اسلام آباد(ملت + آئی این پی) سپریم کورٹ میں پاناما لیکس کے معاملے پر وزیر اعظم کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت ہوئی جس میں وزیر اعظم کے بچوں حسن نواز ، حسین نواز اور مریم صفدر نے جواب جمع کرادئیے ۔ وزیر اعظم کے بچوں کی جانب سے نواز شریف کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے عدالت کے سامنے جواب پڑھ کر سنائے۔پیر کو چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے پانامہ لیکس کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس انورظہیر جمالی نے تمام فریقین کو ہدایت کی کہ وہ 15 نومبر تک دستاویزی شواہد پیش کریں جبکہ کیس کی سماعت بھی 15 نومبر تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔ حکومت کی جانب سے درخواست کی گئی کہ انہیں دستاویزی شواہد جمع کرانے کے لیے 15 روز کا وقت دیا جائے تاہم ان کی یہ درخواست مسترد کردی گئی۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دئیے کہ حکومت کے پاس تو پہلے ہی دستاویزی شواہد موجود ہیں، ہم کم سے کم وقت میں معاملے کو نمٹانا چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پیشگی دستاویزی ثبوت طلب کرنے سے مجوزہ کمیشن کو کم سے کم وقت میں فیصلہ کرنے میں مدد ملے گی، اس معاملے کو عام کیس کی طرح سنا تو مقدمہ سالوں چلے گا۔ چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان سے استفسار کیا کہ وہ اپنی رائے بتائیں کہ کیا معاملے پر کمیشن تشکیل دیا جائے یا نہیں؟ آپ کے پاس پاناما کیس کے کیا شواہد اور ثبوت موجود ہیں تو حامد خان نے کہا کہ ان کے پاس شواہد موجود نہیں ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ کیا کمیشن کی بجائے دستاویزات منگوا کر جائزہ لیا جائے؟ہم نہیں چاہتے کہ تاخیر ہمارے کھاتے میں آئے،مناسب وقت نہ دیا تو کل کہا جائے گا کہ کمیشن نے وقت نہیں دیا۔ اپنے ریمارکس میں چیف جسٹس نے کہا کہ نیب ایف آئی اے ،ایف بی آر کو برائی نظر ہی نہیں آتی ۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ یوسف رضا گیلانی کے خلاف فیصلہ دیا وہ پھر بھی عہدے پر برقرار رہے، کورٹ نے بعد میں حکم دیا کہ آپ وزیراعظم نہیں رہے،ہم کلین چٹ بھی دے سکتے ہیں اور مخالف فیصلہ بھی آ سکتا ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ حکومت کے خلاف فیصلہ آیا تو وزیراعظم کہ چکے ہیں کہ وہ عہدے پر نہیں رہیں گے۔ وزیر اعظم کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے حسن نواز، حسین نواز اور مریم صفدر کے جوابات عدالت میں جمع کرائے ۔سلمان اسلم بٹ نے عدالت کو بتایا کہ مریم صفدر اپنا ٹیکس ریٹرن باقاعدگی سے ادا کرتی ہیں، انہوں نے کسی بھی متذکرہ پراپرٹی کی قیمت ادا نہیں کی۔ انہوں نے بتایا کہ مریم نواز نیلسن اور نیسکول کمپنی کی ٹرسٹی ہیں اور انہوں نے یہ الزام مسترد کیا ہے کہ وہ کسی آف شور کمپنی کی مالک ہیں۔ حسین نواز نے اپنے جواب میں موقف اپنایا کہ وہ 16 سال سے بیرون ملک قانون کے مطابق کام کررہے ہیں، جنوری 2005 سے قبل متذکرہ جائیدادیں ان کی نہیں تھیں۔ سلمان اسلم بٹ نے بتایا کہ حسن اور حسین نے عمران خان کی درخواست میں لگائے گئے تمام الزامات مسترد کردئیے۔ اس موقع پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے سلمان اسلم بٹ سے استفسار کیا کہ آپ نے جواب کے ساتھ تفصیلات کیوں فراہم نہیں کیں جس پر انہوں نے کہا کہ وقت مختصر تھا البتہ مجوزہ کمیشن میں تمام دستاویزات فراہم کریں گے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سلمان اسلم بٹ سے پوچھا کہ ٹرسٹی کا کام کیا ہوتا ہے؟ جس پر انہیں بتایا گیا کہ ٹرسٹی کا کام اپنی خدمات فراہم کرنا ہوتا ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ عدالت کو مطمئن کریں کہ خریداری قانون کے مطابق تھی، عدالت کو مطمئن کریں قانون کے مطابق رقم بیرون ملک منتقل کی گئی، آپ عدالت کو مطمئن کریں اور سکون سے گھر چلے جائیں۔اس موقع پر درخواست گزار طارق اسد نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ یہ کیس عمران خان اور نواز شریف کے خلاف ہے۔چیف جسٹس نے ان سے پوچھا کہ کتنے لوگ آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں جن کے نام اسکینڈل میں آئے ہیں جس پر طارق اسد نے کہا کہ 400کے قریب کمپنیاں اور لوگوں کے نام پانامہ لیکس میں شامل ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ 800لوگوں کے خلاف تحقیقات ہوں تو یہ کام کئی سال چلے گاحاکم وقت کا معاملہ دوسروں سے الگ ہوتا ہے۔چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس انورظہیر جمالی نے تمام فریقین کو حکم دیا کہ وہ 15 نومبر تک دستاویزی شواہد پیش کریں جبکہ کیس کی سماعت بھی 15 نومبر تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔