سالہ منصوبہ ہے۔